تفہیمِ مذہب ایک مسلسل عمل ہے۔ ارتقا اس کا خاصہ ہے اور تعبیرات کا تعدد نتیجہ۔
ان تعبیرات سے ایک ''تاریخی مذہب‘‘ وجود میں آتا ہے۔ تاریخی مذہب، مذہب کے بنیادی ماخذ اور اس کی تفہیم کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ہر مذہب کی تاریخ میں، کچھ وقفے کے بعد، تجدید و احیائے دین کی ایک تحریک اٹھتی ہے۔ یہ تحریکیں اس دعوے کے ساتھ برپا ہوتی ہیں کہ اصل مذہب انسانی تعبیرات سے بوجھل ہو گیا ہے، اس لیے لازم ہے کہ اب حقیقی دین کی بازیافت کی جائے۔ اس کے لیے پہلا مرحلہ یہ ہے کہ حقیقی مذہب کو تعبیر کے تاریخی عمل سے الگ کیا جائے۔
اسلام کی تاریخ بھی اسی طرح آگے بڑھی ہے۔ اس سے دو نقطہ ہائے نظر وجود میں آئے۔ ایک وہ جو تجدید و احیا کی تحریکیں اپناتی ہیں۔ اس کے مطابق دین اصلاً قرآن اور سنت کا نام ہے‘ ہمیں ان کے ساتھ براہ راست تعلق پیدا کرنا اور انہیں سمجھنا ہے۔ مذہب کا وہ فہم ہمارے لیے حجت نہیں جو انسانی کاوش اور تاریخی عمل کا حاصل ہے۔ اس میں سے اگر کچھ قبول کیا جائے گا تو نقد و جرح کے اس پیمانے پر جو ہر احیائی تحریک از خود طے کرتی ہے۔ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ مذہب کو اسلاف کی تعبیر سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اصل ماخذات کے ساتھ یہ تعبیر بھی مذہب کا حصہ ہے۔ دونوں کے مجموعے کا نام اسلام ہے۔ یہ نقطہ نظر دین کو اس عملی و علمی روایت میں رکھ کر دیکھتا ہے، اس لیے روایتی کہلاتا ہے۔
یہ نکتہ مزید شرح کا متقاضی ہے۔ احیائی تحریکوں کے مطابق، مذہب صرف قرآن و سنت کا نام ہے۔ قرآن کو ہم اصولوں کی روشنی میں سمجھیں گے جو کسی بھی متن کی تفہیم کے لیے فطری طور پراختیار کیے جاتے ہیں۔ جیسے عربی زبان اور اسالیبِ کلام۔ اس عمل میں لازم نہیں کہ اُس تفسیر کو بھی قبول کیا جائے جو ہم سے پہلے ادوار میں ہوتی آئی ہے۔ اسی طرح احادیث کو بھی ہم سمجھیں گے اور اس میں بھی ضروری نہیں کہ قدیم لوگوں کی رائے کو حتمی سمجھا جائے جو روایت یا درایت کے باب میں اختیار کی گئی ہے۔
روایتی موقف یہ ہے کہ قرآن مجید کو اسلاف کی تفسیر سے الگ کرکے نہیں سمجھا جا سکتا۔ اسی طرح نبیﷺ سے کسی روایت کو اگر قدیم محدثین نے سنداً صحیح قرار دے دیا تو اسے اب صحیح مانا جائے گا۔ یا ایک حدیث کا جومفہوم اختیار کیا جا چکا، اسے ہی قبول کیا جائے گا۔ یہی معاملہ استنباطِ احکام کا بھی ہے جس سے فقہ کی روایت وجود میں آئی۔ مزید یہ کہ کسی تعبیر پراگر اجماع وجود میں آگیا تواس کی مخالفت جائز نہیں؛ چنانچہ اہلِ سنت نے یہ موقف اپنا لیاکہ اصولِ فقہ میں آئمہ اربعہ کے دائرے سے باہر نہیں نکلا جا سکتا۔
انسانی سماج مسلسل حرکت میں ہے۔ اس لیے کوئی جامد سوچ اس کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ مذہب کو اگر زندہ رہنا ہے تو اسے متحرک ہونا پڑے گا۔ وقت کا یہ بہاؤ احیائی تحریکوں کو جواز بخشتا ہے۔ مذہب کا مزاج مگرروایتی ہے۔ اس کی صحت کا انحصار نقل پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں روایتی نقطہ نظر غالب رہا جو مذہب کی اس فطری ضرورت کو پورا کرتا ہے؛ تاہم تاریخی دبائو کے نتیجے میں، وہ اس روایت کو مسلسل متحرک رکھنے پر مجبور ہے۔ یوں روایت پسند بادلِ نخواستہ تبدیلی کو قبول کرنے پر مجبور ہوتے ہیں لیکن حیلے کے ساتھ۔ وہ کوشش کرتے ہیں کہ اگر نئی راہ اختیار کرنا پڑے تو یہ تاثر قائم رہے کہ دراصل یہ قدیم روایت ہی کا تسلسل ہے۔
