اقتدار کی سیاست سے قطع نظر، پی ڈی ایم کی تحریک نے سماج کو کیا دیا؟ سود و زیاں کو پرکھنے کا ایک پیمانہ یہ بھی ہے۔
سیاست، سیلاب کی طرح ہوتی ہے۔ دریاؤں اور نالوں میں جب پانی معمول کی سطح سے بلند ہوتا ہے تو کچھ بہالے جاتا ہے اورکچھ چھوڑ جاتا ہے۔ پانی کو بہرحال اترنا ہوتا ہے۔ پانی اتر جاتا ہے مگراس کے اثرات تادیر باقی رہتے ہیں۔ یہ مثبت بھی ہوتے ہیں اور منفی بھی۔ دریاؤں کے کناروں پر آباد برسوں ان اثرات کو سمیٹتے رہتے ہیں۔
میرا گاؤں دریائے سواں کے کنارے پرتھا۔اب یہ کنارہ دور جاچکا۔ میرے بچپن میں گاؤں کی عورتیں کپڑے دھونے دریا پرجایا کرتی تھیں۔ برسات کے دنوں میں، جب دریا میں طغیانی ہوتی تو ہم اس منظر کو دیکھنے جاتے۔ دریا کیسے زمین کاٹتا اور اپناراستہ تبدیل کرتا جاتا ہے، یہ میرا آنکھوں دیکھا منظر ہے۔ دریا اتر جاتا تو گاؤں کے بچے کھلونے چننے جایا کرتے کہ سیلاب اپنے ساتھ بہت کچھ بہا لاتا اور پھر اسے کنارے پر چھوڑجاتا تھا۔
اس سیلاب کے نتیجے میں زمین کٹتی ہے۔ میرے گاؤں کی بہت سی زرخیز زمین دیکھتے دیکھتے اس کی نذر ہوگئی۔ یہ سیلاب مگربچوں کو کھلونے بھی دے جاتاتھا۔ سیاست کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اس کا سیلاب کسی کو کھلونے دے کرخوش کر دیتا ہے اور زرخیز زمین کو دریا برد کر کے، کسی کو نا خوش بنا دیتا ہے۔ بچے خوش ہو جاتے ہیں مگر گرم و سرد چشیدہ بوڑھے اس زمین کو روتے ہیں جسے دریا کھا گیا۔
1977ء میں مارشل لا لگا توکچھ لوگ بچوں کی طرح خوش ہوئے۔ مٹھائیاں بانٹی گئیں کہ انہیں کھلونے مل گئے۔ کچھ مگر اداس ہوئے۔ وہ جانتے تھے کہ مارشل لا سیاست کی کھیتی کو اجاڑ دیتا اور اسے بنجر بنا دیتا ہے جہاں تادیر کوئی فصل نہیں اگ سکتی۔ نتیجہ اس کے برعکس بھی ہوتا ہے۔ 1947ء میں لوگوں نے بہت نقصان اٹھایا۔ گھر بار لٹ گئے یا چھن گئے‘ مگر وہ مطمئن تھے کہ ان کے بچے ایک آزاد فضا میں پروان چڑھیں گے۔
پی ڈی ایم کے کچھ اہداف عارضی تھے اورکچھ وہ ہیں جن کا تعلق اس ملک کے مستقبل کے ساتھ ہے۔ عارضی اور وقتی اہداف کچھ حاصل ہوئے اور کچھ نہیں۔ 31 جنوری کے بعد بھی حکومت باقی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک عارضی ہدف پورا نہیں ہوا؛ تاہم اس کا کھوکھلا پن نمایاں ہوا اور اس کے قدم لڑکھڑانے لگے‘ گویا حکومت کو کمزور کرنے کا ہدف پورا ہو گیا۔
ایک دور رس ہدف بھی پورا ہوا جس کا تعلق سماج سے ہے، اقتدار کی سیاست سے نہیں۔ پہلی مرتبہ کھلے عام اس ام الامراض کی نشاندہی ہوئی جسے چھپایا جاتا تھا۔ کوئی حجاب باقی نہیں رہا۔ پہل پردہ نشینوں نے کی کہ خود ہی اپنا حجاب اتار پھینکا۔ اہلِ سیاست نے اس سلسلے کو رکنے نہیں دیا اور بتانا شروع کیا کہ نیلے پردے کے پیچھے کون ہے اور پیلے پردے کے پیچھے کون؟
میڈیا کے لیے تو یہ حجاب باقی ہے کہ وہ نیلے پیلے پردوں ہی کی بات کر سکتا ہے‘ لیکن سیاست دانوں اور سوشل میڈیا کے لیے کوئی حجاب نہیں رہا۔ اب ایک عامی بھی جانتا ہے کہ اقتدار کا کھیل کیا ہے؟ اس کے اصل کھلاڑی کون ہیں اور نمائشی کون؟ سیاسی قوت کا مرکز کہاں ہے؟ یہ ممکن ہے کہ خوف زبان پر تالا لگا دے۔ یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی مفاد بات کرنے سے روک دے۔ اس کا امکان البتہ ختم ہوگیا کہ کوئی دھوکہ کھاجائے۔ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجائے کہ ملک میں جمہوریت آگئی ہے۔
کچھ خوش گمانوں کو میں جانتا ہوں کہ وہ آج بھی نقاب پوشوں کو مسیحا مانتے ہیں۔ ان میں کچھ وہ ہیں جوپاکستان میں نہیں رہتے اوراس تلخی سے بے خبر ہیں، جوایک عام پاکستانی کی زندگی میں گھل چکی۔ یا پھر وہ عمر کے اس منزل پہ ہیں کہ انہیں مرفوع القلم سمجھنا چاہیے۔ اس استثنا کے ساتھ، عام آدمی جان چکاکہ اس ملک کی سیاست کو لاحق اصل مرض کیا ہے؟
