کرپشن، دیانت، احتساب، ریاستِ مدینہ... کیا تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ لغت ہی کو بدل ڈالا جائے؟
ہنگامہ برپا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات میں ووٹ کی چوری کو روکنے کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے۔ خفیہ وڈیوز سامنے لائی جا رہی ہیں۔ گویا عام شہریوں کے ووٹ لاکھوں کی تعداد میں چوری کر لیے جائیں تو وہ جرم نہیں‘ مگر اراکینِ اسمبلی کے چند ووٹ چوری ہو جائیں تو وہ جرم ہے۔ کیا دیانت داری اسی کا نام ہے؟
اخلاقیات کے باب میں یہ بحث مدتوں سے جاری ہے کہ یہ تصورات موضوعی ہیں یا معروضی؟ اخلاقیات کا تعین ماحول کرتا ہے یا یہ فطرت کے ان مسلمات پر مبنی ہیں جو تبدیل نہیں ہوتے۔ لبرل نقطہ نظر یہ ہے کہ اخلاقی اصول ماحول طے کرتا ہے۔ یہ سماج اور رائج تصورات سے پھوٹتے ہیں اور روایت بن جاتے ہیں۔ سماج کی ساخت چونکہ مستقل نہیں، اس لیے اخلاقیات بھی مستقل نہیں۔
اس کے برخلاف مذہب اس بنیاد پر کھڑا ہے کہ اخلاقی شعور انسانی شخصیت کا حصہ ہے جو ماحول سے اثر قبول تو کرتا ہے مگر اس کی فطرت اس باب میں فیصلہ کن ہے۔ فطرت میں خیر اور شر کا شعور الہام کیا گیا ہے۔ اس سے کوئی جوہری فرق واقع نہیں ہوتا کہ انسان مشرق میں رہتا ہے یا مغرب میں۔ قبل مسیح کے کسی دور سے تعلق رکھتا ہے یا اکیسویں صدی میں زندہ ہے۔ اخلاقی شعور زمان و مکان سے ماورا ہے۔
مغربی معاشرہ لبرل اقدار پر کھڑا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ وہاں مذہب آج بھی مغربی انسان کی شعوری تشکیل میں حصہ دار ہے لیکن ایک بڑا طبقہ ایسا پیدا ہو چکا جو ایک متبادل نظامِ اقدار پر کھڑا ہے۔ لبرل نظامِ فکر نے اخلاقیات کی دوئی (duality) کا تصور پیش کیا ہے۔ اس تصور کے تحت اخلاق نجی ہوتا ہے اور سماجی بھی۔ نجی معاملات سے دوسرے کو کچھ سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ نہ معاشرے کو نہ ریاست کو۔
اس نظام فکر کے تحت، یہ سماجی اخلاقیات ہیں جو معاشرے اور ریاست کا موضوع بن سکتی ہیں۔ اگر ایک فرد کوئی ایسا قدم اٹھاتا ہے جو اجتماعی سطح پر دوسروں کے مادی مفادات کو نقصان پہنچاتا ہے یا لبرل نظامِ اقدار کو چیلنج کرتا ہے تو اس کے خلاف سماج حرکت میں آ سکتا ہے اور ریاست بھی۔ مثال کے طور پر اگر ایک مرد اور عورت بے تکلف تعلقات پر باہم رضامند ہیں تو ان کو اس سے روکا نہیں جا سکتا۔ یہ شخصی آزادی کی قدر سے متصادم ہے۔ اس کے برخلاف، اگر کوئی مخالف جنس کے ساتھ زبردستی بے تکلف ہونا چاہے تو یہ جرم ہے۔ اب سماج اور ریاست دونوں کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کے خلاف اقدام کریں۔
مذہب کا تصورِ اخلاق وحدت پر یقین رکھتا ہے۔ وہ اخلاقیات کو نجی اور اجتماعی خانوں میں تقسیم نہیں کرتا۔ اس کا تعلق فرد کے تزکیے سے ہے جو داخلی واردات ہے۔ ایک نفس جب پاکیزہ ہوتا ہے تو اس کا ظہور اس کے نجی معاملات میں ہوتا ہے اور اجتماعی معاملات میں بھی۔ اگر یہ نظامِ اخلاق مرد و زن کے باتکلف ہونے کو کسی اخلاق اور قانون کے تابع کرتا ہے تو لازم ہے کہ وہ اس کا پابند ہو، قطع نظر اس کے کہ اس سے معاشرے پر کوئی اثر پڑتا ہے یا نہیں؛ تاہم مذہب کے نزدیک یہ ممکن نہیں کہ ایک فرد نجی معاملے میں بد اخلاق ہو اور اجتماعی امور میں بااخلاق۔ مذہب توجہ دلاتا ہے کہ جب نجی اخلاقیات تساہل کی نذر کر دی جائیں تو ناگزیر ہے کہ یہ تساہل پسندی اجتماعی اخلاق میں بھی در آئے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اخلاقیات کو تقسیم نہ کیا جائے۔
