'تعلیم ہی تعمیرکا واحد راستہ ہے‘۔ محض یہ ادراک کافی نہیں۔ اس کے ساتھ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ یہ تعلیم کیسی ہو؟ آپ کا تصورِ تعلیم کیا ہے؟ اس سے اہم ترسوال یہ ہے کہ آپ کا تصورِ انسان کیا ہے؟
گزشتہ ایک ماہ کے دوران میں دو خبریں سننے کو ملیں۔ ایک یہ کہ دینی مدارس کے نئی تعلیمی بورڈز قائم کیے گئے ہیں اور اس کے ساتھ چند بڑے مدارس کو بھی ڈگری جاری کرنے کا قانونی اختیاردے دیا گیا ہے۔ دوسری خبر یہ ہے کہ سعودی عرب کی حکومت اسلامی یونیورسٹی میں ایک مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ سو ملین روپے عطیہ کرے گی۔ اس مسجد کے ساتھ ایک اب ایک کلچرل سنٹرکو بھی شامل کردیا گیاہے جہاں سے دنیا بھر کو عربی زبان کی تعلیم دی جائے گی۔
یہ دوخبریں بڑی حدتک ان سوالات کے جواب فراہم کررہی ہیں جو میں نے کالم کی ابتدا میں اٹھائے ہیں۔ ان سے معلوم ہوتاہے کہ عالمِ اسلام اور پاکستان کے اربابِ حل و عقد تعلیم سے کیا مراد لیتے ہیں اوروہ مسلم معاشروں کی تشکیل کن خطوط پرکرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد یہ ابہام نہیں رہنا چاہیے کہ پاکستان اور امتِ مسلمہ کا مستقبل کیا ہوگا؟ ہمارا علمی انحصار کس پر ہوگا؟ یہ بڑی حد تک نوشتہ دیوار ہے۔
مسلم ممالک کے نظام ہائے تعلیم اگر اسی سوچ کے تابع رہتے ہیں تو اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ مستقبل قریب میں اسلام آباد یا ریاض میں کوئی ایسا دانش کدہ آباد ہو جس کے فارغ التحصیل ہمیں مغرب کی علمی غلامی سے آزاد کرا سکیں۔ ہم اپنی مادی تعمیر کیلئے ان ماہرین سے بے نیاز ہوجائیں جوکیمبرج اور ہارورڈ جیسے اداروں میں ڈھلتے ہیں۔ جہاں کے حکمران یہ خیال کرتے ہوں کہ علمی درسگاہوں میں عظیم الشان مساجد کی تعمیر سے 'مسلم علمی روایت‘ آگے بڑھے گی اور تعلیم کا مقصد، مدارس اوردیگر تعلیمی اداروں کواپنے قبضہ قدرت میں رکھنا ہے، وہاں اس کے علاوہ کسی نتیجے کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔
تعلیم کے عام طورپر دومقاصد ہوتے ہیں: ایک کسی معاشرے کے مخصوص تہذیبی پس منظر میں جنم لینے والے تصورِ انسان کی تجسیم۔ دوسرا مقصد ایسے ماہرین کی تیاری جو ملک اور معاشرے کی مادی تعمیر کی ضمانت ہوں۔ پہلے مقصد کی آبیاری اصلاً سماجی ادارے کرتے ہیں اورریاست کا نظامِ تعلیم اس میں معاون ہوتا ہے۔ دوسرے مقصدکا حصول تمامتر ریاستی نظامِ تعلیم کا مرہونِ منت ہے۔
پاکستان ایک مسلم معاشرہ ہے۔ برصغیر کی مسلم تہذیبی روایت کا محافظ۔ اس کا اہتمام خاندان، محلہ، مسجد اوردیگر سماجی اداروں کی سطح پرہونا چاہیے کہ یہاں پیدا ہونے والا مسلمان بچہ اپنی تہذیب کا نمائندہ بن جائے۔ اس کام میں نظامِ تعلیم کوسماج کی معاونت کرنی چاہیے۔ ہم نے اس کیلئے جو نصاب اور نظام تشکیل دیا ہے، اس کے نتائج اطمینان بخش نہیں۔ ہمارے سماجی ادارے اورنہ نظامِ تعلیم، وہ کردار پیدا کرنے میں کامیاب ہیں جسے اسلامی کہا جائے۔ اس کی ایک وجہ اس سماج کا غالب تصورِ مذہب ہے۔ یہ تصور، مذہب کا تعصب توپیدا کردیتا ہے، طالب علم کو اس کے جوہر سے محروم رکھتا ہے۔ رہی ریاست تواس کامقصد تعلیم کواپنی دسترس میں رکھنا ہے تاکہ یہاں کوئی آزادانہ سوچ پیدا نہ ہوجو اعیانی طبقے کے حقِ اقتدار کو چیلنج کرسکے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ بچے کی تہذیبی تجسیم ابتدائی تعلیم کی سطح پرہوتی ہے۔ یہی عمر شخصیت سازی کی ہے۔ اسی عمرمیں گھر کی تعلیم اہم ہوتی ہے اورتعلیمی ادارے میں دی جانے والی تعلیم بھی۔ جس طرح یہ عمربیت جانے کے بعد گھرکی تربیت بہت کم اثرانداز ہوتی ہے، اسی طرح تعلیمی اداروں میں بھی یہ نتیجہ خیزنہیں ہوتی۔ رہی اعلیٰ تعلیم تووہ جوہری طورپر اس بات کی متقاضی ہوتی ہے کہ تعصبات سے پاک ہو۔ اس مرحلے میں تعلیم کا مقصد طالبعلم کی اس استعداد میں اضافہ ہے کہ وہ اپنے طور پر غلط اور صحیح کا فیصلہ کر سکے۔
