عوام اور ادب کا تعلق ختم ہو چکا۔عوامی جذبات کی ترجمانی اورجبر کے خلاف مزاحمت ادب کے وظائف میں شامل ہیں۔آج کا ادیب اور شاعر مگر یہ مزاحمت اور ترجمانی کرتا دکھائی نہیں دیتا،الا ماشاء اللہ۔
ہر تعلق کی طرح،ادب اور عوام کا تعلق بھی دوطرفہ ہے۔ایک طرف ادب عوام کا تر جمان نہیں رہا اور دوسری طرف عوام ادب سے ناتا توڑ چکے۔ابلاغ کے جو ذرائع اس رشتے کو قائم رکھے ہوئے تھے،ان کی ترجیحات میں ادب کی اشاعت شامل نہیں ہے۔اس رشتے کو ادبی جرائد،اخبارات کے ادبی صفحات، ریڈیو، ٹیلی وژن اور سب سے بڑھ کر سیاسی تحریکوں نے برقرار رکھاتھا۔آہستہ آہستہ سب ذرائع ختم ہو گئے یا پھر ان کی ترجیحات کی نئی فہرست میں ادب شامل نہیں رہا۔
ادب تعلیمی اداروں میں بھی فروغ پاتا تھا۔ مشاعروں کی روایت تھی اور بزمِ ادب کی بھی۔تعلیمی ادارے جب نظریاتی اور سیاسی قبضہ گروپس کے ہاتھوں یرغمال بنے تو علم کے ساتھ ساتھ اوربہت کچھ رخصت ہو گیا۔ان میں ادب بھی شامل تھا۔اس طرح عوام اور ادب میں تعلق کا ایک اور ذریعہ ختم ہو گیا۔جو کمی تھی ،وہ اس وقت پوری ہوئی جب علم کاروبار بن گیا اور اردو زبان اپنے ہی گھر میں عضوِ معطل بنا دی گئی۔زبان سے رشتہ ختم ہو نے کے بعد ادب سے کوئی تعلق باقی نہیں رہ سکتا۔
حبیب جالب ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے تا دمِ مرگ شاعری اور عوام کے رشتے کو قائم رکھا۔اگر ایوب خان کے خلاف عوامی مزاحمت کی رگوں میں ان کی شاعری خون کی طرح دوڑتی تھی توبھٹو صاحب کے خلاف اٹھنے والی تحریک کے روحِ رواں بھی وہی تھے۔ضیاالحق صاحب کے دور میں بھی ہمیں ادب مزاحمت کرتا دکھائی دیتا ہے۔احمد فراز،فہمیدہ ریاض اور بعض دوسروں نے عوامی جذبات کی ترجمانی کا فریضہ سر انجام دیا۔فہمیدہ ریاض نے نظم اور نثر دونوں کوتوانا کیا۔
جبر کا کوئی نظریہ یا مذہب نہیں ہو تا۔اس لیے مزاحمتی ادب کو بھی نظری تقسیم سے ماورا ہو کر دیکھا جا نا چا ہیے۔میں مذہبی آ دمی ہونے کی وجہ سے اس مزاحمتی ادب کی قدرو قیمت سے پوری طرح آگاہ نہیں تھا جوجنرل ضیا الحق کے دور میں تخلیق ہوا۔پھر احمد فراز اور فہمیدہ ریاض کی بھارت یاترا نے ان کے بارے میں ایک ایسی فضا بنا دی تھی کہ ان کی حب الوطنی تشکیک کی لہروں میں دھندلا نے لگی تھی۔
یوں بھی ضیاالحق صاحب کے دورکا بڑا حصہ بچپنے اورشعور کی ابتدائی منازل طے کر نے میں گزر گیا۔یہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ ان کے خلاف مزاحمت کیوں ضروری تھی اور کس نے اس میں کیا کر دار ادا کیا۔میں آج بھی اُسی طرح مذہبی آدمی ہوں مگر یہ خیال کرتا ہوں کہ عوام دوستی اورانسانی آزادی کی قدریں، نظری اور مذہبی وابستگی کے دائروں سے باہر ہیں۔بنیادی انسانی حقوق اور فرد کی آزادی کے لیے جد وجہد کر نے والاہر آدمی ایک سماج کی اجتماعی میراث ہے اوراس کا وجود ہر کسی کے لیے باعثِ خیر ہے۔
آج مزاحمتی ادب تخلیق ہو رہا ہے اور نہ ادب اور عوام میں کوئی رشتہ باقی ہے۔یوں ادیب جبر کی قوتوں کے خلاف مزاحمت میں شامل نہیں ہے۔ ایسے موقعوں پر یہ صحافت ہے جو ادب کا قائم مقام بن جا تی ہے۔ماضی میں ادب اور صحافت میں واضح لکیر موجود نہیں تھی۔صحافت ہی اکثر ادیبوں اور شاعروں کا ذریعہ روزگار تھا۔انتظار حسین جیسے افسانہ نگار اور فیض صاحب جیسے شعرا صحافت کرتے تھے۔یہ فہرست بہت طویل ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ تعلق کمزور سے کمزور تر ہو تا گیا۔آج وجاہت مسعود جیسے کتنے ہیں جو اس رشتے کو نبھانے پر قادر ہیں؟
