اس بار فلسطین کے مسئلے پر ‘ایک مدت کے بعدغیر معمولی تحرک دکھائی دیا۔اسرائیل کے خلاف احتجاج کی ایک لہر تھی جوبر طانیہ سے امریکہ تک پھیل گئی۔لوگوں نے اہلِ فلسطین اور اسرائیلی ریاست کو ایک نظر کے ساتھ دیکھنے سے انکار کر دیا۔ایک کو مظلوم اور دوسرے کو ظالم مانا گیا۔ اسرائیل کے سرپرست ممالک میں عوام اور حکمران ایک دوسرے سے مختلف بلکہ متضاد موقف کے ساتھ کھڑے دکھائی دیے۔ اہلِ فلسطین کے حق میں عالمگیر احتجاج ہوا۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا لیکن ایسی گرم جوشی ایک طویل عرصے کے بعد دیکھی گئی۔اس احیا کا سبب کیا ہے؟
میرے خیال میں اس کا تعلق عالمی سیاست اور عالمگیریت سے ہے۔ مسئلہ فلسطین ‘اسرائیل کے قیام کے بعد‘ قومی بنیادوں پر اٹھا یا گیاا ور اس کی قیادت ان لوگوں کے ہاتھ میں تھی جو اشتراکیت سے متاثر تھے۔'فتح‘ اور پی ایل او پربائیں بازو کا اثر تھا۔یہی سبب ہے کہ دنیا بھر میں فلسطینیوں کے حق میں سب سے بلند آہنگ اشتراکی خیالات رکھنے والے ہی تھے۔یاسر عرفات سے لے کر ایڈورڈ سعید تک اور فیض صاحب سے چومسکی تک‘یہ سب اسی نظریاتی کیمپ سے تعلق رکھتے تھے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ دائیں بازووالوں کی سوچ مختلف تھی۔علامہ اقبال اور قائداعظم سے مولانا مودودی اور جماعت اسلامی تک‘یہ سب لوگ بھی اہلِ فلسطین کے ساتھ کھڑے تھے؛ تاہم اگر فلسطینیوں کے حق میں کوئی عالمگیر تحریک اٹھی تو اس کے سرخیل بائیں بازو والے ہی تھے۔ سوویت یونین نے اس تحریک کی حو صلہ افزائی کی۔ وسائل فراہم کیے۔ سوویت یونین‘ ظاہر ہے کہ اس سارے معاملے کو اپنی نظر سے دیکھ ریا تھا اوراس کا تناظر عالمی سیاست تھا‘جسے ہم سرد جنگ کہتے ہیں۔
آزادی ٔ فلسطین کی یہ قومی تحریک تشدد کو بطورِ حکمتِ عملی اختیار کیے ہوئے تھی۔ جدو جہد اور انقلاب کاا شتراکی تصور ابتدا ہی سے تشدد کو ناگزیر سمجھتا ہے۔ماؤ سے لینن تک‘سب اس کو صاف لفظوں میں بیا ن کر چکے۔یہی وجہ ہے کہ مغربی استعمار کے خلاف ‘انیس سوپچاس اورساٹھ کی دہائی میں‘ بائیں بازو کے زیرِ اثر اٹھنے والی تمام تحریکیں مسلح جدوجہد کی حامی تھیں۔ ویت نام‘کوریا‘ لاطینی امریکہ‘ہر جگہ یہی حکمتِ عملی تھی۔چے گویرا اور کاستروجیسے لوگ ہیرو تھے اور یہ سب تشدد پر یقین رکھتے تھے۔
تشدد ان تحریکوں کی نظرمیں ناگزیر تھا کیونکہ دوسرا فریق بھی اسی کو اختیار کیے ہوئے تھا۔اگر استعمارتشدد اپناتا ہے تو اس کی مزاحمت کے لیے تشدد کا جواز بدرجہ اتم موجود ہے۔اس لیے عوام میں بھی اسے برا نہیں سمجھا جا تا تھا۔نیلسن منڈیلا کی سیاسی زندگی کا ابتدائی عہد تشددہی سے عبارت ہے۔ اسی رجحان کے زیرِ اثر فلسطینیوں کی جد وجہد میں بھی یہی حکمتِ عملی اختیار کی گئی۔اسی لیے جہاز کے اغوا کو کارنامہ سمجھا گیا۔ یاسر عرفات کا لباس بھی ایک گوریلا تنظیم سے وابستگی کا اعلانِ عام تھا۔ تشدد کے باب میں عمومی ناپسندیدگی دورِ جدید کی پیداوار ہے۔
فتح اور پی ایل او کو دو بڑے دھچکے لگے۔ایک حماس کا بننا تھا۔یہ 'پولیٹکل اسلام‘ کے نظری ڈھانچے کے زیر اثر اٹھنے والی تحریک تھی جس نے فلسطین کی تحریکِ آزادی کو مذہبی بنیادوں پر منظم کیا۔ یہ 1987ء میں وجود میں آئی۔ تشدد ان کی حکمتِ عملی کابھی حصہ تھا اور وہ اس کے لیے مذہبی استدلال رکھتے تھے۔حماس سے ظاہر ہے کہ آزادی کی یہ تحریک دو حصوں میں تقسیم ہو کر کمزور ہوگئی۔اگر دونوں گروہوں کے باہمی تصادم میں مرنے والوں کی فہرست مرتب کی جائے تو وہ بھی کم نہیں۔ایک کمیشن کی رپورٹ کے مطابق جنوری 2006ء سے مئی 2007ء کے درمیانی عرصے میں چھ سو سے زیادہ افراد مارے گئے۔ دوسرا دھچکا سوویت یونین کا کمزور ہونا اور پھر بکھرنا تھا۔اس سے عالمی سطح پرفلسطینیوں کی تائید میں کمی آئی اور وسائل میں بھی۔اس نے یاسر عرفات کو مجبور کیا کہ وہ اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے‘ایک سیاسی حل کی طرف رجوع کریں۔ حماس کو اسلامی تحریکوں کے سوا‘عالمی حمایت کم ہی حاصل رہی۔بعض عرب ممالک ان کی مدد کرتے رہے لیکن ایک وقت آیا کہ انہوں نے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔قطر نے ایک حد تک مدد کی لیکن وہ اتنی نہیں تھی کہ کوئی عالمی تحریک برپا ہوسکتی۔