تصوراتِ اخلاق کے اس فرق کے نتائج محض معاشرتی تعلقات تک محدود نہیں۔ یہ معاشی اور سیاسی امور پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں‘ جیسے مذہب کا نقطہ نظر یہ ہے کہ کوئی فرد دوسرے کا معاشی استحصال نہیں کر سکتا۔ سود اس استحصال کی ایک شکل ہے، اس لیے اگر یہ دو افراد کے مابین ممنوع ہے تو ریاست بھی کوئی ایسا معاشی نظام نہیں بنا سکتی جس میں استحصال کی اس صورت کو روا رکھا جائے۔
پاکستان ایک مذہبی معاشرہ ہے۔ ہمارا تصورِ اخلاق مذہبی ہے۔ اس میں اخلاقیات کی دوئی کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ اس میں چوری فرد کرے یا ادارہ، یکساں جرم ہے۔ چوری پیسے کی ہو یا ووٹ کی ناجائز ہے۔ یہاں یہ تصور قابلِ قبول نہیں کہ کوئی پیسے کی چوری نہ کرے اور ووٹ کی چوری کرے تو اس کو دیانت دار مان لیا جائے یا جو ووٹ کی چوری نہ کرے اور پیسے کی چوری کرے تو دیانت دار سمجھا جائے۔ اس کے ساتھ دیانت داری کا فتویٰ جاری کرتے وقت، دیانت کو صرف مادی امور تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔
ہمارا المیہ دوگنا ہے۔ مغرب نے جس تصورِ اخلاق کو درست سمجھا، اس پر عمل کیا۔ اس کے نتائج نکلے اور ان کا اجتماعی وجود ان کے نظامِ اخلاق کا نمائندہ بن گیا۔ ہمارا معاملہ یہ ہوا کہ ہم نے ایک طرف اپنے تصورِ اخلاق کو بدل ڈالا اور دوسری طرف عملاً کوئی تصورِ اخلاق قبول نہیں کیا۔
گزشتہ چند برسوں میں ہم نے کرپشن اور دیانت کو مادی امور تک محدود کر دیا۔ گویا اخلاقیات میں دوئی کے قائل ہوگئے۔ ہم نے یہ مان لیا کہ کسی فرد کی دیانت داری کے لیے یہی بہت ہے کہ پیسے ٹکے کے معاملے میں صاف ہے۔ اب اگر وہ سیاست میں جھوٹ بولتا ہے۔ ووٹ کی چوری کو جائز سمجھتا ہے تو اس کا کوئی تعلق اس کی دیانت سے نہیں ہے۔ اسلام کا تصورِ اخلاق بہرحال اس کو تسلیم نہیں کرتا۔ رائج تصورِ اخلاق اس تبدیلی کا نتیجہ ہے جس کا یہاں بہت شور رہا۔ بہت سے لوگوں کو یہ اندازہ ہی نہیں ہو سکا کہ اس تبدیلی نے کس طرح ان کے تصورِ اخلاق کو بدل ڈالا ہے۔
یہی معاملہ احتساب کا ہے۔ پانامہ میں چار سو افراد کا ذکر ہے۔ سوال یہ ہے کہ شریف خاندان کے علاوہ باقی کہاں ہیں؟ ریاست نے کیوں ان کی خبر نہیں لی؟ شاہد خاقان عباسی کی بہن سینیٹر سعدیہ عباسی کی دُہری شہریت کا مقدمہ دنوں میں نمٹا دیا گیا۔ فیصل واوڈا صاحب کا معاملہ تین سال سے لٹکایا جا رہا ہے۔ ان کا وکیل پیش نہیں ہوتا اور نئی تاریخ دے دی جاتی ہے۔ کیا دیانت اور انصاف اسی کا نام ہے؟
واقعہ یہ ہے کہ تبدیلی کے نام پر ہماری لغت ہی تبدیل کر دی گئی ہے۔ بظاہر دیندار لوگ ہیں مگر دیانت کے لبرل پیمانے کو غیر شعوری طور پر قبول کر چکے‘ جسے یہاں سرکاری سرپرستی میں رائج کیا گیا‘ اور اس سے سیاسی فائدے اٹھائے گئے۔ بت تراشے گئے اور عوام کو ان کی پوجا پر لگا دیا گیا۔ اس سے پہلے یہ نہیں تھا۔ لوگ جن سیاستدانوں کا ساتھ دیتے تھے، انہیں انسان سمجھتے تھے، دیوتا نہیں۔ ان کی خامیاں اور اخلاقی کمزوریاں بھی ان کے سامنے ہوتی تھیں۔ اطلاق غلط ہو سکتا تھا مگر اخلاق کا پیمانہ درست تھا۔
اخلاقی اقدار کی تبدیلی بڑا نازک عمل ہے۔ ہمارے تصوراتِ اخلاق میں غیر محسوس طریقے سے تبدیلی آ جاتی ہے اور ہم بے خبر رہتے ہیں۔ ناخوب بتدریج خوب بن جاتا ہے۔ سیاسی معاملات میں اس کی سب سے واضح مثال آئین شکنی کی ہے۔ لوگوں کے ذہن اس طرح بنا دیے گئے ہیں کہ آئین توڑنا اکثریت کے نزدیک کوئی جرم ہی نہیں ہے۔ سماج کو فتنے اور فساد میں مبتلا کر نے والوں کو مسیحا سمجھا جاتا ہے۔
یہ معاشرے کے مصلحین اور اہلِ دانش کا کام ہوتا ہے کہ وہ ا خلاقی اقدار اور نظامِ اخلاق کا دفاع کرتے رہیں۔ وہ نظر رکھتے ہیں کہ کہیں نظامِ اخلاق میں کوئی نقب تو نہیں لگائی جا رہی۔ سوال یہ ہے کہ جہاں اہل دانش ہی حساس نہ رہیں تو وہاں کیا ہو گا؟