سازش ہو یا نااہلی ‘ دونوں کے نتائج ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔
ریاست کے اجزائے ترکیبی، جو سیاسیات کی کتابوں میں لکھے ہیں، چار ہیں: جغرافیہ، عوام، حکومت اور خودمختاری۔ مراد ہے کہ ریاست کی متعین سرحدیں ہیں۔ جو لوگ ان جغرافیائی حدوں میں بستے ہیں، ان کی ایک اجتماعی شناخت ہے۔ ایک برسراقتدار گروہ ہے جوقوتِ نافذہ رکھتا ہے۔ وہ اپنے معاملات چلانے میں خودمختار ہے۔ وہ اپنے معاشی اور سیاسی فیصلے خود کرتا ہے۔
خود مختاری سے آغاز کرتے ہیں۔ پہلے معاشی خود مختاری۔ آج ایک عامی بھی جانتا ہے کہ پاکستان کی معاشی خود مختاری سمٹ رہی ہے۔ سٹیٹ بینک ریاستی معیشت کی علامت ہے۔ اس کی خود مختاری کے سامنے ایک سوالیہ نشان کھڑا ہو چکا ہے۔ ملک کے تمام ماہرینِ معیشت بتا چکے کہ یہ ادارہ اب حکومت کے تابع نہیں رہے گا۔ حکومت اپنے ہاتھ کاٹ کر عالمی مالیاتی اداروں کو دے رہی ہے۔ یہی نہیں، آج ہماری حکومت نہیں، یہ آئی ایم ایف طے کرتا ہے کہ پاکستان کے عوام پر کون سے ٹیکس عائد کرنا ہیں۔ پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ یہ حق صرف قومی اسمبلی کو حاصل ہے۔ اسی طرح، بجلی اورگیس کی قیمتیں کیا ہوں گی، اس کا فیصلہ بھی آئی ایم ایف کرتا ہے۔ کیا اس کے بعد بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان معاشی طورپر ایک خودمختار ملک ہے؟
سیاسی خود مختاری کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ یہ ہم نہیں، کوئی اور طے کرتا ہے کہ ہم نے کس تنظیم پر پابندی لگانی ہے، کس مذہبی رہنما کو گرفتارکرنا ہے، کس کو سزا دینی ہے، کس کے بینک اکائونٹس بند کرنے اور کس کے کھولنے ہیں۔ ہم چند مہینوں کے بعد بلائے جاتے ہیں۔ ایک ملزم کی طرح ہم پیش ہوتے اور اپنی کارکردگی کی رپورٹ دیتے ہیں۔ جواباً کبھی ڈانٹ دیا جاتا اور کبھی شاباش دی جاتی ہے اور مزید تابعداری کی تلقین کی جاتی ہے۔ ڈانٹ ہمیں اداس کر دیتی ہے اور تعریف سے ہم خوش ہوجاتے ہیں۔ کیا اس کے بعد کسی سیاسی خود مختاری کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے؟
ریاست کا دوسرا جزو حکومت ہے۔ حکومت کا مطلب وہ ادارہ ہے جو روزمرہ امور کا بندوبست کرتا ہے۔ جوقانون کے نفاذ کو یقینی بناتا ہے۔ آج رونا ہے اور مسلسل رونا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں حکومت کا وجود ثابت نہیں ہے۔ اس پر اتنا کچھ کہا جا چکاکہ مزید کہنا محض تکرار ہوگی۔ رہی وفاقی حکومت، تواس نے پوری کوشش کی مگرایک چینی کی قیمت کا تعین نہیں کرسکی۔ معاشی بندوبست کا یہ عالم ہے کہ آنے والے مالی سال میں ہماری ترقی کی شرح، آئی ایم ایف کے مطابق ایک اعشاریہ پانچ اور عالمی بینک کے مطابق ایک اعشاریہ تین فیصد رہے گی۔ بھارت کی یہ شرح، آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ حیرت انگیز اضافے کے ساتھ، بارہ اعشاریہ پانچ فیصد رہے گی۔ اعدادوشمار کے قومی ادارے کے مطابق، اس ہفتے مہنگائی کی شرح میں اٹھارہ فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔
کورونا کے معاملے میں حکومت کی کوئی پالیسی ہی نہیں ہے۔ کسی ہمہ گیر پالیسی کی غیرموجودگی میں جوچند وقتی اقدامات کیے گئے، وہ نتیجہ خیز نہیں ہوسکے۔ ویکسین کا معاملہ یہ ہے کہ ایک آدھ مقام پربہتر بندوبست کیا گیا جیسے لاہور‘ لیکن دیگر علاقوں میں برا حال ہے۔ میں راولپنڈی میں رہتا ہوں۔ میرے بڑے بھائی کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہے۔ آغاز ہی میں نام رجسٹر کروادیا تھا۔ آج تک باری نہیں آئی۔ میں پچاس سال سے زیادہ کا ہوچکا۔ رجسٹریشن کروائی‘ ابھی تک کوئی اطلاع نہیں۔ بیرونِ ملک سے آنے والوں کوبلا کسی روک ٹوک داخل ہونے دیا جاتا ہے۔ تیسری لہر برطانیہ سے آنے والوں کا تحفہ ہے جنہیں کسی کورنٹین سے گزارے بغیر معاشرے میں پھیلا دیاگیا۔ آج اس ملک میں صرف ایک کام ہورہا ہے وہ ہے سیاسی انتقام جسے احتساب بھی کہا جاتا ہے۔ کیا حکومت اسی کا نام ہے؟
اب آئیے عوام کی طرف۔ سیاسی، علاقائی اور مذہبی بنیادوں پرعوام جس انتشارِ فکرکا شکار ہیں، اس کی نظیر 1971ء کے بعد نہیں ملتی۔ سیاسی اختلاف دشمنی میں بدل رہا ہے اور یہ تاریخ کی پہلی حکومت ہے جو سیاسی وحدت کے بجائے سیاسی تقسیم کو بطور پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔ چھوٹے صوبے اضطراب میں ہیں اورریاست انہیں مطمئن کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ حال یہ ہے کہ قومی اداروں کی عزت کیلئے قانون سازی کی جا رہی ہے۔ اگر کہیں ماں باپ کی عزت کرانے کیلئے قانون کا سہارا لینا پڑے تو جان لینا چاہیے کہ معاشرہ ختم ہوگیا۔ اگرقوم کے ہیروز کی عزت کیلئے قانون کی ضرورت پڑے تو مان لیجیے کہ ریاست کے وجود کے سامنے سوالیہ نشان کھڑا ہوگیا ہے۔
ریاست کے اجزائے ترکیبی میں چوتھا جزو، جغرافیہ ہے۔ کشمیر پاکستان کے جغرافیے کا حصہ ہے۔ پاکستان اپنی تمام ترکمزوریوں کی باوجود 'سٹیٹس کو‘ برقرار رکھنے میں کامیاب تھا۔ دنیا کشمیر کو ایک متنازع علاقہ مانتی تھی۔ اگست2019ء کے بعد صورتحال بدل چکی۔ بھارت نے لداخ پر قبضہ کرلیا۔ اسے ریاست کا حصہ بنالیا۔ وادی کا سٹیٹس بدل دیا۔ یہ بین الاقوامی اورباہمی معاہدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھی۔ شملہ معاہدے میں بھی درج ہے کہ کشمیر کے انتظام میں یکطرفہ طورپر کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ اس واقعے کو دوسال ہونے کوآئے ہیں۔ کوئی ایک ملک ہماری حمایت میں آگے نہیں بڑھا۔ ہم دنیا کو سمجھا ہی نہیں سکے کہ بھارت نے کس طرح بین الاقوامی قوانین کو پامال کیا ہے۔
ہم نے خیال کیاکہ اسلام آباد کی 'کشمیر ہائی وے‘ کا نام 'سری نگر ہائی وے‘ رکھنا بھارت کا جواب ہے۔ پاکستان کی سڑکوں پرچند روز جو گرمجوشی دکھائی دی، وہ بھی اب ماند پڑچکی۔ دنیا بھرکا میڈیا بیک ڈور ڈپلومیسی کی خبریں دے رہا جو2018ء سے جاری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اب تجارت بھی ہونے جارہی ہے اور وزرائے اعظم کی ملاقات بھی۔ خدشات کشمیر کے وجود سے لپٹے ہوئے ہیں۔ جغرافیہ بھی خطرات میں گھرچکا۔
یہ خارجہ پالیسی کی تصویرہے مگراس ملک کا دانشور روسی وزیرخارجہ کے دورے پر بغلیں بجارہا ہے۔ نئے افق دریافت ہونے کی نوید دے رہا ہے۔ جب تمام معاشی انحصار آئی ایم ایف پر ہو۔ جب امریکہ کی معاونت سے کشمیر کا مسئلہ 'حل‘ کیا جا رہا ہو، جب دہشتگردی کے خلاف مشترکہ مشقوں کی منصوبہ بندی ہورہی ہو، اس وقت کسی نئی بلاک یا علاقائی اتحاد کی بات محض ایک شوشہ ہوسکتا ہے۔ اصل صورتحال سے اس ملک کے عوام کوبے خبر رکھنے کی ایک کوشش۔ گیت نگاری کی ایک مشق اور بس۔
ریاست کے چاروں عناصر کی تصویر میں نے آپ کے سامنے رکھ دی۔ یہ سب کچھ وہ ہے جو ان تین سالوں میں ہوا۔ معیشت، ترقی کی شرح، خود مختاری، عوامی اتحاد، سیاسی استحکام، جغرافیہ... سب کا یہ حال اُس سیاسی بندوبست کے ہاتھوں ہوا جوتین سال سے قائم ہے اور جس کی بنیادیں 2014ء میں رکھی گئیں۔ اس سے پہلے جو کچھ تھا، وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ ہرآدمی آسانی سے جائزہ لے سکتا ہے کہ ترقی کی شرح اُس وقت کیاتھی، آج کیا ہے؟ غیرملکی قرضے اُس وقت کتنے تھے، آج کتنے ہیں؟ ریاستی خود مختاری کا تین سال پہلے کیا حال تھا، آج کیا حال ہے؟ ہر شے نوشتہ دیوار ہے۔
ممکن ہے یہ سب کچھ سازش نہ ہو‘ لیکن اگر ہوتی تو نتائج ایک ہی طرح کے ہوتے۔ لگتا یہ ہے کہ ریاست کے ستونوں کو دیمک لگ چکی۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ تین سال پہلے یہاں دودھ شہد کی نہریں بہہ رہ تھیں لیکن ریاست کی جڑیں اس طرح کھوکھلی نہیں ہوئی تھیں۔ معلوم ہوا کہ سازش ہو یا نااہلی، ریاست کو دونوں کی ایک جیسی قیمت چکانا پڑتی ہے۔