اسلوب کے حوالے سے صحافت ادب سے الگ ہوگئی مگریہ صحافت ہی ہے جس نے آج مزاحمت کا عَلم اٹھایا ہے۔اگر آج ہم دو چار صاحبانِ عزیمت کا نام لیں تو ان کا تعلق سیاست سے ہے یا پھر صحافت سے۔یہ صحافت ہی ہے جس کے قافلے میں شہدا ہیں اور غازی بھی۔فگار انگلیوں والے ہیں اورچاک گریباں والے بھی۔وہ جبر کو قبول کر نے پر آمادہ نہیں۔
صحافت ،تاہم ان دنوں کاروباراور فرض کا ایک امتزاج ہے۔ جن کی ترجیح کاروبار ہے،ان کے فیصلے ان صحافیوں کے عزم سے ہم آہنگ نہیں جو صحافت کو ذمہ داری سمجھتے اورا سے سودو زیاں سے بے نیاز ہو کر دیکھتے ہیں۔یوں اہلِ مزاحمت مشکل وقت میں ہم پیشہ لوگوں کی تائید سے محروم رہتے ہیں۔اس وجہ سے ان کی مزاحمت ایک تحریک میں نہیں ڈھل سکی۔
ستم در ستم یہ کہ سیاسی جماعتیں مزاحمت سے گریزاں ہیں۔ آج وہ سیاسی کارکن ہی موجود نہیں جس کی تربیت میں مزاحمت شامل ہو۔وہ توصرف یہ جانتا ہے کہ سیاست ایک سرمایہ کاری ہے۔یہ اقتدار کے لیے ہوتی ہے۔ سیاسی جد وجہد بس اسی کا نام ہے کہ ہر اخلاقی ضابطے اور ہر سیاسی وسماجی قد سے بے نیاز ہوکر اقتدارتک پہنچا جائے۔جو یہ کر گیاوہ زیرک بھی ہے ا ور 'سیاست دان بھی۔‘ اس کی تازہ ترین مثال سینیٹ میں قائدِ حزب اختلاف کے لیے پیپلزپارٹی کی کامیابی ہے۔
پی ڈی ایم کی تحریک میں یہ امکانات پوشیدہ تھے کہ وہ جبر کے خلاف ایک مزاحمتی تحریک بن جاتی۔یہ تحریک شاید ہمیں کوئی حبیب جالب دے دیتی۔اس سے شاید ادب اور عوام کا ٹوٹا ہوارشتہ ایک بار پھر جڑ جا تا ۔افسوس کہ ان سب امکانات کو بر باد کر دیا گیا۔نو ن لیگ کی مزاحمت بھی ایک مخمصے کی گرفت میں ہے۔ایک نعرہ مستانہ اور پھرطویل خاموشی۔یہ حکمتِ عملی مجھے خدشہ ہے کہ تین سالہ مزاحمت کو برباد کر دے گی۔
پاپولزم کی لہر میں ابھرنے والے سیاست دان ،اب کس کو شبہ ہے کہ دراصل'سٹیٹس کو‘ کی قوتوں ہی کا پھیلایا ہوا جال تھا۔اس لیے اس سے مزاحمت کی کوئی توقع نہیں کی جا سکتی۔پھر یہ کہ ان کا ایجنڈا اتنا محدود اور شخصی ہے کہ وہ مزاحمت کی کسی تحریک میں ڈھلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔امریکہ کے سابقہ صدر ٹرمپ کے بارے میں کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ مزاحمت کی صدا ہیں؟
جب ادیب اور شاعر جبر سے مصالحت پر آمادہ ہو۔جب صحافت ادب کا قائم مقام نہ بن سکے اورمعاصرانہ چشمک اہلِ صحافت کو گھیر لے۔جب سیاست بھی مفاہمت کے آغوش میں پناہ لینے کو بے تاب ہو تو پھرجبر کے خلاف مزاحمت کون کرے گا؟سوشل میڈیا؟ایک شتر بے مہار سے دوڑ جیتنے کی امید کیسے وابستہ کی جا سکتی ہے؟کیا معلوم وہ کسی ایسے راستے پر لے چلے جو غنیم کے گھر کو جاتا ہو؟
مزاحمت کے بارے میں یہ غلط فہمی نہیں ہو نی چاہیے کہ یہ تصادم کا نام ہے۔مزاحمت ایک ناپسندیدہ صورتِ حال کے خلاف ردِ عمل کا اظہار ہے۔ شاعر شہر آشوب لکھ کرمزاحمت پیدا کرتے ہیں۔اہلِ صحافت زبان ا ور قلم سے احوالِ واقعی بیان کرتے ہیں۔سیاست دان ،سیاسی تحریکیں اٹھا کر عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتے۔ اہلِ دانش فکر و فلسفے کی گتھیاں سلجھاتے ا ور مزاحمتی تحریکوں کے لیے نشاناتِ راہ متعین کرتے ہیں۔
مزاحمت اجتماعی ضمیر کی پکار ہے کہ جبر اسے قبول نہیں۔یہ جبر ریاست کا ہو یا کسی سماجی گروہ کا،فرد کی آزادی کے خلاف جرم ہے۔مزاحمت اس شعور کی بیداری کا نام ہے۔جبر سے آزاد معاشرہ ہی ایک صحت مند قوم کو جنم دے سکتا ہے۔یہ سادہ سی بات جب کسی معاشرے کی اربابِ حل و عقد کی سمجھ میں آجا ئے توزندگی آسان ہو جا تی ہے۔یہ آسان بات سمجھانا مگر مشکل بہت ہے۔اس میں ہاتھ قلم اور انگلیاں فگار ہو تی ہیں۔