گزشتہ دو اڑھائی ماہ کے دوران میں‘بھارت کی دو ممتاز ترین مسلم شخصیات دنیا سے رخصت ہوئیں۔ایک کا تعلق علمِ دین سے تھا اور دوسری کا فنِ اداکاری سے۔ دونوں نے کم و بیش ایک صدی کی عمر پائی۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دونوں اپنے اپنے میدان کے بڑے لوگ تھے۔اس میں بھی شک نہیں کہ بھارت کی تاریخ ان کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔ایک تھے مولانا وحیدالدین خاں اوردوسرے دلیپ کمار۔
ان کا ایک خاموش کردار تھا‘جس کی لوگ کم ہی تحسین کر پائے ہیں۔ یہ بھارتی مسلمانوں کے مفادات کے محافظ تھے۔ان کاوجود مسلمانوں کے لیے ڈھال بھی تھا اور ڈھارس بھی۔بھارت کو اگر دنیا کے سامنے اپنا سیکولر چہرہ دکھانا ہے تو وہ ان شخصیات کا محتاج ہے۔یہ لوگ مسلمانوں کو یہ خاموش پیغام دے گئے کہ غیر موافق ماحول میں نہ صرف جیا جا سکتا ہے بلکہ بامِ عروج تک بھی پہنچا جا سکتا ہے۔
مولانا وحید الدین خاں تو خیر تھے ہی عالمِ دین‘دلیپ کمار بھی اپنے تہذیبی وجود کے بارے میں حساس رہے۔ نماز روزہ ان کے معمولاتِ زندگی کا حصہ تھے اورانہوں نے ایسی خرافات سے خود کوبڑی حد تک محفوظ رکھا جن سے فلمی دنیا پہچانی جا تی ہے۔اردو زبان کی خدمت کی اور اس کے بانکپن کو اپنے لہجے کی حلاوت سے مزید نکھاردیا۔زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن تاریخی عمل بعض اوقات ایک زبان کو ایک مذہب یا ایک قوم سے منسوب کر دیتا ہے۔جس طرح عربی زبان‘اب اسلام کی زبان ہے‘ اسی طرح اردو‘ برصغیر کے سیاسی پس منظر میں مسلمانوں کی زبان ہے۔بھارت میں اردو کے فروغ کا مطلب مسلم ثقافت کا فروغ ہے۔
ہند کی تقسیم‘ مسلمانوں کے مسائل کا کوئی مثالی حل نہیں تھا۔یہ ایک ممکنہ حل تھا اور اکثریت کے نزدیک سب سے بہتر۔اس کے کچھ مضمرات تھے اور ان میں سرِ فہرست بھارت میں رہ جا نے والے مسلمانوں کا مستقبل تھا‘ جس کے سامنے تقسیم نے ایک بڑا سوالیہ نشان کھڑا کر دیا تھا۔تحریکِ پاکستان‘ جنوبی ایشیا کے تمام مسلمانوں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے برپا ایک تحریک تھی‘صرف اُن مسلمانوں کے لیے نہیں جو کسی صوبے یا ریاست میں اکثریت رکھتے تھے۔سب کے لیے ہجرت ممکن نہیں تھی اور تحریکِ پاکستان میں بھی اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔
پاکستان بننے کے بعد‘بھارت میںرہ جانے والے مسلمانوں کا مفاد دو باتوں کا متقاضی تھا‘ایک یہ کہ پاکستان اور بھارت میں دوستانہ تعلقات رہیں اور ہند کی تقسیم پر تلملانے والے انتہا پسند وں کو یہ موقع نہ مل سکے کہ وہ دھرتی ماں کی تقسیم کا الزام لگا کر‘ وہاں رہ جانے والے مسلمانوں کو ظلم کا نشانہ بنائیں۔دوسرا یہ کہ بھارت کا حصہ بننے والے علاقوں میں آباد مسلمان وہاں اس طرح رچ بس جائیں کہ بھارت کی مجموعی تہذیبی شناخت‘معاشی ترقی اور سیاسی عمل کا ناگزیر حصہ شمار ہوں۔
پہلا کام تو نہیں ہو سکا۔کیوں نہیں ہو سکا؟یہ سوال اس وقت زیرِ بحث نہیں۔یہاں بطور امرِ واقعہ‘ یہ بیان کر نا مقصود ہے کہ پاک بھارت تعلقات کی اساس دوستی کے بجائے دشمنی پر رکھی گئی۔دوسرا کام ایک سطح پر ہوا اور بی جے پی کے ابھرنے تک‘مسلمان کسی بڑے حادثے کا شکار نہیں ہوئے۔ اس کی بڑی وجہ مولانا ابولکلام آزاد کی شخصیت تھی یا پھر وہ لوگ جنہوں نے مختلف شعبہ ہائے حیات میں کسی حد تک انہی کی پیروی کی۔ ان لوگوں نے علمِ دین‘سیاست‘ادب‘کھیل اور فنونِ لطیفہ میں یہ مقام حاصل کیا کہ وہ دنیا میں بھارت کی شناخت بنے۔ ان کی وجہ سے بھارت اس قابل ہوا کہ مشرقِ وسطیٰ میں اپنا تعارف پہنچا سکے۔اس ضمن میں مولانا سیدابوالحسن علی ندوی کا کردار بہت اہم ہے۔مولانا کو کئی مسلمان ممالک نے شہریت کی پیشکش کی لیکن انہوں نے اسے قبول نہیں کیا اور بھارت کی شہریت کو ترجیح دی۔کوئی چاہے تو یہ فقہی سوال اٹھا سکتا ہے کہ انہوں نے کسی دارالاسلام کے بجائے‘ ایک دارالکفرمیں رہنے کو کیوں اہم سمجھا لیکن میرا احساس ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ وہاں کے مسلمانوں کی خیر خواہی میں کیا۔ یہ کردار تعلیمی اداروں نے بھی ادا کیا جو مسلمانوں نے قائم کیے اور ان کے اہتمام وانصرام میں آج بھی کام کر رہے ہیں۔ جیسے دار العلوم دیوبند‘ ندوہ‘ مظاہر العلوم‘علی گڑھ اوربریلی کی درس گاہیں۔یہ ادارے اسلام کو بھارت کی اجتماعی شناخت کا جزو لاینفک بنانے میں کامیاب رہے۔ان اداروں اور شخصیات کا وجود‘ آج بھارت میں مسلمانوں کے مفادات کا سب سے بڑا محافظ ہے۔ میں مولانا وحید الدین خاں اور دلیپ کمار کے کردار کو اسی پس منظر میں دیکھتاہوں۔انہوں نے بھارت کے تہذیبی تشخص کو اپنے کام سے چار چاند لگا دیے۔یہ عالمِ اسلام میں بھارت کا اعزاز ہے کہ مولانا وحید الدین خاں جیسا عالم اس ملک کا شہری تھا۔جہانِ فن میں یہ بھارت کے لیے باعثِ عزت ہے کہ یوسف خان(دلیپ کمار) کا تعلق بھارت سے تھا۔ یوں بھارت ان مسلمانوں کا احسان مند ہے۔یہ بھارت کی مجبوری ہے کہ وہ دلیپ کمار کو سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کرے۔ ان شخصیات کے اٹھ جانے سے‘ بھارت کے مسلمانوں میں وہ لوگ کم ہو تے جا رہے ہیں جن کی شخصیت اتنی بھاری بھرکم ہو کہ بھارت بطور ریاست انہیں نظر انداز نہ کر سکے۔ بھارت کی فلم انڈسٹری پر مسلمانوں کا غلبہ ہے لیکن ان میں کوئی ایسا نہیں جو دلیپ کمار جیسی شخصیت رکھتا ہو۔علما میں بھی مولانا وحید الدین خاں کے قد کاٹھ کا کوئی آدمی دکھائی نہیں دیتا۔جماعت اسلامی ہند کے موجودہ امیر سید سعادت اللہ حسینی ایک متین شخصیت ہیں۔ اسی طرح جماعت میں مولانا جلال الدین عمری بھی ہیں۔ان لوگوں کا وجود غنیمت ہے۔ بھارت کی مسلمان شخصیات کے کردار کو‘ پاکستان کے مفاد کے پیمانے پر نہیں جانچا جا سکتا۔اسے بھارتی مسلمانوں کے مفادات کے پس منظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ بھارتی مسلمانوں کا حقیقی خیر خواہ وہی ہے جوانہیں ریاست کے ساتھ متصادم کرنے کے بجائے‘ان کیلئے ایسے مواقع پیدا کرے جو ان کی صلاحیتوں کو جلا بخشیں اور ہندو اکثریت انہیں ریاست کے لیے اثاثہ سمجھنے پر مجبور ہو۔
بھارت کی بدقسمتی یہ ہوئی کہ وہاں کی سیاست انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھ میں چلی گئی۔گاندھی اورنہرو جیسے لوگ پھر پیدا نہ ہوئے جو یہ جانتے تھے کہ مسلمان بھارت کے لیے بوجھ نہیں‘سرمایہ ہیں۔دوسری طرف مسلمانوں میں مولانا ابوالکلام آزاد کا کوئی جانشین پیدا نہ ہو سکا۔مولانا وحیدا لدین خاں تھے مگر اپنو ںہی کی گالیاں کھا تے رہے۔ مسلمانوں کی سیاسی قیادت تصادم پسندوں کے ہاتھ میں رہی۔اس دوطرفہ انتہا پسندی کا نقصان بھارت کو بھی ہوا اور مسلمانوں کو بھی۔گجرات جیسے انسانیت سوز واقعات اس لیے ہوئے کہ سیاست پر مودی جیسے انتہا پسندوں کا قبضہ ہوگیا۔آج انہیں دیکھیں تو واجپائی اور جسونت سنگھ بھی غنیمت معلوم ہوتے ہیں۔
علمِ دین یا فنِ اداکاری کا نقصان تو اپنی جگہ‘مولانا وحید الدین خاں کے بعد‘ دلیپ کمار کی رخصتی بھارتی مسلمانوں کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔علمائے دین میں کم ہیں جومولانا آزاد کی سطح کا ملی شعور رکھتے ہوں۔ اداکاروں میں شبانہ اعظمی اور نصیرالدین شاہ جیسے لوگ ہیں جن کے کمالِ فن کے اعتراف کے باوجود‘واقعہ یہ ہے کہ وہ مسلم تہذیب یا تشخص کے باب میں کبھی حساس نہیں رہے۔شبانہ اعظمی اور جاوید اختر تو اپنا تہذیبی وجود کب کا مٹا چکے۔ بھارت مولانا وحیدالدین خاں اور یوسف خان (دلیپ کمار) جیسے لوگوں سے خالی ہوتا جا رہاہے۔ بھارت کے مسلمانوں کواس خلا کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ مسلمانوں کا مفاد متقاضی ہے کہ ان شخصیات کی مسندیں کبھی خالی نہ رہیں۔