کینیڈا میں دو واقعات ایک ساتھ رونما ہوئے۔ مکمل تصویر دیکھنے کے لیے دونوں کا ایک ساتھ تذکرہ ضروری ہے۔
ایک واقعہ تو وہ ہے جس میں ایک پاکستانی اورمسلمان خاندان ایک انتہا پسندیہودی کی دہشت گردی کا نشانہ بنا۔یہ اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کے اس مرض کا اظہارہے جسے اسلاموفوبیا کہتے ہیں۔دوسرا واقعہ کینیڈا کے سماج کا اس حادثے پر ردِ عمل ہے۔حکومت اورپورا سماج، بلا استثنا ،مظلوم مسلمان خاندان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کینیڈا کے وزیر اعظم نے اس حادثے کودہشت گردی کہا اور اس معاملے میں کسی مداہنت کا اظہار نہیں کیا۔ دہشت گرد کو تنہا کر دیا گیا۔سماجی اعتبار سے،وہ اب لاوارث ہے۔
ان دونوں واقعات کو ایک ساتھ رکھ کر دیکھیں تو کینیڈا کے معاشرے کی ایک پوری تصویر ابھرتی ہے۔ میں اگر لفظوں میں بیان کروں تو وہ کچھ اس طر ح ہو گی: ''کینیڈا میں کچھ ایسے عناصر موجود ہیں جو اسلاموفوبیا کے مریض ہیں اور ان کی وجہ سے مسلمان عدمِ تحفظ کے احساس میں مبتلا ہیں تاہم کینیڈا کا معاشرہ بحیثیت مجموعی ایسے عناصر سے اظہارِ برات کر رہا ہے اور مذہبی امتیاز کو قبول کر نے کے لیے تیار نہیں۔
اگر اس بیانیے میں 'کینیڈا‘ کو'مغرب‘ سے بدل دیا جائے تو بھی یہ مقدمہ اپنی جگہ باقی رہتا ہے۔یہ بات ان لوگوں کے لیے خوشی کا باعث نہیں جو مسلمانوں اور غیر مسلموں میں جنگ اور تصادم کے لیے بے تاب رہتے ہیں اور ہر منفرد واقعے کو ایک اجتماعی واقعے کے طور پر پیش کر تے اور یوں مسلمانوں کے جذبات کو بھڑ کاتے ہیں۔ پیش گوئیوں پر مبنی کمزور روایات کا سہارا لے کر اور من پسند واقعات پر ان کے اطلاق سے، اسے دینی مقدمے میں بدلنے کے لیے بے چین رہتے اور اس کی آرزو کرتے ہیں کہ امن کی کوئی شمع کہیں روشن نہ ہونے پائے۔
نیوزی لینڈ میں جب اسی نوعیت کا حادثہ ہوا تو بھی ان لوگوں نے سر دھڑ کی بازی لگا دی کہ اسے بین المذاہب تصادم میں بدل ڈالیں۔ وہاں کی وزیر اعظم نے اپنی بصیرت سے اس کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ اس بار بھی امید کرنی چاہیے کہ کینیڈا کی حکومت مجرم کو سزا دے کر مذہبی تصادم کی آگ کو بھڑکنے نہیں دے گی۔ وزیرِ اعظم کے ابتدائی ردِ عمل سے مسلمانوں نے محسوس کیا کہ ان کے زخموں پر مرہم رکھا گیا ہے۔ یہ بات باعثِ اطمینان ہے کہ کسی مغربی ملک کے حکمران نے فرانس کے صدر کی پیروی نہیں کی۔
دوسروں کے مذہبی جذبات کا احترام آج ہر مذہب کے ماننے والوں کی ضرورت ہے۔ تصادم کسی کے حق میں نہیں۔ اس کی بڑی وجہ عالمگیریت ہے۔ نقلِ مکانی ایک ایسا عمل ہے جس کو روکا جا سکتا ہے، نہ کوئی امتیاز ہی روا رکھا جا سکتا ہے۔ نقلِ مکانی کے اسباب متنوع ہیں اوراس کا رخ فطری طور پر ترقی پذیر دنیا سے ترقی یافتہ دنیا کی طرف ہے۔ معاشی خوش حالی کی تلاش صرف ایک سبب ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی اسباب ہیں۔
ایک بڑا سبب علم ہے۔ گزشتہ دو صدیوں میں سماجی اور طبیعیاتی علوم کے تمام مراکز ترقی یافتہ دنیا میں قائم ہوئے۔ کسی علم کا ایک قابلِ ذکر مرکز، بشمول اسلامی علوم، ایسا نہیں جو مسلم دنیا میں ہو۔ جامعہ ازہر آج عظمتِ رفتہ کی صدائے بازگشت کے سوا کیا ہے؟ اس لیے مسلمان معاشروں کے آسودہ حالوں اور طالب علموں کو اگر علم کی تلاش ہوتی ہے تو ان کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ مغرب کا رخ کریں۔ یہی معاملہ غیر مسلم ترقی پذیر ممالک کا بھی ہے۔ یہاں تک کہ چین بھی امریکہ اور یورپ سے علمی بے اعتنائی اختیار نہیں کر سکتا۔
دوسری طرف ترقی یافتہ دنیا کو بھی معلوم ہے کہ اسے اگر علوم اور ٹیکنالوجی کے مراکز آباد رکھنے ہیں تو اس کیلئے رجالِ کار کی ضرورت ہے۔ امریکہ کی 'سلیکان ویلی‘ بھارت کے ماہرین سے آباد ہے۔ گویا یہ ایک دوطرفہ ضرورت ہے جس کے باعث نقلِ مکانی کو روکا نہیں جا سکتا۔ اب ہر مہاجر اپنے ساتھ اپنی تہذیب اور مذہب بھی لاتا ہے۔ آج تک کوئی ایسی ٹیکنالوجی ایجاد نہیں ہو سکی کہ ہر فرد کی تہذیب لباس کی طرح ایئرپورٹس پر اتار دی جائے۔ اس کا مذہب سامان کے ساتھ، داخلے سے روک دیا جائے۔
ترقی یافتہ دنیا کو اس کا احساس ہے۔ اس کی سلامتی اور امن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دامن میں اتنی وسعت پیدا کرے کہ تمام مذاہب اس میں سما سکیں۔اسی وجہ سے اس کی تہذیبی اقدار میں کثیر المدنیت(Pluralism) کو بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔مغرب نے اپنے دامن کو افراد اور علم،دونوں کے لیے اتنا وسیع کر دیا کہ اشتراکیت سے لے کر خلافت تک کے علم برداروں کو، اگر سر چھپانے کو جگہ ملی تو مغرب میں۔تاہم ، کوئی مذہب یا تصورِ حیات ،جب ازم یا سیاسی تحریک میں ڈھلتا ہے تووہاں کا سماج اسے اگل دیتا ہے۔
'ردِنوآبادیت‘(Decoloniality) ایک نظام ِ فکر ہے جس نے لاطینی امریکہ میں جنم لیا۔یہ اس مقدمے پر کھڑا ہے کہ علم کی تخلیق کا موجودہ عمل 'یورپ مرکز‘ (Eurocentric) ہے۔اس کا مقصد مغربی کلچر کو ایک عالم گیر کلچر کے طور پر پیش کرنا ہے جو دراصل مغربی سامراج کے تسلط کو بر قرار رکھنے کے ایک بڑے ایجنڈے کا حصہ ہے۔اس بات کو سب سے پہلے ایک علمی مقدمے کے طور پر ایڈورڈ سعید نے اپنی کتاب 'اورینٹلزم‘میں پیش کیا جو آج محض ایک نقطہ نظر ہی نہیں،ایک علمی مضمون (discipline) میں بدل چکا ہے۔آج ردِنوآبادیت کی تدریس امریکہ اور یورپ میں ہورہی ہے اور ایڈورڈ سعید ساری عمر امریکی یونیورسٹیوں میں پڑھاتے رہے ہیں۔
یہ کیوں ہے؟ مغرب نے اس راز کو جانا ہے کہ اس کا تسلط علم کی برتری سے قائم ہے۔آج یہ برتری تیر وتفنگ سے نہیں،علم سے قائم رہ سکتی ہے۔اس لیے جب تک علم ،چاہے وہ اس کے مقاصد سے متصادم ہی کیوں نہ ہو،اس کے مراکز ِ علم میں تخلیق ہوتا رہے گا،اس کی عالمی برتری قائم رہے گی۔ یہ اس کے مفاد میں ہے کہ ساری دنیا کے اعلیٰ دماغ اس کی طرف رخ کریں اور وہ سب پیاسوں کو سیراب کرے۔تصادم یا اپنی زمین کوکسی ایک مذہب کے ماننے والوں کیلئے تنگ کرنا خود اس کے لیے سازگار نہیں۔
مسلمانوں کے مفاد میں بھی یہی ہے کہ مذاہب کے مابین کوئی عالمگیر تصادم برپا نہ ہو۔ نقلِ مکانی کے باعث مسلمانوں کے مفادات ساری دنیا میں پھیل گئے ہیں۔اگر امریکہ اور یورپ میں کوئی فساد ہوگا تو پاکستان اس سے براہ راست متاثر ہو گا۔اس وقت ہمارے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں سب سے بڑا حصہ ان پاکستانیوں کا ہے جو امریکہ وغیرہ میں آباد ہیں اور وہاں سے ڈالرز کما کر پاکستان بھیج رہے ہیں۔
اسلام بھی کسی تصادم کا علم بردار نہیں ۔'دارالکفر‘ اور 'دارالاسلام‘ دینی اصطلاحیں نہیں ہیں۔یہ ایک ایسے دور میں مسلمان فقہا نے دنیا کی مذہبی تقسیم کو سامنے رکھتے ہوئے اختیار کیں جب مسلمان ایک ریاست ہی کی جغرافیائی حدود میں آباد تھے۔موجودہ دور میں،جب نقلِ مکانی ا ورقومی ریاست کے باعث ساری دنیا مسلمانوں کا وطن بن چکی،یہ تقسیم غیر متعلق ہوگئی ہے۔کچھ لوگ آج ان اصطلاحوں کو ایسے استعمال کرر ہے ہیں جیسے یہ کوئی دینی تقدس لیے ہوئے ہیں۔یہ مذہبی جذبات کے ا ستحصال کے سوا کچھ نہیں۔آج ضروری ہے کہ کینیڈا کے دونوں واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے، عالمی منظر نامے کو سمجھا جائے۔آج ہمیں ایک طرف اسلاموفوبیا کے اثرات سے دنیا کو خبردارکرنا ہے اور دوسری طرف ان لوگوں کوبے اثر بنانا ہے جو مذہب کے نام پر عالمگیر تصادم چاہتے ہیں۔اس کے لیے مذہب وابستگی سے ماورا جد وجہد کی ضرورت ہے۔