"KNC" (space) message & send to 7575

قائد اعظم کا اسلام (5)

متحدہ قومیت کے مسئلے پر مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا شبیر احمد عثمانی کی اپنے حلقۂ فکر سے بغاوت، مسلم برصغیر کا ایک غیرمعمولی واقعہ ہے۔ اس نے تاریخ کا رخ متعین کرنے میں ایک اہم کردار اداکیا۔ یہ داستان ابھی تک اُس طرح لکھی نہیں جاسکی جیسے لکھی جانی چاہیے تھی۔ میری دلچسپی بھی اس کے صرف ایک پہلوسے ہے کہ کیا مولانا تھانوی کے سیاسی افکار قائداعظم کے فہمِ اسلام پراثر انداز ہوئے؟
مسلم برصغیر کی علمی و تہذیبی تشکیل میں مولانا اشرف علی تھانوی کا مقام پیشِ نظر رہے تواس سوال کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔ علمِ تفسیر سے فقہ تک، تصوف سے کلام تک، نفسیات سے سماجی علوم تک، علم کا شاید ہی کوئی شعبہ ہو جس پر مولانا تھانوی کااثر نہ ہو۔ ہماری تاریخ میں علامہ اقبال کے بعد وہ واحد شخصیت ہیں جنہیں حکیم الامت کہا گیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ وہ اس اعزازکے مستحق تھے۔مولانا تھانوی اکابر علمائے دیوبند میں سے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند اپنے جن فرزندوں پر نازکرتا ہے، وہ ان میں سے ایک تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے متحدہ قومیت کے مسئلے پراپنے مسلک کے سوادِ اعظم سے اختلاف کیا۔ مولانا شبیراحمد عثمانی، مولانا تھانوی ہی کا فکری وسیاسی تسلسل ہیں۔ ان کا انتقال 1943ء میں ہوا جب تحریکِ پاکستان برپا ہوچکی تھی اور مسلم لیگ کوان لوگوں کی شدت کے ساتھ ضرورت تھی جواس کا مقدمہ دینی ومذہبی بنیادوں پر پیش کرسکیں۔ یہ کام مولانا شبیراحمد عثمانی نے سرانجام دیا۔
مولانا اشرف علی تھانوی نے مسلم لیگ کا ساتھ کیوں دیا؟ مولانا عملی سیاست میں علما کی شرکت کے خلاف تھے؛ تاہم وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ ملی سیاست علما کے اثرسے باہر نہ رہے تاکہ وہ صراطِ مستقیم پررہے۔ اس کا حل انہوں نے یہ تجویزکیا کہ مسلمانوں کی دو جماعتیں ہونی چاہئیں۔ ایک سیاسی جو عملاً بروئے کار آئے اور ایک علما کی جماعت جواس کی فکری رہنمائی اور تبلیغ (انذار)کاکام کرتی رہے۔ سیاسی جماعت اس کے زیرِ اثررہے۔ اسی خیال کے تحت انہوں نے مسلم لیگ کی طرف دستِ تعاون بڑھایا۔
مسلم مفادکے حوالے سے مولانا تھانوی مسلم لیگ اورکانگرس دونوں کومثالی نہیں سمجھتے تھے؛ تاہم مسلم لیگ کوترجیح دیتے ہیں۔ اس ترجیح کی دووجوہات تھیں۔ پہلی‘ یہ مسلم لیگ مذہب کو قومیت کی اساس قراردیتی تھی اور مولانا تھانوی کے نزدیک یہی موقف درست تھا۔ دوسری یہ کہ کانگرس کے مقابلے میں مسلم لیگ کی اصلاح کے امکانات زیادہ تھے۔
مولانا کے پیش نظر یہ خاکہ تھاکہ مسلم لیگ مولانا تھانوی (یاعلما) سے فکری رہنمائی لے۔ اس ضمن میں مولاناکی مسلم لیگ کی قیادت کے ساتھ خط وکتابت رہی، بالخصوص نواب محمد اسماعیل خان کے ساتھ جو مسلم لیگ یوپی کے صدرتھے۔ نواب صاحب سے انہوں نے استفسار کیاکہ تعاون کی صورت میں مسلم لیگ میں علماکا کردار کیا ہوگا؟ ان کا جواب تھا: وہی جوایک مسلم سماج میں ہوتا ہے۔ مولانا تھانوی کے ساتھ قائد کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ براہ راست رابطے کا واحد ثبوت قائداعظم کا ایک خط ہے جوانہوں نے مولانا تھانوی کے ایک خط کے جواب میں لکھا۔
1937ء تک مولانا تھانوی مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد میں یکسو نہیں تھے۔ اس سال ہونے والے انتخابات سے پہلے جب جھانسی کے لوگوں نے مولاناکی رائے معلوم کرنا چاہی توان کاجواب واضح نہیں تھا۔ انہوں نے مسلم لیگ کے بارے میں اپنی ترجیح کا ذکرکیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہاکہ مسلم لیگ زمین داروں کی جماعت ہے‘ اس لیے یہ امرمشتبہ ہے کہ وہ جیت کراسلامی نظام نافذ کرسکے گی؛ تاہم مولانا ظفراحمد عثمانی کی تجویز پر انہوں نے مسلم لیگ کی حمایت کا اعلان کیا۔ مسلم لیگ بحیثیت مجموعی یہ انتخابات ہارگئی لیکن مولاناکی نصرت کے باعث جھانسی میں کامیاب رہی۔