آج مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کے نئے کھیل نے جو منظر پیدا کیا‘اس نے ایران اور تر کی کو حماس کا پشت بان بنادیا۔اس وقت تین طاقتیں اس خطے کی سیاسی قیادت کا دعویٰ رکھتی ہیں:سعودی عرب‘ ایران اور ترکی۔ قطر کی سیاست کو بھی اسی کش مکش کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ اس کے تاریخی اسباب ہیں جو ظاہروباہر ہیں۔میرا تجزیہ یہ ہے کہ حماس کے لیے ترکی اور ایران کی حمایت ان کے قومی مفادات کے تابع ہے۔ اس کا فلسطینیوں اور حماس کو زیادہ فائدہ نہیں پہنچے گا۔
ان دنوں جو اہم بات ہوئی‘وہ بائیں بازو کا ایک بار پھر متحرک ہو نا ہے۔یہ وہ نظریاتی گروہ ہے جو امریکہ اور برطانیہ میں پلا بڑھا۔سوویت یونین کے خاتمے کے بعد‘یہی یورپ اور امریکہ ہی ان کی پناہ گاہیں بنیں۔ان مما لک نے ا نہیں وہ سازگار ماحول فراہم کیا جس نے انہیں فکری اور معاشی طور پر زندہ رکھا۔ یہ گروہ کبھی ماسکو کو اپنا وطن بنا سکا نہ بیجنگ کو۔ سوویت یونین اور اشتراکیت کے نظری اور سیاسی زوال کے باوجود ‘اس گروہ نے ہمت نہیں ہاری اورخود کو زندہ رکھا۔
پرانی نسل سے چومسکی‘ طارق علی اور پرویز ہود بائی جیسے کچھ لوگ موجود ہیں۔نئی نسل سے ارون دھتی رائے جیسی متحرک اور باصلاحیت آوازیں اس کاحصہ بنیں۔اسی طرح قدرے استحکام کے بعد‘ صدر پیوٹن کی قیادت میں روس نے بھی عالمی سیاست میں اپنے کردار کی تجدید کی۔ان سب لوگوں نے فلسطینیوں کے بارے میں بائیں بازو کی سیاست کا احیا کیا۔آج ہمیں اسی کے مظاہر دیکھ رہے ہیں۔
دوسرا سبب انسانی حقوق کے باب میں جدید انسان کی حساسیت ہے۔ اس کی بنیاد لبرل ازم میں ہے۔جان و مال کی حرمت اور انسانی آزادی پر کوئی قدغن جدید آدمی کے لیے قابلِ قبول نہیں۔آزادیٔ رائے کے باعث‘ امریکہ اور یورپ میں یہ ممکن نہیں رہا کہ اسرائیل کے ریاستی مظالم پر مزید پردہ پڑا رہے۔عوامی سطح پرجیسے جیسے آگاہی بڑھتی جا رہی ہے‘اسرائیل کے خلاف نفرت بھی بڑھ رہی ہے۔
اس وقت اہلِ فلسطین کو تین طبقات کی حمایت حاصل ہوگئی:بائیں بازو والے‘ لبرل اوراسلام پسند (Islamists)۔ اس سے ان کے خلاف ہمدردی کی عالمگیر لہر اٹھی۔میں اس کا کریڈٹ جمہوریت کو دیتا ہوں۔یہ ایک جمہوری معاشرے ہی میں ممکن ہے کہ لوگ آزادی سے اپنی رائے کا اظہار کر سکیں۔مسلمانوں بالخصوص عرب ممالک میں سرِ دست کسی ایسی تحریک کے اٹھنے کا کوئی امکان نہیں۔اس کی وجہ جمہوریت کا نہ ہو نا ہے۔
فلسطین کے مسئلے کا حل خطے میں نہیں‘اس کے باہر ہے۔یہ واشنگٹن اور لندن میں ہے۔اگر خطے کی قوتیں بھی اس کا کوئی حل چاہتی ہیں تو انہیں ان مقامات پر توجہ مرکوز کر نا ہو گی۔جمہوریت اس معاملے میں ان کی معاون ہے کہ وہاں کی سیاسی حکومتیں تادیر عوامی جذبات کے برخلاف اقدامات نہیں کر سکتیں۔اس کا ایک مابعد الطبیعیاتی پہلو بھی ہے۔ قرآن مجید کی پیش گوئی ہے کہ یہود قیامت تک مسیحیوں کے رحم و کرم پر رہیں گے۔یہ وہی بات ہے کہ اسرائیل کے مقدر کا فیصلہ کل بھی لندن میں ہوا تھا اور آئندہ بھی لندن اور واشنگٹن ہی میں ہو گا۔
حمایت کی نئی عالمگیر لہر اہلِ فلسطین کے لیے اچھی خبر ہے مگراس مسئلے کا منصفانہ حل ابھی کوسوں دور ہے۔اس کے لیے سب سے پہلے خود فلسطینیوں کو ایک قوم بننا ہو گا۔