طالبان کی حالیہ کامیابیوں پر پاکستان میں جو لوگ خوش ہیں اور پُرجوش بھی، وہ تین طرح کے ہیں۔ تینوں نے طالبان کو اپنی اپنی نظر سے دیکھا اور حسبِ منشا، ایک قالب میں ڈھالا ہے۔ اُن میں سے کوئی ایک قالب ایسا نہیں ہے جو طالبان کی قامت کے لیے موزوں ہو۔ ان کی ساخت اور ترکیب اس سے بالکل مختلف ہے جیساکہ یہ گروہ گمان کرتے ہیں۔
ایک گروہ کا خیال ہے کہ طالبان کی حیثیت، اُس معرکے میں مقدمۃ الجیش کی ہے جو اسلام اور کفر کے مابین برپا ہونے والا ہے اور جس کی پیش گوئی روایات کی ان کتب میں موجود ہے جو صدیوں پہلے مرتب ہوئیں۔ اس گروہ کو یقین ہے کہ دنیا ایک عالم گیر تصادم کی طرف بڑھ رہی ہے جو ناگزیر ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ خلافت علیٰ منہاج النبوہ قائم ہو گی جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔ یہ گروہ دنیا میں ہونے والے ہر واقعے کو اسی نظر سے دیکھتا ہے۔
اس گروہ کا کہنا ہے کہ طالبان کی پوری جنگ دراصل ٹیکنالوجی اور ایمان کے مابین معرکے کی داستان ہے۔ ایک طرف دنیا کے جدید ترین ہتھیار اور عسکری علم تھا اور دوسری طرف محض قوتِ ایمانی۔ اس ایمانی قوت نے ایک عالمی قوت کا غرور خاک میں ملا دیا۔ یہ ایک محیرالعقول واقعہ ہے جواس بات کی ناقابلِ تردید دلیل ہے کہ طالبان کو تائید ایزدی میسر تھی۔ وہ خدا کے بھروسے پر لڑے اور فتح مند رہے۔ یہ اس نوعیت کا پہلا معرکہ تھا۔ آخری معرکہ عالمی خلافت کا قیام ہو گا۔
اس مقدمے کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب طالبان کے لیے قطعی طور پر ایک اجنبی تصور ہے۔ طالبان کے کسی راہنما نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ اسلام کے عالمی غلبے کی کوئی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کا مقدمہ پہلے دن سے یہی ہے کہ وہ افغانستان کو غیر ملکی تسلط سے آزادی دلانا چاہتے ہیں۔ امریکہ سے ان کا جھگڑا محض اتنا ہے کہ وہ افغانستان پر ناجائز طور پر قابض ہے۔ اگر وہ یہ قبضہ ختم کر دے تو اس سے ان کی کوئی لڑائی نہیں۔ انہیں اس بات سے زیادہ دلچسپی نہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کیا کرتا ہے یا اس کی خارجہ پالیسی کیا ہے۔
پہلی بار جب طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو اسے امریکہ کی در پردہ حمایت حاصل تھی۔ طالبان نے بھی امریکہ کے ساتھ کسی مخاصمت کا کبھی اظہار نہیں کیا۔ تعلقات کی خرابی اِس بات پر ہوئی کہ طالبان کے عہدِ اقتدار میں افغانستان کی سرزمین امریکہ کے خلاف استعمال ہوئی ہے۔ اِس بار طالبان نے اس کی ضمانت دی ہے کہ اگر انہیں اقتدار حاصل ہو گیا تو افغانستان میں امریکہ مخالف کوئی قوت سرگرم نہیں ہو پائے گی۔ اس کے بعد ہی امریکہ نے طالبان کا راستہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس بار بھی اسلام کی بات ہوئی نہ اس کے غلبے کی۔ یہ فریقین کے مابین ایک سیاسی معاہدہ تھا۔
