سیاست کا معاملہ عجیب ہے۔اس کی گرمی ٔبازار کسی رومان کے دم سے ہے۔اس کی گزر گاہ مگرحقائق کی سرزمین ہے۔سنگلاخ‘ویران اوربے آب و گیاہ۔یہاں جسم و جاں کا تعلق قائم رکھنے کیلئے کبھی کسی سائبان کی ضرورت پڑتی ہے اور خشک لب کبھی کسی کنویں کے کنارے لا کھڑا کرتے ہیں۔اس سائبان اور چاہِ مرادپر بالعموم ان قوتوں کا قبضہ ہوتا ہے جو رومان کے درپے ہوتے ہیں۔سایہ مل جاتاہے‘پیاس بجھ جاتی ہے مگر رومان مر جا تا ہے۔
رومان کا مر جانا بھی کم حادثہ نہیں۔زندگی محض جسم و جاں کے تعلق کا نام ہو تا تواس پیکرِ خالی میں قلب نام کا کوئی مرکزِوجود نہ ہوتا جہاں احساس پیدا ہوتا اورپروان چڑھتا ہے۔ جہاں محبت جنم لیتی اور زندگی کو معنویت سے آشنا کرتی ہے۔جہاں عزم کی آب یاری ہو تی ہے اور سطحِ زمین پر عزیمت کی وہ داستانیں رقم ہوتی ہیں جو شاہراہِ حیات پر عشاق کے لیے سنگ ہائے میل اور مینارہ ٔنور بن جا تی ہیں۔رومان نہ ہوتاتو انسانی تاریخ میں نہ قیس عامری ہو تا‘نہ دشت ہوتا اور نہ لیلیٰ۔شاعری کی روایت ہوتی اور نہ میرؔ و غالبؔ ہوتے۔ پھر زندگی جنت بھی ہوتی تو بے رنگ‘ بے ذائقہ بے بو۔سب زبانِ حال سے پکار رہے ہوتے ع
دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو
زندگی کا سب سے مشکل کام رومان اور حقائق میں تطبیق پیدا کرنا ہے۔ چاہیے تو یہ کہ رومان زندہ رہے مگر سفرِ حیات بھی جاری رہے۔سولی چڑھنے سے رومان تو زندہ رہتا ہے‘ عمر مگر مختصر ہو جاتی ہے۔ زندگی میں ایسے مراحل بھی آتے ہیں کہ وقت کے دامن میں صرف دو حل ہوتے ہیں: رومان یا زندگی؟ایک عزیمت کا راستہ ہوتا ہے اور ایک رخصت کا۔اسی مرحلے پر آدمی یہ طے کرتا ہے کہ اسے اپنے عہد میں جینا ہے یاتاریخ میں؟نون لیگ بھی اسی کشمکش سے دوچار ہے۔ایک طرف رومان ہے جسے نوازشریف اور مریم نواز نے پالا ‘پوسا اور بڑا کیا۔اس کی ایک قیمت ہے جو ادا کی۔دوسری طرف حقائق سے مطابقت ہے‘شہباز شریف جس کا عَلم تھامے ہوئے ہیں۔پہلا عزیمت کا راستہ ہے‘ دوسرا رخصت کا۔عزیمت میں جان جا تی ہے اوررخصت میں رومان۔
عزیمت میں‘ تاہم یہ لازم نہیں کہ بہرصورت جان جائے۔اسی طرح رخصت میں بھی ضروری نہیں کہ ہر بار جان بچ جائے۔رومان ثمر بار بھی ہوتے ہیں اورزندگی وبالِ جان بھی بن جا تی ہے؛ تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رومان بڑی قربانی مانگتے ہیں اوراکثر جان بھی ع
جس کو ہو دین و دل عزیز‘ اس کی گلی میں جائے کیوں
نو ن لیگ اگر آج زندہ ہے تو رومان کے دم سے۔یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر اس حال کو پہنچی ہے تو رومان ہی کے باعث۔نوازشریف کے ذہن میں عوام کے منتخب وزیراعظم کے اختیارات کا سوال نہ اٹھتا تو آج بھی ان کا اقتدار قائم ہوتا۔اقتدار نہ سہی ‘حکومت باقی ہوتی۔ شہباز شریف یہی کہتے ہیں۔ان کا مقدمہ ہے کہ یہ ہم تھے جنہوں نے عمران خان کوحکومت طشتری میں رکھ کر دی۔نون لیگ اور شریف خاندان کے مفاد کو دیکھا جائے تواس مقدمے میں جان ہے۔رہی جمہوریت اور جمہوری کلچر تو پھر وہ اسی نہج پر آگے بڑھتے جس پرپہلاقدم جنرل ایوب خان نے رکھا تھا: 'کنٹرولڈ ڈیمو کریسی‘۔ اس کا ترجمہ کیا جا سکتا ہے: 'پابہ زنجیرجمہوریت‘ یہ اسی طرح کا تصور ہے جو مولانا مودودی نے پیش کیا تھا: 'تھیو ڈیموکریسی‘ (Theodemocracy)۔ ہوتو جمہوریت مگر مذہب کی حدود میں قید۔ ایوب خان کے مطابق ‘ہو تو جمہوریت مگر اس کے پاؤں میں ایک زنجیر ہو جس کا دوسرا سرا 'ہمارے‘ ہاتھ میں ہو۔نواز شریف اگر اس سے مطابقت پیدا کر لیتے تو ان کا اقتدار باقی رہتا اور'کنٹرولڈ جمہوریت‘ بھی۔
کیا یہی اس ملک کا مقدر ہوناچاہیے تھا:ایک خاندان کی مستقل حکومت اور پابہ زنجیر جمہوریت؟نوازشریف جیسے رہنماؤں کا‘ کیا یہی کردار تھا کہ وہ شخصی اور خاندانی مفادات کی آب یاری کرتے اورسماج کی اس روحانی اور مادی ترقی کو نظر انداز کر دیتے جوآزادیٔ رائے اور فکری ارتقا کے بغیر ممکن نہیں ہے؟ کیا وہ اس مادی اور نظری کرپشن کے ساتھ سمجھوتا کر لیتے جو اس سیاسی بندوبست یا کنٹرولڈ ڈیموکریسی کا ناگزیر نتیجہ ہے؟ پھر یہ کہ کیا یہ طرزِ عمل ان کے اقتدارکے دوام کی ضمانت بن جاتا؟پیپلزپارٹی کی مثال سے اس سوال کا جواب مل سکتا ہے۔زرداری صاحب کی قیادت میں پیپلزپارٹی نے یہی ماڈل اپنایا۔ایک بارحکومت مل گئی لیکن اسے دوام نہیں مل سکا۔
نون لیگ کے لیے میرا مشورہ اب بھی وہی ہے جومیں پہلے عرض کر چکا۔ رومان اور حقائق میں تطبیق پیدا کر نے کی واحد صورت یہ ہے کہ مسلم لیگ بطور تحریک اور مسلم لیگ بطور سیاسی جماعت‘الگ الگ منظم ہو ۔تحریک اس جمہوری کلچر کے لیے جدو جہد کرے‘نوازشریف جس کی بات کر رہے ہیں۔یہ کلچر محض ووٹ کی عزت سے پیدا نہیں ہو گا۔ اس کے لیے کچھ اور بھی چاہیے۔جیسے سیاسی جماعتوں کی تنظیمِ نو۔
یہ تحریک عوام میں ایسا شعور پیدا کردے کہ وہ سیاسی جماعت ان کی نظر میں بے وقعت ہو جائے جو غیر جمہوری قوتوں کی آلہ کاربن جائے۔ سیاسی جماعتوں کے داخلی نظام میں وہ آوازیں مدہم ہو جائیں جو غیر سیاسی اداروں کے ساتھ شرکتِ اقتدار کے لیے ساز باز کی حمایت میں اٹھیں۔ ملک میں یہ فضا پیدا ہو جائے کہ جو اس طرح کی بات کرے‘عوام میں نَکُّو بن جائے۔ یہ تحریک مریم نواز کی قیادت میں آگے بڑھے اور اس کا ہدف انتخابات کے بجائے سماجی تبدیلی ہو۔
دوسری طرف شہباز شریف صاحب کی قیادت میں‘نون لیگ ایک سیاسی جماعت کے طور پر کام کرے۔وہ اپنی حکمتِ عملی کی تشکیل میں زمینی حقائق کو پیشِ نظر رکھے جس طرح دوسری سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔ سیاسی نون لیگ رومان پرور جماعت کے بجائے‘ایک ایسے سیاسی ایجنڈے کی حامل جماعت بن جائے جو اقتدار کی سیاست کے لیے موزوں ہو۔
میں جانتا ہوں کہ ایسا نہیں ہو گا۔مریم نواز سیاست کا وہ راستہ چھوڑنے کو تیار نہیں ہوں گی جوایوانِ اقتدار کی طرف جاتا ہے۔ان کو خوف ہوگا کہ جو اس دوڑ سے ایک بار نکل گیا‘اس کے لیے واپس آنا مشکل نہیں۔ عوام ان کے ساتھ ہیں تو وہ اقتدار کی سیاست کیوں نہ کریں؟ انہیں لیکن سوچنا ہوگا کہ اس کے ساتھ پھر رومان کی سیاست نہیں ہو سکتی۔ یہ درست ہے کہ طاقت ہی طاقت سے ہم کلام ہو سکتی ہے۔ اس فارمولے میں لیکن دوسری طاقت کے وجود کا اعتراف شامل ہے۔جب آپ نے دوسری طاقت کو مان لیاتو پھر بیانیے کا رومان ختم ہو گیا۔رومان کا مطلب ہے‘طاقت ایک ہی ہے اور وہ عوام کی طاقت ہے۔
دکھائی دے رہا ہے کہ اگلے انتخابات تواسی سیاسی بندوبست کے تحت ہوں گے جس میں طاقت کا مرکز سیاسی قوتوں کے پاس نہیں۔اگر مریم نواز اپنی تحریک سے یہ پریشر پیدا کر سکیں کہ یہ انتخابات زیادہ سے زیادہ شفاف اور غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت سے پاک ہوں تو یہ ان کی بڑی کامیابی ہوگی۔اس کے بعد ووٹ کی عزت کا بیانیہ اتنا مضبوط ہو جائے گا کہ اقتدار کی سیاست میں بھی فیصلہ کن کردار ادا کر سکے گا۔
اگر رومان اور اقتدار کی سیاست کو ایک ساتھ چلانے کی کوشش کی گئی تو اس سے داخلی تضادات اتنے نمایاں ہوجائیں گے کہ انہیں نبھانا آسان نہیں ہو گا۔ اہلِ صحافت کے لیے غبارِ خاطرکو تھامنا اب ممکن نہیں رہا۔اس سے سیاسی تحریک کوتوانائی مل سکتی ہے۔اہلِ صحافت جمہوری کلچر کے لیے برپا کی گئی ایک تحریک کا حصہ بن سکتے ہیں مگرکسی سیاسی جماعت کا نہیں۔