مشتاق یوسفی صاحب اور انور مسعود صاحب سے محبت خوش ذوق ہونے کی نشانی ہے‘لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مداح‘ ممدوح کی طرح آتشِ مزاح نگاری میں بے خطر کود پڑے۔یہ آگ لازم نہیں کہ سب کے لیے گلزار ہو جا ئے۔جلنے کے امکانات زیادہ روشن ہیں۔
ذوالفقار چیمہ صاحب ایک بہادر آد می ہیں۔ہمیشہ آگ سے کھیلتے آئے ہیں۔پنجاب پولیس کے افسران‘ ان کی بہادری کی داستانوں کو اگر دہراتے رہیں تو صوبے کی زمین جرم اور مجرم کے لیے تنگ ہو جائے‘ لیکن کیا وہ اتنے بہادر ہیں کہ سنجیدہ لکھتے لکھتے ‘طنزومزاح کی وادی میں جا نکلیں گے‘اس کا مجھے اندازہ نہیں تھا۔مزاح لکھنے کے لیے صرف کاغذ قلم کافی نہیں۔ایک طبع رواں اورایک ذہن رساچاہیے۔قلم سے شعلہ باری آسان ہے مگر کسی کو گدگدانا بہت مشکل ۔
چیمہ صاحب نے نتائج سے بے پروا ہو کر اس چنچل حسینہ کو رام کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ مجھے بہت حیرت ہوئی جب میں نے ان کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ''پسِ پردہ‘‘ دیکھا۔مزید حیرت اسے پڑھ کر ہو ئی کہ وہ مزاح نگاری کے آتش میں بیٹھے‘مسکرا رہے ہیں۔یوسفی صاحب سے محبت رنگ لے آئی تھی۔
اردو کا مزاحیہ ادب ‘اس میں کیا شبہ ہے بہت اعلیٰ درجے کا ہے۔نثر اور شاعری کو مشتاق یوسفی صاحب اور انور مسعود صاحب نے بام ِعروج تک پہنچا دیا۔شاعری میں انور مسعود صاحب کے مقام تک رسائی آسان نہیں۔نثر میں بہت سے صاحبانِ رائے یوسفی صاحب کو یہی حیثیت دیتے ہیں۔یہ رائے رکھنے والے لوگ ایسے بلند پایہ ہیں کہ ان سے اختلاف کرنا اپنی ساکھ کو خطرے میں ڈالنا ہے۔میں لیکن یہ کہنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ ابن انشا اور عطاالحق قاسمی کبھی کبھی مزاح کو وہاں لے جاتے ہیں کہ جہاں ان کے سوا کوئی اور دکھائی نہیں دیتا۔ایسے موقعوں پرکلی فضیلت نہ سہی‘قاری جزوی فضیلت کابہر حال قائل ہو جاتا ہے۔قاری سے یہاں مراد یہ کالم نگار ہے۔
یہ کمال میں نے ابن انشا اور عطاالحق قاسمی کی تحریروں میں دیکھا ہے کہ پڑھنے والا اپنے قہقہے کو نہیں روک سکتا۔دونوں کے ہاں اتنی برجستگی ہے کہ سبحان اللہ!دونوں اخبار کے کالم نگار ہیں۔ابن انشا اب کالم نہیں لکھتے کہ قدرت نے ان سے جو لکھوا نا تھا‘لکھوا لیا۔عطاالحق قاسمی کی کالم نگاری جا ری ہے اوراس پر دور دور تک عمر کے اثرات دکھائی نہیں دیتے۔ان کے ہوتے ہوئے‘اگر کوئی کالم نگار مزاح لکھنے کی ٹھان لے تو اس جرأت پر داد تو بنتی ہے۔
چیمہ صاحب نے اس ماحول میں فکاہیہ کالم لکھے اور قاسمی صاحب سے بھی اس کی داد پائی۔انہیں یہ داد انور مسعود صاحب سے ملی‘اظہار الحق صاحب اور ظفر حسن رضا صاحب نے بھی دی۔اتنے ثقہ لوگوں نے اگر انہیں مزاح نگار مان لیا تو میرے ماننے یا نہ ماننے سے کیا ہوتا ہے؟ہاںجذبات کے اظہار کا دروازہ مجھ سمیت سب پر کھلا ہے۔یہ کالم بھی اسی شمار میں ہے۔
چیمہ صاحب نے ایک بامقصد زندگی گزاری ہے۔انہیں گھر سے زندگی کا جو پہلا سبق ملا ‘وہ یہی تھا کہ زندگی خدا کی امانت ہے اوراسے امانت سمجھ کر ہی گزارنا ہے ۔یہ جس کی امانت ہے‘اس کے حضور میں کل اس زمین پر گزرے شب وروز کا حساب دینا ہوگا۔تعلیمی اداروں میں بھی انہیں ایسے لوگوں کی صحبت میسر رہی جنہوں نے گھر کے اس آموختہ کو مزید پختہ کر دیا۔ ایساآدمی اگر قلم اٹھائے گا تویہ نہیں ہو سکتا کہ وہ بے مقصد لفظوں سے کھیلتا رہے۔محض داد کی حرص میں الفاظ کے حرمت کو پامال کرنے پر آمادہ رہے اور اس پر اسے ملال بھی نہ ہو۔ صاحبِ کتاب نے جب لکھنا شروع کیا تو ان کے پیشِ نظر ایک مقصد تھا۔ عام طور پر یہ گمان کیا جاتا ہے کہ مقصدی تحریروں کے لیے لازم ہے کہ سنجیدہ اسلوب میں لکھی جائیں۔ چیمہ صاحب نے بھی سنجیدہ تحریریں لکھیں۔ایسی تحریروں پر مشتمل ان کے کالموں کے مجموعے بھی شائع ہو چکے۔ان کالموں میں نظریے کے ساتھ پختہ وابستگی‘اپنے کلچر سے جذباتی لگاؤ اور پاکستان سے بے پناہ محبت ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔گویا ایک دریا میں تین طرح کی لہریں بیک وقت موجزن رہتی ہیں۔