یہ اعلیٰ تعلیم کے مراکز ہیں جہاں مختلف علوم کے ماہرین تیار ہوتے ہیں اور وہی آنے والے وقت میں ملک وقوم کی مادی تعمیر کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔ لازم ہے کہ اس درجے میں تعلیم کوپوری طرح پیشہ ورانہ بنا دیا جائے اورطالبعلم میں یہ صلاحیت پیدا ہو جائے کہ وہ مختلف خیالات کو سمجھ سکے اوران میں انتخاب کر سکے۔ یہ نظریاتی تعلیم کا نہیں، پیشہ ورانہ اور علمی تربیت کا درجہ ہے۔
ایک فرق سماجی (Social) اور طبعی (Natural) علوم کا بھی ہے۔ سماجی علوم کی تشکیل میں 'تصورِانسان‘ کا کردار بنیادی ہے۔ یہ علوم اس سوال کے گرد فروغ پاتے ہیں کہ ایک معاشرے کا تصورِ انسان کیا ہے؟ اس کی بنیاد پر ایک تصورِعلم وجود میں آتا ہے جو اگلے مرحلے میں علوم (disciplines) کی تشکیل کرتا ہے۔ اس وقت سماجی علوم ایک نہج پر تشکیل پا چکے۔ اس نہج کا تعین اس علمی تحریک نے کیا ہے جس نے تحریکِ تنویر (Enlightenment) کے زیرِاثر مغرب میں فروغ پایا ہے۔ مسلمان ابھی اس مرحلے سے بہت دور ہیں کہ دنیا کوکسی متبادل تصورِ انسان سے متعارف کرا سکیں۔ اس کیلئے ایک بڑی علمی ریاضت کی ضرورت ہے، جس کا ہم میں ذوق ہے نہ ادراک۔
اس لیے موجود ہ صورتحال میں ہم دوکام کر سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ابتدائی تعلیم یکساں کردی جائے اور مسلم بچوں کو ان کی مذہبی اور تہذیبی روایت سے وابستہ رکھنے کا اہتمام کیاجائے۔ دوسرا یہ کہ اعلیٰ تعلیم کو پوری طرح پیشہ ورانہ انداز میں ترتیب دیا جائے اوران علوم کے اعلیٰ درجے کے ماہرین تیار کیے جائیں جوملک کی مادی تعمیر کیلئے قوم کو خود کفیل بنا دیں۔ اس کیلئے لازم ہے جامعات اور پیشہ ورانہ تخصص کے اداروں کا ماحول پوری طرح علمی ہو جس میں کسی مذہبی یا دوسرے تعصب کا گزرنہ ہو۔
موجودہ اربابِ حل و عقد کی جو سوچ ان کے اقدامات سے ظاہر ہورہی ہے، اس سے یہ مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ اگرقومی تعمیر پیشِ نظر ہوتی تو پانچ سوملین روپے سے اسلامی یونیورسٹی میں کسی بھی علم (discipline) کیلئے اعلیٰ تحقیقی ادارہ تشکیل پا سکتا تھا۔ میرے علم کی حد تک یونیورسٹی میں ایسی مسجد موجود ہے جو نماز کی ضروریات کیلئے کفایت کرتی ہے۔ اگر ہمارے حکمرانوں کے سامنے کوئی تصورِ تعلیم ہوتا تو وہ سعودی عرب کی حکومت کو یہ تجویز کر سکتے تھے کہ وہ شہزادہ سلمان بن عبداللہ کے نام پر یہاں ایک 'سنٹر آف ایکسیلینس‘ قائم کرے۔
اسی طرح، اگر مدارس کے نئے بورڈز بنانے کے بجائے جامعہ رشیدیہ جیسے اداروں کو علومِ اسلامیہ میں تخصص کے ادارے بناکر، دیگر جامعات کے نظام کا حصہ بنا دیا جاتا تویہ زیادہ بہتر ہوتا۔ اب یہ ادارے ایک طرف درسِ نظامی پڑھائیں گے اور ودسری طرف دیگر علوم کے ماہرین بھی تیار کریں گے۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ یہاں علمائے دین تیار ہوں گے یا انجینئر اور آئی آٹی کے ماہرین؟ یہ شتر گربگی نہ پہلے کامیاب رہی‘ نہ آئندہ ہوگی۔ مشاہدہ تو ہے کہ عبقری شخصیات نے بھی ایک سے زیادہ کردار نبھانے کی کوشش کی تو ناکام رہے۔
معلوم یہ ہوتا ہے کہ مسلم حکمران طبقے کے مقاصد، تعلیمی نہیں کچھ اور ہیں۔ تعلیمی نظام میں اصلاح کیلئے ناگزیر ہے کہ سوچ صرف اور صرف تعلیم کے گرد گھومے۔ اسے جب بھی دیگر مقاصد سے آلودہ کریں گے تو ممکن ہے کوئی عمارت کھڑی ہوجائے، کسی ریاستی نظام کو یہاں سے حمایت مل جائے مگر اس سے تعلیم کے نظام میں کوئی بہتری نہیں آ سکتی ہے۔