کیا مولانا فضل الرحمن سے پھر کوئی وعدہ کیا گیا ہے اور کیا انہوں نے ایک بار پھر اس پر یقین کر لیا ہے؟
آج کے اخبار کی شہ سرخی ان کے ارشادات سے روشن ہے: ''ہماری جنگ حکومت کے ساتھ ہے، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نہیں۔ اس سے ہمیں گلے شکوے ہیں اور شکایت اپنوں ہی سے ہوتی ہے...‘‘
مولانا کایہ نیا ارشاد بتا رہا ہے کہ دریامیں اب طغیانی نہیں ہے۔ لہروں میں ٹھہراؤ آ رہا ہے۔ کہاں وہ عالم کہ 'میرے طوفاں یم بہ یم، دریا بہ دریا، جو بہ جو‘ اور کہاں یہ عالم کہ محبت بھرے شکوے اور مٹھاس بھرا لہجہ۔ یہ تبدیلی کیسے آئی؟ یہ نیب کی کارروائی ہے یا پھر کسی کا اشارۂ ابرو؟ مقدور ہو تو حضرت اقبال کے الفاظ میں مولانا سے پوچھوں:
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
یہ مولانا تھے جنہوں نے سب سے پہلے پسِ پردہ قوت کو ہدف بنایا۔ اس بلند آہنگی کے ساتھ کہ کوہ ودمن سکتے میں آگئے۔ وہی تھے جنہوں نے احتجاج کا رخ اسلام آباد کے بجائے راولپنڈی کی طرف کرنے کا اشارہ دیا۔ سب نون لیگ اور پیپلزپارٹی کو کوس رہے تھے کہ لانگ مارچ میں اس مردِ جری کا ساتھ کیوں نہیں دیا۔ تجزیہ کارخبردار کررہے تھے کہ اصل مزاحمت مولانا کی طرف سے سامنے آنے والی ہے۔
مجھ جیسے جمہوریت پسند مولانا کو اصحابِ عزیمت کی صفِ اوّل میں دیکھ رہے تھے۔ میں نے یقین کر لیا تھاکہ جمعیت علمائے ہند کی اُس تاریخِ حریت کا احیا ہو رہا ہے جس کے مظاہر انگریزوں کے ظلم کے خلاف دیکھے گئے۔ مولانا بھی بار بار اپنے اکابر کا حوالہ دے رہے تھے۔ ان کے معروف ٹھہراؤ پر اس بار جذبات کا غلبہ تھا۔ خیال ہوتا تھا‘ اب کچھ ہواکہ ہوا۔
مولانا کے تازہ ارشادات نے لیکن منظر بدل دیا۔ اُن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب ان کا ہدف فرع ہے، اصل نہیں۔ اب انہیں بھی صرف شاخیں کاٹنے سے دلچسپی ہے۔ وہ بھی حال کوبدلنا چاہتے ہیں، مستقبل کونہیں۔ ان کی ترجیح لمحہ موجود میں جینا ہے نہ کہ تاریخ میں۔ مولانا نے مدرسے میں ارسطو کی منطق پڑھی ہے۔ وہ شاید اس موقف کی کوئی توجیہ کر ڈالیں جو ان کے معتقدین کو مطمئن کر دے لیکن مجھ جیسے نیازمندوں کی خلش شاید دور نہ ہونے پائے۔پی ایم ڈی معلوم ہوتا ہے کہ یوٹرن کے عمل سے گزر رہی ہے۔ پہل پیپلزپارٹی نے کی۔ ایک ایک منزل سے آہستہ آہستہ قدم پیچھے ہٹایا۔ لانگ مارچ اور استعفے سے گریز اوراب تحریک عدم اعتماد کاڈول ڈال دیا، جس کے لیے آٹھ نومہینے چاہئیں۔ گویا وعدۂ فردا۔ دوسرا نمبر مولانا کے مقدر میں لکھا تھاکہ ہدف کی تبدیلی سے پیچھے ہٹنے کا آغاز ہوگیا ہے۔ تیسری باری کیا نون لیگ کی ہے؟
احسن اقبال، سیکرٹری جنرل نون لیگ نے کل ہی کسانوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر نون لیگ ضمنی الیکشن جیت گئی تو لانگ مارچ کی ضرورت نہیں رہے گی؟ کیا مطلب؟ کیا ضمنی الیکشن میں ناکامی سے تحریکِ انصاف کی حکومت ختم ہو جائے گی؟ ظاہرہے کہ نہیں۔ پھر لانگ مارچ کی عدم ضرورت کااشارہ کیوں؟ احسن اقبال صاحب کے اس جملے کا مخاطب کون ہے؟
پی ڈی ایم کی تحریک اگر صرف حکومت کے خاتمے کے لیے ہے توبے معنی ہے۔ اس کی بنیاد نوازشریف صاحب کا بیانیہ ہے۔ وہ بیانیہ حکومت نہیں، طریقہ انتخاب کی تبدیلی کا بیانیہ ہے۔ اگر یہ طریقہ اپنی جگہ باقی ہے اور عمران خان صاحب کی جگہ کسی دوسرے کو اس منصب پر بٹھادیا جاتا ہے توپھر یہ تبدیلی میرے کس کام کی، ملک کے کس کام کی؟
