کثرت اکتاہٹ کو جنم دیتی ہے۔ کاش ہمارے مذہبی مصلحین اس کا ادراک کر پاتے۔
مذہبی تعلیم کی کثرت اگر مذہبی اخلاقیات کو جنم دیتی تومدرسے کا ہرفارغ التحصیل مذہب کا شاہکار ہوتا۔ قانون کی درسگاہ میں ڈھلنے والا ہروکیل قانون کی پابندی کا چلتا پھرتا نمونہ ہوتا۔ کرپشن پر ٹسوے بہانے والا ہرکالم نگار دیانت کا پیکر ہوتا۔ مشاہدہ یہ ہے کہ مذہب، اہلِ مدرسہ، قانون، قانون دان اور اخلاق مجھ جیسے لکھاریوں سے پناہ مانگتے ہیں۔ نصاب میں مذہب کا حصہ کتنا ہونا چاہیے؟ حکومت کے ایوانوں میں شنوائی نہ ہوئی تو اس سوال نے عدالتِ عظمیٰ کے دروازے پر جا دستک دی۔ وہاں سے فرمان جاری ہو چکا کہ کوئی نصاب آئین کی دفعہ بائیس اور اس کی ذیل شقوں سے بے نیاز ہو کر نہیں بنایا جا سکتا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس باب میں وزارتِ تعلیم کا مقدمہ تعلیم اور تعلیمی نفسیات سے مکمل لاعلمی کا مظہر ہے۔
ایک مسلمان کو اسلامی اخلاقیات کا نمونہ ہونا چاہیے۔ یہ مقصد مگر مذہبی معلومات کی کثرت سے حاصل نہیں ہو گا۔ اس کا ایک فطری طریقہ ہے اورمسلم معاشرے صدیوں سے اس کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ہم گردوپیش میں بہت سے خواتین و حضرات کو جانتے ہیں جنہوں نے کبھی سکول کا منہ نہیں دیکھا۔ ان کی اسلامی معلومات مگر پڑھوں لکھوں سے کم نہیں۔ وہ مذہبی اقدار کے معاملے میں پڑھے لکھوں سے زیادہ حساس ہیں۔ انہوں نے یہ سب کہاں سے سیکھا؟
کثرت بیزاری پیدا کرتی ہے۔ نصیحت، وقت بے وقت ذہنوں پر ہتھوڑے کی طرح برستی رہے توآدمی بیزار ہوجاتا ہے۔ اکتاہٹ اس کے وجود میں اتر جاتی اور وہ بغاوت پر اتر آتا ہے۔ بغاوت اگر نہ کر سکے توذہنی مریض بن جاتا ہے۔ باغی سماج کو متاثر کرتا ہے ا ور نفسیاتی و ذہنی مریض اپنی ذات کو۔ دونوں صورتوں میں انسان خسارے میں ہے۔
رسالت مآبﷺ نے تبلیغ کا حکم دیا تو ساتھ ہی اس کے آداب بھی سکھائے۔ اس میں ایک اہم نکتہ وعظ و نصیحت کی کثرت سے گریز ہے۔ عبداللہؓ ابن عباس ان اصحابِ رسول میں سے ہیں جن کے علم میں برکت کیلئے اللہ کے پیغمبر نے خصوصی دعا فرمائی۔ بخاری کی ایک روایت کے مطابق انہوں نے لوگوں کو نصیحت کی کہ جمعہ کے جمعہ وعظ کیا کرو‘ زیادہ کی ضرورت پڑے تو ہفتے میں دو بار اور اگر اس سے زیادہ کرنا چاہو تو ہفتے میں تین بار۔ لوگوں کو قرآن مجید سے بیزار نہ کرو۔ میں تمہیں اس طرح نہ دیکھوں کہ تم لوگوں کے پاس جاؤ جب وہ اپنے کام میں مصروف ہوں اور اس حال میں تم وعظ کرنے لگو جس کا نتیجہ بیزاری ہو۔ تمہیں چاہیے کہ خاموش رہو۔ جب لوگ فرمائش کریں تو ان کو سناؤ اور وہ اپنی خواہش سے سنیں۔
عبداللہؓ ابن مسعود بھی ان خوش بختوں میں سے ہیں جن کے علم کیلئے اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ نے دعا فرمائی۔ ان کے بارے میں یہ روایت بیان ہوئی ہے کہ وہ ہر جمعرات کو وعظ کیا کرتے تھے۔ ایک شخص نے اس خواہش کا اظہار کیاکہ آپ ہمیں روزانہ درس دیا کریں۔ ابن مسعودؓ نے فرمایا: میں ایسا اس لیے نہیں کرتاکہ کہیں تم بیزار نہ ہو جاؤ۔ میں تمہیں اسی طرح ناغہ کرکے نصیحت کرتا ہوں کہ جس طرح رسول اللہ ﷺ ہمیں ناغہ کرکے نصیحت کیا کرتے تھے تاکہ ہم بیزار نہ ہو جائیں (بخاری،کتاب العلم)۔
ہمارے نصابِ تعلیم میں اسلامیات لازمی مضمون کے طور پر شامل ہے۔ اس میں مسلمان طلبا و طالبات کوان کے مذہب کی ضروری تعلیم دی جاتی ہے۔ اب مطالبہ یہ ہے کہ اردو‘ انگریزی‘ معاشرتی علوم اور دیگر مضامین کی تعلیم پر مذہب کا رنگ غالب ہو‘ یعنی جو موضوعات اسلامیات میں پڑھائے جا رہے ہیں، وہی اردو اور دیگر مضامین میں بھی پڑھائے جائیں۔ اس کے دو نتائج تو ظاہرو باہر ہیں۔ ایک وہی بیزاری جوکثرت سے جنم لیتی ہے اور جس کے بارے میں اللہ کے رسولﷺ نے اپنے صحابہ کو متنبہ فرمایا تھا۔ یہ میرا مشاہدہ ہے اور تجربہ بھی کہ ہمارے طالب علم جس مضمون کو سب سے زیادہ غیر سنجیدگی سے لیتے ہیں وہ اسلامیات ہے۔ اب اگر ہر مضمون میں انہیں مذہب کا پرتو دکھائی دے گا تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ ان میں اسلامی کردار پیدا کرے گا یا مذہب بیزاری؟
