فرید پراچہ صاحب کی زندگی‘اس سے پہلے ایک کھلی کتاب تھی۔ اب انہوں نے اسے ایک 'بند کتاب‘ کی صورت میں بھی مرتب کر دیا ہے۔ بند کتاب میں کچھ خاص ہے جو کھلی کتاب میں نہیں۔
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ‘ مولانا گلزار احمد مظاہری کے صاحب زادے ہیں۔مولاناسید ابو الاعلیٰ مودودی کے الفاظ میں گلِ گلزار ہیں۔ان کی اپنی ایک پہچان ہے لیکن اس تعارف کو انہوں نے اپنا استخفاف نہیں‘ اعزاز سمجھا کہ وہ مولانا مظاہری کے بیٹے ہیں۔ورنہ بہت سے لوگ اس قلق میں عمر گزار دیتے ہیں کہ باپ کی نسبت سے کیوں یاد کیا گیا۔ ہماری روایت تو یہ ہے کہ ایک بچے کے کسی اچھا کام پر اس کی تعریف کی جائے تو کہا جاتا ہے''نیک والدین کی اولاد ہے۔‘‘
فرید پراچہ اس عہدِ رفتہ کا ایک کردارہیں جب پاکستان کی سیاست نظر یاتی ہوتی تھی۔اقتدار ہمیشہ سیاست کی پہلی ترجیح رہا ہے لیکن تب لوگ اپنی ذات کے لیے نہیں‘ اپنے نظریے کے لیے اقتدار کے طلب گار ہوتے تھے۔فرید پراچہ ایشیا کو سبز دیکھنا چاہتے تھے۔ان کے مخالفین کا خیال تھا کہ ایشیا سرخ ہے۔یہ بحث آج متروک ہو چکی۔ایشیا سے یورپ تک‘اب دنیا کا ایک ہی رنگ ہے۔وہ رنگ جو سرمایہ دارانہ نظام نے اختیار کیا ہے۔وہ رنگ بد لے تو ساری دنیا کا رنگ بدل جاتا ہے۔جب یہ بحث ہمارے ہاں اپنے عروج پر تھی اور تعلیمی ادارے اس کا مرکز تھے‘تب فرید پراچہ پنجاب یونیورسٹی طلبا یونین کے صدر تھے۔اس وقت وہ نظریاتی مخالفین کے لیے 'پراچہ‘ نہیں‘'طماچہ‘ تھے۔
ڈاکٹر فریدپراچہ کی خود نوشت''عمرِ رواں‘‘‘ کو میں دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوں۔ایک وہ جس کا تعلق ان کی ذات سے ہے۔ان کا پچپن‘گھر‘خاندانی پس منظر‘ذاتی زندگی کے دکھ اور خوشیاں۔شخصی تجربات۔پسند اور ناپسند۔ دوسرا حصہ وہ ہے جس کا تعلق جماعت اسلامی کی تاریخ سے ہے۔جماعت کی تاریخ اپنوں نے بیان کی اور مخالفین نے بھی۔وہ بھی ہیں جنہوں نے پسند نا پسند سے بلند تر ہو کر اس تاریخ کو بیان کر نا چاہا۔یہ دوسرے حصے سے‘اس لیے میں دانستہ صرفِ نظر کررہا ہوں؛تاہم ایک دو واقعات پر پراچہ صاحب کی شہادت کا ذکر کروں گا۔فریدپراچہ صاحب کی زندگی یہ بتاتی ہے کہ ایک مسلمان گھرانے کے شب وروز کیسے ہوتے ہیں۔ماں اگر دین دار ہو تو بچوں کی تربیت کیسے ہوتی ہے۔باپ دین کا عالم ہو تو وہ بچوں کا مستقبل کیسے دیکھتا ہے۔یہی نہیں‘ اولاد کیسے والدین کی تربیت اور خیالات کا ایک چلتا پھرتا اشتہار بن جاتی ہے۔ اس کتاب سے اس کلیے کی بھی توثیق ہوتی ہے کہ عادت وہی پختہ ہو تی ہے جو پچپن میں ڈالی جائے۔ پراچہ صاحب نے لکھا کہ ان کو باجماعت نماز کی عادت بچپن مین پڑ ی جب والد اس کا اہتمام کرتے تھے۔مشاہدہ اور تجر بہ یہی کہتا ہے کہ جو لوگ پچپن سے نماز کے عادی نہیں بنتے‘ساری عمر اس معاملے میں تساہل کا شکار رہتے ہیں‘الا یہ کہ کسی پر اللہ تعالیٰ اپنا خصوصی کرم کرے۔
فرید پراچہ صاحب نے بت شکنی کی تعلیم بھی گھر سے پائی۔سکول کے طالب علم تھے تو انہیں ایک بار ہم جماعتوں کے ساتھ ایک مندر میں دو تین راتیں گزار نا پڑیں۔اس کے احوال کے بیان میں لکھتے ہیں : ''مندر کی صفائی ہوئی۔مورتیاں توڑ کے سنت ابراہیمی کی تجدید کی ہوئی‘‘۔کتاب میں اس کی تفصیل ملتی ہے کہ کیسے یہ تربیت یونیورسٹی کے دنوں میں کام آئی جب اشتراکی بتوں کو گرانا پڑا۔کچھ 'بت‘ زخمی ہوئے اور بچ گئے۔ وہ آج تک ان معرکوں کی روداد سناتے اوران زخموں کو سہلاتے ہیں۔