ان کے تخلیقی ذہن نے مگر جلد ہی یہ دریافت کر لیا کہ مقصد کا تعلق اسلوب سے نہیں‘ نفسِ مضمون سے ہے۔مزاح کے پردے میں بھی بہت سنجیدہ بات کہی جا سکتی ہے۔ مزاح محض یاوہ گوئی یامیاں بیوی کے لطائف لکھنے کا نام نہیں۔ یوسفی صاحب کی ''آبِ گم‘‘ کو کون غیر سنجیدہ قرار دے سکتا ہے؟ انور مسعود صاحب نے تو شاید ہی کوئی قطعہ یا نظم لکھی ہو جو مزاح برائے مزاح کے دائرے میں آتی ہو۔دونوں نے یہ کر کے دکھا دیا کہ فکری سنجیدگی کو برقرار رکھتے ہوئے اعلیٰ درجے کا مزاح تخلیق کیا جا سکتا ہے۔
''پسِ پردہ ‘‘میں ہمارے سماجی رویوں اور سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے کھوکھلے پن کو نمایاں کیا گیا ہے۔انور مسعود صاحب نے ان کے مضمون ''آخری معرکہ‘‘ کو ان کاشاہکار قرار دیا ہے جس میں انہوں نے سرکاری افسران کے کھانے کی منظر نگاری کی ہے۔''معرکے‘‘ کے لیے انہوں نے زبان و بیان کے حوالے سے جن تراکیب کا استعمال کیا ہے‘اس کی بطور خاص داد دی ہے۔
میرا خیال ہے'معززینِ علاقہ‘ بھی کسی طور کم نہیں۔اس ملک میں جس طرح سکہ بند جرائم پیشہ معزز شمار ہوتے ہیں ‘مضمون میں اس کا خوب نقشہ کھینچاگیا ہے۔ اسلوبِ بیان ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتا ہے اور موضوع کی سنجیدگی دل میں درد کی ایک لہر اٹھا دیتی ہے۔ 'عزت‘ میں بھی اسی مضمون کو ایک اور انداز میں بیان کیا گیا ہے۔اس کتاب کو پڑھتے ہوئے‘آپ کو یہ اندازہ بھی ہوگا کہ ہمارے ملک کی دیہاتی سیاست کیسی ہے‘سرکاری افسران کو ترقی کس طرح ملتی ہے۔
''تقریب ِ رونمائی‘‘ بھی خوب ہے۔کتاب کی لکھائی سے پذیرائی تک‘ ہمارے ہاں جو کچھ ہوتاہے‘یہ اس کی داستان ہے۔اب جیسے لکھنے والے ہیں‘ویسے ہی تقاریبِ رونمائی میں تقریر کرنے والے بھی ہیں۔یہ ادب اورعلم کے نام پر ہونے والے اس بھونڈے مذاق کاتذکرہ ہے جس نے ہمارے سماج کو تہذیبی اعتبار سے کھوکھلا بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔اس سے سطحی چیزوں پر داد کاایک کلچر وجود میں آیا جس نے اعلیٰ درجے کی تخیلات کو پرکھنے کی صلاحیت چھین لی۔
یہ کالم ''پسِ پردہ‘‘کے بارے میں ایک قاری کے تاثرات ہیں‘کسی ناقد کا ماہرانہ تبصرہ نہیں۔ اسے خوش ذوقی کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔ یہ اہتمام خوش آئند ہے‘ اگرچہ میرا خیال ہے فکشن یا مزاحیہ ادب کو آرٹ پیپر کے بجائے کم وزن کاغذ پر چھاپنا چاہیے ۔اس سے قاری اور کتاب کے درمیان بے تکلفی کا رشتہ قائم ہوتا ہے کیونکہ اس طرح کی کتابیں بستر پر لیٹ کر پڑھی جاتی ہیں۔بھاری کتاب ‘کتاب بینی کے اس خوش گوار عمل کو بوجھل بنا دیتی ہے۔
اسلوب کے حوالے سے‘ چیمہ صاحب اب دونوں طرح کی تحریریں لکھ رہے ہیں۔سنجیدہ اور مزاحیہ ۔انور مسعود صاحب بھی یہ کرتے ہیں۔اب کالم پڑھنے سے پہلے سے سوچنا پڑھتا ہے کہ معلوم نہیں‘قاری سے کیا سلوک ہو‘وہی بات جو انور مسعود نے اپنے بارے میں کہی؎
انور کی سرِبزمِ سخن آئی ہے باری
کیا جانیے‘ یہ شخص ہنسا دے کہ رلا دے
''پسِ پردہ‘‘ میں نے سرعت کے ساتھ پڑھ ڈالی۔آپ کو اگر ہلکی پھلکی تحریروں سے لگاؤ ہے تواسے ضرور پڑھیے۔ آپ بھی میری طرح جہاں اسلوب کا حظ اٹھائیں گے‘ وہیں سوچنے پر بھی مجبور ہوں گے۔