دوسرایہ کہ یہ تعلیم کے فطری طریقے سے متصادم ہے۔ ہر مضمون کی تعلیم کا بنیادی مقصد اس مضمون کا علم حاصل کرنا ہے۔ ہم معاشرتی علوم اس لیے پڑھتے ہیں کہ معاشرے کے بارے میں جانیں۔ یہی معاملہ زبان اوردیگر طبیعی علوم کا ہے۔ فزکس، کیمسٹری یا بیالوجی کو بھی اس لیے پڑھایا جاتا ہے کہ طالب علم ان علوم سے واقف ہوں۔ فزکس سیکھنے کیلئے نیوٹن کے قوانین ہی پڑھائے جائیں گے۔ ہمارے مذہبی علم کے مطابق خدا اس کائنات سے کیسے متعلق ہوتا ہے، اس کا شعور ہم اسلامیات کے مضمون میں دیں گے۔ جب ہم شعوری طور پر فزکس اس لیے پڑھاتے ہیں کہ طالب علم مذہب سے جڑا رہے تویہ بات اس مضمون کی تدریس کے بنیادی اصول سے متصادم ہے۔ اس کو دیگر مضامین کی تدریس پربھی قیاس کرلیجیے۔
پھریہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ یہاں غیرمسلم طلبا و طالبات بھی ہیں۔ ہم انہیں ایسی تعلیم پرمجبور نہیں کرسکتے جوان کے تصورِ حیات سے متصادم ہو۔ یہ آئین کے خلاف ہے اور اسلامی اخلاقیات کے بھی۔ نصاب کا بنیادی مقصد ایک اچھا انسان اور شہری پیدا کرنا ہے۔ اچھے انسان کی شخصیت تین ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے: عقلی یا سائنسی اندازِ فکر، جمالیاتی احساس اور اخلاقیات۔ یہ اوصاف فلسفے، آرٹس اورمذہب کی تعلیم سے پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے حصول کیلئے ہم طبعی و سماجی علوم اور فنونِ لطیفہ اور اسلامیات کی تعلیم دیتے ہیں۔ اچھا نصاب وہی ہے جو اس تناسب کوسامنے رکھ کرمرتب کیا جائے۔گویا نصاب بنانے وقت تعلیم کے ہمہ گیر تصور کو سامنے رکھنا ہوگا۔ اس میں شبہ نہیں کہ ہر معاشرہ اپنے تہذیبی وجود کی بقا کیلئے اپنی اخلاقی اقدار کو زندہ رکھتا اور یہ امانت ہرآنے والی نسل کومنتقل کرتا ہے۔ یہ کام سب ملکرکرتے ہیں جیسے گھر، خاندان، مسجد اور خانقاہ یا میڈیا اورنظامِ تعلیم، ایک ساتھ اس تہذیبی وجود کو زندہ رکھتے ہیں۔ کسی ایک شعبے کو اگر ہم ان مقاصد کے حصول کیلئے بوجھل بنادیں گے توانکے اصل کام کومتاثر کریں گے۔
مذہب کے بارے میں ہمارے ہاں عدم اعتدال بڑھتا جارہا ہے۔ ایک طبقے کو مذہب سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ وہ خیال کرتا ہے کہ یہ فی نفسہٖ خرابی کی جڑہے۔ یوں یہ طبقہ سماج کی تشکیل میں اس کے ناگزیرکردار کا بھی منکرہے۔ دوسری طرف مذہبی جنون ہے جو یہ چاہتا ہے کہ ان شعبہ ہائے حیات پرمذہب کی مصنوعی حاکمیت کوقائم کرے جومذہب کا نہیں، عقلِ سلیم کا موضوع ہیں۔ تعلیم کے معاملے میں بھی یہی ہورہا ہے۔ یوں اس نے ایک شترگربگی کوجنم دیا ہے، جس کا مظہر جدید تعلیمی ادارے کا فارغ التحصیل نوجوان ہے۔ یہ نہ تو شترہے اور نہ گربہ۔ اس میں مذہبی عصبیت تو ہے لیکن وہ اس بات سے بے خبر ہے کہ مذہب دراصل اس کے تزکیہ نفس کے لیے عالم کے پروردگار کی ہدایت ہے۔
تعلیم کی اسلامی تشکیل کے خواہش مندوں کودراصل اس بات پرغور کرنا چاہیے کہ اسلامیات کاموجودہ نصاب اسلامی اخلاقیات سے زیادہ مذہبی عصبیت و تفاخر پیدا کرتا ہے۔ ہماری ضرورت نصابِ تعلیم کومذہبی تعلیمات سے بوجھل کرنا نہیں، مذہب کی صحیح تعلیم ہے۔ اگر صبح شام مذہب کی تکرار سے مذہبی اخلاقیات پیدا ہوتیں تو عبداللہؓ ابن مسعود روزانہ وعظ کرتے۔ مدارس کے فارغ التحصیل مذہب کا شاہکار ہوتے۔