پراچہ صاحب کی کتاب کئی ایسے دلچسپ واقعات کا بیان ہے جو انہیں زندگی میں پیش آئے۔ان کوکئی بار جیل جانا پڑا۔ہر بار کسی سیاسی معاملے میں۔اس دوران میں جب جرائم پیشہ لوگوں سے ان کی ملاقاتیں ہوئیں تو زندگی کی بعض تلخ حقیقتیں ان پر واضح ہوئیں۔اسی طرح جنوں سے بھی پالا پڑا اور بعض عجب واقعات بھی پیش آئے۔اس کتاب میں آپ کو ان کا ذکر ملے گا۔پراچہ صاحب جماعت اسلامی کی سیاسی ناکامیوں کا بھی دلچسپ پیرائے میں ذکر کرتے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ 1970 ء کی انتخابی مہم میں ملک کے عوام بھٹو صاحب کے نعرے 'روٹی کپڑا اور مکان‘ کے سحر میں تھے جو ان کو سمجھ آتا تھا اوران کے دل کی آواز تھا۔دوسری طرف جماعت اسلامی کے امیدوار میانوالی کے قصبات میں ایک ان پڑھ پاکستانی کو انڈونیشیا کے صدر سوئیکارنو کے پنچ شیلا(پانچ اصول) کے مضمرات سے خبردار کرتے یا پھر 1956ء کے آئین کی خوبیاں گنوا رہے ہوتے۔ اس کے بعد اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عام ووٹر کا فیصلہ کیا ہو گا۔
2008ء کے انتخابات کے بائیکاٹ کوپراچہ صاحب نے جماعت اسلامی کی تاریخ کا ایک غلط سیاسی فیصلہ قرار دیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ کیسے انہوں نے جماعت کی سینئر قیادت کواس فیصلے کے مضمرات کی طرف متوجہ کیا لیکن اس کی شنوائی نہ ہوئی۔بھارت کے وزیراعظم واجپائی صاحب کے دورے کے موقع پر جماعت اسلامی کا احتجاج بھی ان کے لیے قابلِ فہم نہیں ہے۔پراچہ صاحب کا کہنا ہے کہ لاہور کی انتظامیہ کے ساتھ‘اس بات پر اتفاق ہو گیا تھا کہ احتجاجی ریلی مغرب کی نماز کے ساتھ ختم ہو جائے گی اور ایسا ہی ہوا۔ ''اس وقت معلوم نہیں کس نے محترم قاضی صاحب کو بتایا کہ آج رات شاہی قلعہ میں واجپائی کے اعزاز میں استقبالہ ترتیب دیا گیا ہے۔اس کا روکنا ضروری ہے۔ محترم قاضی صاحب نے جاتے ہوئے مجمع کو ٹھہرنے کے لیے کہا اور پھر انہوں نے کہا کہ یہاں سے لوگ شاہی قلعہ پہنچیں۔میں نے جاتے جاتے یہ اعلان سنا۔زیادہ واضح نہیں ہوا نہ ہی سمجھ آیا کہ طے شدہ پروگرام کے بغیر اور قائدین وسیکورٹی کارکنان اور لاؤڈ سپیکر والے ٹرک کے بغیر یہ کارکنان کہاں جائیں گے اورکیا کریں گے‘انہیںکون کنٹرول کرے گا۔ہمارے پروگرام یں تو یہ حصہ شامل نہیں تھا‘‘۔ (صفحہ291-92)۔
پراچہ صاحب نے اس کتاب میں جماعت اسلامی کی تاریخ کے کم و بیش ہر اہم واقعے پر مختصراً یاتفصیلاً اظہارِ خیال کیا جو ان کی زندگی میں پیش آیالیکن پاکستان اسلامک فرنٹ کے بارے میں مکمل کفِ لسان سے کام لیا‘حالانکہ یہ جماعت اسلامی کی تاریخ کا انتہائی اہم باب ہے۔ اسی طرح 1993ء میں جماعت اسلامی جس بحران کا شکار ہوئی‘ اس کا بھی کوئی ذکر نہیں۔کتاب پڑھتے احساس ہوتاہے کہ جماعت کے بارے میں لکھتے وقت پراچہ صاحب کے قلم پر جماعتی نظم کا پہرا ہے۔ بہت سی باتیں جو وہ کہنا چاہتے ہیں مگر نہیں کہہ پاتے۔نائب امیر جماعت اسلامی سے شاید ہمیں اس کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہیے۔
ہر جماعت کی طرح جماعت اسلامی بھی ارتقا کے مراحل سے گزری۔یہ ارتقا نظریاتی بھی ہے اور حکمتِ عملی کے پہلو سے بھی۔فرید پراچہ صاحب کی سوانح عمری بین السطور اس ارتقا کو بیان کرتی ہے۔ایک طرف یہ بتاتی ہے کہ ایک نظریاتی کارکن کی تشکیل کیسے ہوتی ہے اور دوسری طرف اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نظریاتی سیاست اور اقتدار کی سیاست کے مطالبات کیسے ایک دوسرے سے متصادم ہو تے ہیں۔
پراچہ صاحب کا قلم رواں ہے اورزندگی کے شوخیوں سے واقف بھی۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے خیال ہوتا ہے کہ اگر وہ جماعت اسلامی کے لبادے سے نکل کر یہ کتاب لکھتے تو ہمیں اس میں محمد رفیع کے گائے‘معلوم نہیں کتنے گانوں کی لے سنائی دیتی۔جسٹس ایم آر کیانی نے اپنے انگریزی خطبات کے مجموعے کو عنوان دیاتھا:A Judge May Laugh (جج بیگانہ تبسم نہیں)۔پراچہ صاحب کی کتاب کا عنوان بھی‘اس صورت میں ہوتا:میں بھی گا سکتا ہوں۔