اصل مسئلہ ووٹ کی عزت ہے۔ ووٹ کو عزت اُسی صورت میں مل سکتی ہے جب شفاف انتخابات کے نتیجے میں اقتدار عوام کے حقیقی نمائندوں کو منتقل ہوجائے۔ اس کیلئے سازباز نہیں، اعلانیہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ پھر یہ لین دین شرمناک ہے کہ مجھے کیا ملے گا اور تمہیں کیا ملے گا؟ یہ فیصلہ عوام پر چھوڑ دینا چاہیے کہ کس کوکیا دیتے ہیں؟ یہ منزل صرف آئین کی بالادستی سے سر ہوسکتی ہے۔
پی ڈی ایم کی تحریک نے یہ موقع پیدا کیا تھاکہ اس ملک کے دیرینہ مسئلے کاکوئی حل نکل آئے۔ افسوس کہ سیاسی جماعتوں نے اسے سازباز کے لیے ایک فورم سمجھ لیا۔ ہرکسی نے اجتماعی قوت سے انفرادی مفاد کشید کرناچاہا۔ دوسری طرف بیٹھی قوت کیلئے یہ ایک سنہری موقع تھاکہ وہ سب کو انفرادی حیثیت میں سبز باغ دکھائے اور یوں ان کی اجتماعی قوت کو زائل کردے۔ دکھائی دیتا ہے کہ آہستہ آہستہ سب اس جال میں پھنستے چلے جارہے ہیں؟
اتنی کمزور حکومت شاید ہی کسی اپوزیشن کو میسر آئی ہو۔ عام آدمی کے معاشی حالات اتنے خراب ہو چکے کہ آج سفید پوش ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار یہ منظر دیکھا۔ ان حالات میں تاریخ بتاتی ہے کہ معاشروں میں انقلاب آجاتے ہیں۔ یہاں خاموشی ہے جیسے لوگ احتجاج پر موت کوترجیح دے رہے ہوں۔ بے بسی اور مایوسی کی یہ کیفیت اس وقت طاری ہوتی ہے جو لوگ حکومت اور اپوزیشن دونوں سے مایوس ہو جائیں۔
مولانا فضل الرحمن سے بہتر کون جانتا ہے کہ اس مرحلے پرقدم پیچھے ہٹانے کا مطلب، حقیقی جمہوریت کے خواب کو ہمیشہ کے لیے دفن کردینا ہے۔ آج عمران خان صاحب کا رہنا یا نہ رہنا اہم نہیں۔ اہم یہ ہے کہ یہ نظام باقی رہتا ہے یا نہیں؟ آنے والے دنوں میں حکمرانوں کا انتخاب، کیا اُسی طرح ہوگا جیسے2018ء میں ہوا یا ووٹ کی حرمت کو بحال کیا جائے گا؟ اگر حقیقی تبدیلی کے لیے جدوجہد طویل ہو جاتی ہے تو پی ڈی ایم کو اس کا عزم کرنا چاہیے۔
اگر پی ڈی ایم اس عزم کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتی تواس مرحلے پر ہی یہ فیصلہ ہو جانا چاہیے۔ اب لازم ہو گیا ہے کہ وہ لوگ جو تبدیلی کے حقیقی بیانیے کے ساتھ ہیں اور وہ جو انفرادی مفادات کے اسیر ہیں، دونوں میں علیحدگی ہو جائے۔ مجھے اب بھی نواز شریف صاحب اور مریم نواز سے امید ہے کہ وہ حقیقی تبدیلی کیلئے یکسو ہیں۔ مولانا کے بارے میں میرا حسنِ ظن باقی ہے لیکن ان کے تازہ بیانات نے معاملے کو مشتبہ بنادیا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بھی لڑائی نہیں چاہتا۔ لڑائی حکومت سے بھی نہیں ہونی چاہیے۔ مسئلہ تو سیاسی نظام کی درستی ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ اصلاح وہاں ہو جہاں اس کی ضرورت ہے۔ کان میں درد ہوتو کان ہی کا علاج کیا جاتا ہے، آنکھ میں دوا نہیں ڈالی جاتی۔ عمران خان صاحب مسئلہ نہیں ہیں، مسئلے کا نتیجہ ہیں۔ مسئلہ اگر باقی ہے تو محض نتیجہ بدلنے سے کیا ہوگا۔ کل اس طرح کا ایک اور نتیجہ سامنے آ جائے گا۔
پی ایم ڈی کی صرف ایک افادیت ہے اور وہ ہے حقیقی جمہورت کے لیے ایک پلیٹ فارم کا ہونا۔ اگر یہ نہیں ہے توپھرانفرادی مفادات کیلئے اس پلیٹ فارم کا استعمال اس ملک کے عوام کی توہین ہوگی۔ حقیقی جمہوریت صرف اس بات کا نام ہے کہ حکمرانوں کے انتخاب کا واحد معیار عوام کی پسند‘ ناپسند ہونہ کہ کسی فردیا ادارے کی۔ اگر پی ڈی ایم اس کے لیے یکسو نہیں تو پھراس کا وجود بے معنی ہے۔
نوازشریف صاحب کو فوراً کوئی فیصلہ کرنا ہوگا۔اگر مولاناجیسا زیرک اپنا ہدف بدلتا دکھائی دیتا ہے تواس کا مطلب ہے کہ منزل کھوٹی ہورہی ہے۔ اگر مولانا کی یہ سوچ کسی مایوسی کا نتیجہ ہے تو اس کا مداوا ہونا چاہیے۔