یہ وہ سماجی تبدیلی ہے جو آچکی۔ اس کا کریڈٹ نوازشریف صاحب کو جاتا ہے کہ انہوں نے بلند آہنگ ہوکر، ناصرف اس کی نشاندہی کی بلکہ اسے عوامی بیانیے میں بدل دیا۔ یہ وہ تبدیلی ہے جو ہم بچشمِ سر دیکھ سکتے ہیں۔ عصری سیاست میں الجھے لوگ اس کا ادراک نہیں کرپاتے مگر مورخ اس کو نظرانداز نہیں کرسکے گا۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک دور کو بے حجابی کا عنوان دیا جائے گا اور ان سب کرداروں کا ذکر ہو گا‘ جنہوں نے ان حجابوں کو اٹھانے میں منفی یا مثبت کردار ادا کیا۔ نواز شریف کا نام اس فہرست میں سرِفہرست ہوگا۔
اس دور کی تشکیل میں مولانا فضل الرحمن کا نام بھی شامل ہو گا۔ پیپلزپارٹی کابھی؛ تاہم تاریخ کا یہ سفر جاری ہے۔ کل کون کیا کرتا ہے، مورخ اس کا ریکارڈ بھی رکھے گا۔ نوازشریف اپنے بیانیے سے مخلصانہ تعلق نبھاتے ہیں یا نہیں، مولانا پھر کسی چوہدری کے وعدے پر یقین کرتے ہیں یا نہیں، زرداری صاحب وقتی مصلحتوں کو قربان کرتے ہیں یا نہیں، ان سوالات کے جواب آنے والے وقت میں ملیں گے اور مورخ کی نظر سے اوجھل نہیں رہیں گے۔
قرآن مجید ایک بوڑھی عوت کی مثال دیتا ہے جس نے اپنے کاتا ہوا سوت اپنے ہی ہاتھوں سے ادھیڑ دیا۔ قرآن ایک بستی کے ان اہلِ خیر کا بھی ذکرکرتا ہے جن کی بات نہیں سنی جاتی تھی مگروہ حق کا علم اٹھائے رکھتے تھے۔ دعوت کے بے ثمرہونے پر ان کا ردِعمل یہ تھاکہ یہ کوشش تمہارے رب کے سامنے ہماری معذرت ہو گی‘ یعنی یہ اطمینان کہ ہم نے توپوری کوشش کرڈالی۔
آنے والے کل میں نوازشریف اس بوڑھی عورت کامصداق بنتے ہیں یا پھر اہلِ خیر کے اس گروہ کا، میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتا؛ تاہم یہ میرا آنکھوں دیکھا منظر ہے کہ انہوں نے پہلی بار حجاب الٹے اورسیاست کواس طرح دکھا دیا جیسی وہ ہے۔ پی ڈی ایم کی جماعتوں نے بھی بقدر جثہ یا توفیق اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ تاریخ کا یہ باب تو رقم ہوچکا اور اس کا کریڈٹ پی ڈ ی ایم کوجاتا ہے۔
2014ء کے بعد اس ملک میں جو کچھ ہوا، پی ایم ڈی کی تحریک نے کم از کم نظری سطح پر اسے ایک قابلِ فہم بیانیے میں بدل ڈالا ہے۔ آج ناصرف گزشتہ سات برسوں بلکہ ستتر سالوں کی تاریخ کو سمجھنا کہیں سہل ہوگیا ہے اور اس کی وجہ نوازشریف اور پی ایم ڈی کی سیاست ہے۔ نوازشریف صاحب نے ہمیشہ ستر، ستتر برسوں کی بات کی۔ اس عرصے میں خود ان کا اپنا بھی ایک کردار تھا۔ وہ جب اس کا ذکر کرتے ہیں تو بالواسطہ اس سے اعلانِ برات کرتے ہیں۔ ان کے ماضی کو دھرانے والے، اس بات کو نظرانداز کردیتے ہیں۔
طاقت کے مراکزکا قبضہ چھڑانا کبھی آسان نہیں ہوتا۔ یہاں کوئی دو مرلے کی زمین پر قبضہ کر لے تو نہیں چھوڑتا اور اگر مربعے کے مربعے اس کے قبضہ قدرت میں ہوں تو کیسے چھوڑے گا؟ پھر یہ کہ سیاست کے ہاتھ میں تلوار نہیں ہوتی۔ وہ عوامی شعور کی بیداری ہی سے اپنے مقاصد حاصل کرسکتی ہے۔ پی ڈی ایم کی تحریک نے یہ کام کردیا۔ اسے وہی ناکام قراردے سکتا ہے جو سیلاب کے اترجانے کے بعد، صرف کھلونوں پرنظر رکھتاہے۔
سیاسی جدوجہد کی یہ خوبی ہے کو خون خرانے کے بغیر سماجی تبدیلی لانے پر قادر ہوتی ہے۔ یہ بات باعثِ اطمینان ہے کہ عوامی سطح پر انسانی جان ومال کے زیاں کے بغیر ایک بڑی نظری تبدیلی آ چکی۔ اب دیکھنا ہے کہ یہ کیسے اقتدار کی سیاست پراثر انداز ہوتی ہے۔ اس کیلئے سیلاب کے گزرجانے اور پانی کے اترجانے کا انتظار کرنا ہوگا۔