ارتقا کا ایک ناگزیر نتیجہ یہ بھی ہے کہ ایک وقت کی احیائی تحریک، جب ماضی کا قصہ بنتی ہے تو اکثر روایت میں شامل ہو جاتی ہے۔ اگر اس کے متاثرین ایک قابلِ ذکر تعداد میں موجود ہوں یا وہ مسلمانوں کے اعیان و اشرافیہ کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوجائے تو روایت کا مستند حصہ سمجھی جاتی ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیاکہ وہ احیائی تحریکیں جو سب کچھ بدل دینے کے عزم سے اٹھیں، وقت کے ساتھ روایت کو اپنے فکری نظام میں جگہ دینے پر مجبور ہوئیں۔ یوں یہ ایک دوطرفہ عمل ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے اس حقیقت کو ایک بار ازراہ تفنن بیان کیا۔ ان سے کسی نے کہاکہ فلاں معاملے میں آپ نے جو رائے اپنائی ہے، متقدمین میں سے تو کسی نے اختیار نہیں کی۔ مولانا نے جواب دیا: آپ ہمارے مرنے کا انتظار کیجیے‘ کچھ وقت کے بعد ہم بھی متقدمین میں شامل ہوجائیں گے۔
حاصل یہ ہے کہ احیائی اور روایتی نقطہ نظر ساتھ ساتھ چلتے رہے ہیں اور تعبیرات کے تعدد کو گوارا کیا گیا ہے۔ یہ تعبیرات چھ سات کے عدد میں مقید نہیں ہیں؛ تاہم قبولیتِ عامہ چند ہی کو ملتی ہے۔ بیسویں صدی تک آتے آتے، مسلمانوں میں ایک طویل عرصہ ایسا گزرا ہے جب زندگی اور سماج کی صورت گری میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔ اس نے ایک فکری جمودکو جنم دیا۔ بیسویں صدی میں ایسی سیاسی تبدیلیاں آئیں جن کے نتیجے میں مسلمان انفعالی حالت سے نکلے اور مختلف خطوں میں زمامِ کار ان کے ہاتھ میں آگئی۔ اب انہیں اپنے اجتماعی وجود کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ بنانا تھا۔ بقا نئی تعبیر کاتقاضا کرتی تھی لہٰذا نئی تعبیرات اختیار کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ یہی وہ دور ہے جب قائداعظم کی فکری تشکیل ہوئی۔
قائداعظم کے لیے اس بات کی اہمیت، اس وقت بہت بڑھ گئی جب ان کی عملی زندگی کا آغاز ہوا اور انہوں نے وکالت کو پیشہ کیا۔ اس کے ساتھ وہ سیاست میں آئے اور مسلمانوں کے ترجمان بنے۔ نجی زندگی کے حوالے سے مذہب کا معاملہ ان کے لیے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں رہا۔ ذاتی سطح پر، جب مذہب کی ضرورت پیش آئی توروایتی دینی تعبیرکو انہوں نے کافی سمجھا۔
اصل مسئلہ سیاسی زندگی میں پیش آیا۔ تجربات نے انہیں سمجھایاکہ مسلمانوں کی تہذیبی اور سماجی بنت ہندوئوں سے مختلف ہے۔ ہندوئوںکے اعیانی طبقے کے رویے نے انہیں اس رائے پر مستحکم کیا؛ تاہم چونکہ وہ اسلام کے کوئی سکالر نہیں تھے، اس لیے اپنے تئیں اس کا کوئی حل تلاش نہیں کرسکتے تھے، اگرچہ وہ اس کی ضرورت کومحسوس کررہے تھے۔
مسلمانوں کو درپیش اس عملی مسئلے کے حل کی طرف علامہ اقبال نے انہیں متوجہ کیا۔ خطبہ الٰہ آباد کے وقت وہ سیاسی طورپر فعال نہیں تھے لیکن یہ ممکن نہیں کہ یہ خطبہ ان کی نظرسے نہ گزراہو۔ وہ ہندی مسلمانوں کے حالات سے مایوس ہوکرانگلستان جاچکے تھے۔ اقبال نے ان کے نام اپنے خطوط میں مسلمانوں کے مسائل اوران کے حل کی نشاندہی کی۔ اس باب میں قائداعظم علامہ اقبال کو اپنا فکری قائد مانتے ہیں، جس طرح اقبال قائداعظم کو اپنا سیاسی راہنما قرار دیتے ہیں۔ کیا قائد، اقبال کی اس فکری قیادت کوتعبیرِ مذہب کے عموم میں بھی قبول کرتے تھے؟ میں اس سوال کوآگے چل کرمخاطب بناؤں گا۔
اسلام پر قائداعظم نے وقتاً فوقتاً جو گفتگو کی، اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اسلام کو اپنے طورپر سمجھنا شروع کردیا تھا، بالخصوص تہذیبی اورسیاسی حوالے سے۔ جب وہ مسلمان قوم کا سیاسی مقدمہ لڑرہے تھے تولازم تھاکہ وہ اس کے علمی مقدمات اور تہذیبی امتیازات سے واقف ہوں۔ بایں ہمہ بطور وکیل بھی انہیں اسلام کے عائلی قوانین کو سمجھنا تھاکہ انہیں عدالت کے سامنے اپنے موکل کا مقدمہ پیش کرنا پڑتا تھا جو شخصی احوال میں ان سے رجوع کرتاتھا۔ جب انہوں نے وقف کابل (مارچ 1911) پیش کیا، تب بھی انہوں نے یقیناً اسلام کامطالعہ کیا ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ اس مطالعے اور غوروفکر سے وہ کن نتائجِ فکر تک پہنچے؟ تعبیرِ مذہب کے پہلوسے، ہم ان کا شمارکس طبقے میں کریں گے؟ ان سوالات کے جواب، ان شااللہ اگلے کالم میں۔