6جون 1938ء کو پٹنا میں مسلم لیگ کا ایک اہم اجلاس ہوا۔ اس میں مولانا تھانوی کی طرف سے چار رکنی وفد نے شرکت کی۔ اجلاس میں مولانا تھانوی کا ایک خط پڑھا گیا جس میں انہوں نے یہ بیان کیاکہ وہ مسلم لیگ سے کیا چاہتے ہیں۔ ایک یہ کہ مسلم لیگ کواب جنداللہ‘اللہ کے لشکر میں تبدیل ہوجانا چاہیے۔ اس کیلئے وہ اللہ پر ایمان کو مضبوط کریں۔ دوسرے یہ کہ مغربی تہذیب کے اثرات سے نکلیں۔ تیسرے غیرمسلموں کے ساتھ مشابہت سے بچیں اور داڑھی رکھیں۔ چوتھا یہ کہ نماز روزہ اور زکوٰۃ کا اہتمام کریں۔ 1943ء میں مولانا تھانوی کا انتقال ہوا‘ 1944ء میں ان کے سیاسی جانشین مولانا شبیر احمد عثمانی مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ 1945ء میں جمعیت علمائے ہند سے الگ ہوکر علمائے دیوبند کے ایک طبقے نے جمعیت علمائے اسلام کی بنیاد رہی، جس نے مسلم لیگ کی اعلانیہ حمایت کردی۔ مولانا عثمانی کلکتہ میں ہونے والے تاسیسی اجلاس میں خود شریک نہ ہو سکے۔ ان کی غیرحاضری میں ان کا خطبہ صدارت پڑھ کرسنایا گیا۔
اس اجلاس میں کم وبیش پانچ ہزارعلما شریک ہوئے۔ انہوں نے 'گاندھی ازم، اشتراکیت اور کمال ازم کی ملحدانہ سیاست‘ سے اظہارِ لاتعلقی کیا اور قائداعظم کو یقین دلایاکہ علما اور مشائخ انتخابات میں مسلم لیگ کا ساتھ دیں گے۔ مسلم لیگ کی طرف سے نواب محمد اسماعیل کا پیغام بھی سنایا گیا‘ جنہوں نے وعدہ کیاکہ پاکستان میں شریعت اور مذہب کے معاملات میں علماکی قیادت کوتسلیم کیا جائے گا۔
اجلاس میں مختلف قراردادوں کی صورت میں جمعیت نے اسلامی ریاست کا خاکہ بھی پیش کیا۔ ان قراردادوں کے مطابق، چونکہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہوگا لہٰذا اس میں علما کا کردار اہم ہونا چاہیے۔ اس کے لیے تجویزکیا گیاکہ پاکستان میں 'شیخ الاسلام‘ کا منصب ہو۔ ایک مفتیٔ اعظم ہو جو عدالتوں اورفقہی مسائل میں رہنما ہو جہاں مسلمانوں کے امورکے فیصلے ان کی فقہ کے مطابق ہوں۔ زکوٰۃ وصدقات کے لیے بیت المال ہو اور 'نظاماتِ اوقافِ اسلامیہ‘ ہو۔
مولانا تھانوی علما کے عملی سیاست میں حصہ لینے کے خلاف تھے لیکن ان کی رائے کے برعکس، مولانا عثمانی نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور عوامی سطح پر بھرپور انداز میں مسلم لیگ کا مقدمہ پیش کیا۔ انہوں نے متحدہ قومیت کے تصورکو شدت کے ساتھ رد کیا جو جمعیت علمائے ہند پیش کررہی تھی۔ اسے غیراسلامی کہا۔ نبیﷺ کی آمد کے بعد ان کے خیال میں اب صرف ایک تقسیم باقی ہے: مومن اور کافر۔ انہوں نے یہ دعویٰ کیاکہ شیخ الہند بھی ہندو اور مسلمان کو دوالگ قومیں سمجھتے تھے جس کا اظہار انہوں نے اپنی وفات سے نو دن پہلے کیا۔ انہوں نے مدینہ اور پاکستان کو مترادف کہا اور یہ تعبیر پیش کی کہ رسالت مآبﷺ نے مدینہ میں ایک پاکستان قائم کیا (جمعیت کے لاہوراجلاس میں خطاب) ان کا کہنا تھاکہ جس طرح مدینہ کی ہجرت اوروہاں ایک اسلامی مرکزکا قیام ہمہ گیر اسلامی ریاست کی طرف پہلا قدم تھا، اسی طرح پاکستان کا قیام بھی اس سمت میں پہلا قدم ہے۔
پاکستان بننے کے بعد 13 جنوری 1848ء کو مولانا عثمانی کی رہائش گاہ پر جمعیت علمائے اسلام کا اجتماع ہوا جس میں شیخ الاسلام کے منصب کی بحالی کا مطالبہ دہرایا گیا۔ مولانا تھانوی اور مولانا عثمانی جمہوریت کے مخالف تھے اور اسے غیر اسلامی سمجھتے تھے۔
اس تجزیے سے واضح ہے کہ مولانا تھانوی اور مولانا شبیر احمد عثمانی‘ دونوں قائد اعظم کی طرح مسلمانوں کو ایک الگ قوم سمجھتے تھے؛ تاہم 'اسلامی ریاست‘ اور سیاسی تصورات کے باب میں دونوں کا نقطہ ہائے نظر مختلف تھے۔ اس بات کا مجھے کوئی ثبوت نہیں ملا کہ ان علما کے کردار کی تحسین کے باوجود، قائد اعظم نے ان سے کوئی فکری اثر لیا ہو۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں