یہ جہاں عبرت کدہ ہے۔ کم لوگ ہی مگر اس کا ادراک رکھتے ہیں۔
بروز جمعہ قومی اسمبلی کے ایوان میں، اہلِ سیاست کو اپنے ہی گریبانوں سے الجھتے دیکھاگیا۔ اپوزیشن نے پوسٹر لہرائے۔ چند لمحوں بعد حزبِ اقتدار کے لوگ اٹھے اور ان کے ہمنوا ہوگئے 'فرانس کے سفیر کو نکالو‘۔ شاید انہیں یہ خوف لاحق تھاکہ یہاں خاموش رہے تو اس کی سزا کہیں حلقے میں نہ ملے۔ احسن اقبال صاحب کی مثال ان کے سامنے تھی۔ ارکانِ اسمبلی کا یہ خوف ان کے نعروں میں ڈھل گیا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ اس خوف کو ریاست نے بطور حکمتِ عملی اپنایا۔ ایک بار نہیں، بار بار۔ مذہب جو خیر کی ایک قوت تھی، اسے سیاسی مخالفین کے خلاف ہتھیار بنا دیا گیا۔ یہ خوف اب گلی بازار میں پھیل چکا۔ اب لال حویلی ہو یا پیلی حویلی، کوئی عمارت اس سے محفوظ نہیں۔ ان حویلیوں کے مکین مجبور ہیں کہ اسمبلیوں میں نعرے لگائیں یا پھر ان حویلیوں کو چھوڑ کر کہیں اور جائے پناہ تلاش کریں۔ الزام تو مذہبی سیاسی جماعتوں پر رہا کہ وہ اس کو استعمال کرتی ہیں، مگر قومی سیاسی جماعتوں نے کیا کیا؟ اِس خوف کے سامنے سرافگندہ یا اس کے پھیلانے میں شریک ہوگئیں۔ جب سوشلزم کفر قرار پایا تو بھٹو صاحب نے کیاکیا؟ جمعہ کی چھٹی، بادہ نوشی پر پابندی، نوے سالہ مسئلے کے حل کا اعزاز حاصل کرکے کوشش کی کہ اس نظریاتی تبدیلی کو تسلیم کر لیا جائے‘ لیکن ناکام رہے۔ ان کے خلاف تحریکِ نظام مصطفی برپا ہوئی اورپھر ایک دن تختۂ دار پر جھول گئے۔
مسلم لیگ نے اس خوف کو توانا کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ کبھی عورت کی حکمرانی کے خلاف عَلم اٹھایا۔ کبھی شریعت بل پیش کیا۔ ان نعروں کو سیاسی مخالفین کے خلاف ہتھیار بنائے رکھا۔ ایک وقت آیا کہ اسے اس کی سنگینی اندازہ ہوا۔ زبانِ حال سے اعلان برات کیا مگر دیر ہو چکی تھی۔ انہیں یہ دن دیکھنا پڑے کہ خود اس ہتھیار کا ہدف بن گئے۔ اقتدار گیا مگر بات یہاں تک محدود نہ رہی۔ جان کے لالے پڑ گئے۔ احسن اقبال جلسہ عام میں گولی کا نشانہ بنے۔
تحریک انصاف نے بھی مذہب کی کمک کو بخوبی بطور سیڑھی استعمال کیا۔ خان صاحب خوش تھے کہ سیاسی مخالفین کا عرصہ حیات تنگ ہو رہا ہے۔ اقتدار کی بے کنار خواہش نے سوچنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا۔ وہ یہ نہ جان سکے کہ یہ بات کل ان کے گلے کا پھندا بننے والی ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے ایک فیصلہ جاری کیا تو خان صاحب اور شیخ رشید صاحب اس کے خلاف اپیل لے کر عدالت جا پہنچے۔ وہ اگر تاریخ اور سیاسی حرکیات سے واقف ہوتے تواس فیصلے پر عمل کی کوشش کرتے۔
یہ اہلیت مگر کم لوگوں کو ارزاں ہوتی ہے۔ آج حکومت بے بسی کی تصویر ہے۔ وزیراعظم اسمبلی جانے کا حوصلہ کرتے ہیں نہ وزیر داخلہ۔ آج کے وزیر داخلہ شیخ رشید اس جگہ آ کھڑے ہوئے ہیں جہاں کل کے وزیر داخلہ احسن اقبال کھڑے تھے۔ سرکاری جماعت کے ارکان کو پارٹی نظم نہیں، اپنی جان کی فکر ہے۔ انہیں ثابت کرنا ہے کہ وہ تحریکِ لبیک سے بڑھ کر فرانس کے سفیر کو نکالنے کے حامی ہیں۔
اسمبلی کا اجلاس برخاست کر دیا گیا مگر کب تک؟ اس ایوان کو جلد یا بدیر کھلنا ہے۔ رمضان کے بعد بجٹ بھی پیش ہونا ہے۔ اس سیشن میں پھر یہ مسئلہ اٹھ سکتا ہے۔ حکومت کیا کرے گی؟ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔ اپوزیشن نے لگتا ہے کہ بدلہ چکانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ کل جو ہتھیار اس کے خلاف استعمال ہوا، اب اس کے ہاتھ میں ہے۔ آج کیا مذہبی اور کیا غیر مذہبی، سب جماعتیں ایک خوف کی گرفت میں ہیں۔ کیا ستر سال سے جاری ایک عمل اپنے انجام کو پہنچ رہا ہے؟
1953ء میں اس ہتھیار کو پہلی بار کامیابی کے ساتھ آزمایا گیا۔ جماعت اسلامی جیسی مذہبی سیاسی جماعت نے بھی کوشش کی کہ اس سے بچ جائے۔ مولانا مودودی نے جسٹس منیر کمیشن کو بتایا کہ ہمارا اس تحریک سے کوئی تعلق نہیں لیکن یہ بات کسی نے نہیں مانی۔ یہ گاڑی جماعت پر چڑھا دی گئی۔ یہ اسی وقت معلوم ہو گیا تھا کہ مذہب کے نام پر جب کوئی تحریک اٹھا دی جائے توکوئی اس سے بچ نہیں سکتا۔ اگر کوئی اس کا حامی نہیں بنتا تو کچلا جاتا ہے۔
کم و بیش ستر برس بعد بھی ہم اسی جگہ کھڑے ہیں مگر اس فرق کے ساتھ کہ اب کوئی ادارہ باقی بچا ہے نہ کوئی جماعت۔ ماضی کے شکاری حال کا شکار ہیں۔ کسی مذہبی جماعت کیلئے اب ممکن ہے اور نہ کسی سیاسی جماعت کیلئے کہ ایک خاص بیانیے سے بچ سکے۔ یہ وہ عبرتناک صورتحال ہے جس کا کسی کو ادراک نہیں ہے۔ نہ اداروں کو نہ میڈیا کو۔ نہ سیاسی جماعتوںکو نہ مذہبی تنظیموں کو۔
اگر صورتحال کی سنگینی میں کوئی کمی رہ گئی تھی تو یکساں نصابِ تعلیم پر ایک رکنی کمیشن کی رپورٹ نے اسے دور کر دیا ہے۔ یہ رپورٹ اقلیتوں کے تحفظات سے متعلق ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی صاحب حسبِ روایت اسلام کے دفاع کیلئے میدان میں کھڑے ہیں۔ گویا کسی کو شعور نہیں کہ اقتدار کی سیاست کیلئے مذہب کی چھتری کا استعمال مذہب کیلئے مفید ہے نہ ان سیاستدانوں کیلئے۔
آج جو کچھ ہورہا ہے یہ سب نوشتۂ دیوار تھا۔ یہ اس قانونِ قدرت کے عین مطابق ہے جو اس دنیا میں ازل سے نافذ ہے اور ابد تک رہے گا۔ بہت سی تہذیبیں اور اقوام اس سے گزری ہیں اور ان کی تاریخ محفوظ ہے۔ صاف لکھا ہے کہ جب مذہب کو اس کے جوہر سے الگ کرکے دنیاوی مفادات کیلئے ایک ہتھیار بنا دیا جائے گا تو وہ ایک دودھاری تلوار ہو گا۔ ایسی تلوار جو ایک دن خود آپ کی گردن پر دھری ہوگی۔
مذہب خوف سے آزاد کرنے کیلئے اترا تھا۔ یہ پروردگارِ عالم کی ہدایت ہے جو ایک ایسی ابدی زندگی کا پیغام ہے جہاں حزن و ملال اور خوف کا گزر نہیں۔ اس عارضی زندگی کو بھی وہ امن کا گہوارہ بنا دیتا ہے اگر اس کا سوئے استعمال نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسولﷺ کے صحابہ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ انہیں زمین میں اقتدار ہی نہیں بخشے گا، ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا (سورہ نور) یہ وعدہ پورا ہوا۔ آج اگر یہ خوف کی علامت بن چکا تو سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا؟
اس معاشرے میں اس سوال پر غور کے امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں۔ جمعہ کے روز قومی اسمبلی میں جوکچھ ہوا، وہ بتا رہا ہے کہ قوم کی تمام قیادت خوف میں جی رہی ہے۔ اسی خوف نے سماجی سطح پر حقیقی دانش کے لیے راستے مسدود کر دیے ہیں۔ کوئی ایک آدھ آواز اور وہ بھی مدہم۔ جو ملک سے باہر رہتے ہیں وہ کسی حد تک بات کر سکتے ہیں لیکن یہاں رہنے والے یہ جرأت نہیں کر سکتے۔
ستر سال کی اس حکمتِ عملی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ریاست اور معاشرہ دونوں ایک خاص مذہبی تعبیر کے یرغمال بن چکے۔ نہ مذہبی جماعتوں کیلئے کوئی راہ فرار ہے اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کے لیے۔ ریاست کی بے بسی بھی ہمارے سامنے ہے۔ میرے لیے اس سے بڑھ کر تشویش کی بات یہ ہے کہ ان کو اس بات کا غالباً ادراک نہیں جو بزعمِ خویش قومی مفادات کے محافظ ہیں۔
سیاسی قیادت ملک کو اس صورتِ حال سے نکالنے میں ایک کردار ادا کر سکتی ہے اگر وہ فرانس کے سفیر کو نکالنے کے معاملے میں، پارلیمنٹ میں ہم آواز ہو جائے۔ سیاسی جماعتیں طے کر لیں کہ وہ مذہب کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کریں گی۔ اس کیلئے سب سے زیادہ ذمہ داری حکمران جماعت کی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ سب سے زیادہ فکری افلاس کا مرکز بھی وہی ہے۔