طالبان جب افغان قوم اور ملک کی آزادی کی بات کرتے ہیں تو اس میں یہ شامل ہوتا ہے کہ یہاں کا نظام افغانوں کی مرضی سے بنے گا۔ یہ نظام ان کے خیال میں صرف اسلامی ہو سکتا ہے اور وہ بھی مقامی علما کی تعبیر کے مطابق۔ طالبان کی اپنی شناخت چونکہ مذہبی ہے اور ان کے تصورِ سیاست کے مطابق، اسلام کی حکومت سے مراد علما کی حکومت ہے، اسی لیے وہ اس باب میں دوٹوک موقف رکھتے ہیں کہ اسی طرز کی اسلامی حکومت قائم کی جائے گی۔ امریکہ کو اس پر زیادہ اعتراض نہیں۔ صدر جو بائیڈن نے واضح لفظوں میں یہ کہا ہے کہ وہ افغانسان میں کوئی قوم بنانے نہیں آئے تھے‘ یہ فیصلہ افغان خودکریں کہ وہ کیسی قوم بننا چاہتے ہیں۔
دوسرا گروہ وہ ہے جو مولانا مودودی کی تعبیرِ دین سے اتفاق رکھتا اور اس کے مطابق اسلامی ریاست تشکیل دینا چاہتا ہے۔ اس کی مسرت سے یہ اظہار ہوتا ہے جیسے طالبان کی حکومت ان کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ اگر وہ طالبان سے کبھی پوچھ لیتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ ان کی تعبیرِ دین اور مولانا مودودی کے بارے میں ان کے خیالات کیا ہیں؟ طالبان دیوبندی علما کی تعبیر کے مطابق، فقہ حنفی کو ماننے والے ہیں۔ طالبان کے عہدِ اقتدار میں قاضی حسین احمد، امیر جماعت اسلامی نے پوری کوشش کی مگر انہیں افغانستان میں داخل ہونے کی اجازت نہ مل سکی۔
جماعت اسلامی کا افغان متبادل، گلبدین حکمت یار کی حزبِ اسلامی ہے۔ حزبِ اسلامی مسلسل طالبان سے برسرِ پیکار رہی اور اس وقت بھی طالبان مخالف سیاسی اتحاد کا حصہ ہیں جو اشرف غنی صاحب کو صدر مانتا ہے۔ طالبان کی حکومت اگر قائم ہو جاتی ہے تو اس کا بہت کم امکان ہے کہ وہ گلبدین صاحب کو گوارا کریں گے۔ ان کی باقی عمر محسوس یہ ہوتا ہے کہ افغانستان سے باہر ہی کہیں گزرے گی یا پھر وہ طالبان کی بالادستی کو قبول کرتے ہوئے 'صاغرون‘ میں شامل ہوکر کسی گوشۂ گمنامی میں بیٹھے رہیں۔ اس میں 'اسلامی انقلاب‘ کے علمبرداروں کے لیے کون سی خوشی پوشیدہ ہے، میں نہیں جان سکا۔
تیسرا گروہ وہ ہے جس کا خیال ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کا مطلب پاکستان دوست حکومت کا قیام ہے۔ ان کو یہ گمان بھی ہے کہ طالبان وہی کچھ کریں گے جو وہ ان سے کہیں گے۔ یہ بھی ایک غلط فہمی ہے۔ طالبان یقیناً پاکستان مخالف نہیں ہوں گے لیکن اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اپنی ترجیحات پاکستان کے مفادات کو سامنے رکھ کر طے کریں گے۔ طالبان کو یہ بات اُس وقت بھی گوارا نہیں تھی جب وہ پاکستان کے رحم و کرم پر تھے۔ طالبان کی پہلی حکومت کے دوران میں پاکستان نے کوشش کی کہ طالبان ڈیورنڈ لائن کو باقاعدہ سرحد مان لیں۔ طالبان اس پر آمادہ نہیں ہوئے۔ اس لیے اس بار بھی اس کا کوئی امکان نہیں کہ وہ کسی کی ڈکٹیشن لیں گے۔ طالبان کے اقتدار میں بعض اور خدشات بھی چھپے ہوئے ہیں۔ اللہ نہ کرے وہ کبھی واقعہ بنیں۔
یہ تینوں گروہ اپنی اپنی ناآسودہ خواہشوں کو طالبان کی کامیابی میں متشکل دیکھنا چاہ رہے ہیں۔ ان کے سب تجزیے اسی چاہت کے زیرِاثر ہیں۔ اگر کوئی گروہ، کسی حد تک اس کامیابی کو 'اپنی کامیابی‘ قرار دے سکتا تو وہ دیوبندی طبقہ ہے۔ طالبان فرزندانِ دیوبند کی تحریک ہے۔ دیوبند کی سیاسی تحریک پورے برصغیر پر اپنے اثرات رکھتی ہے۔ اس کی کامیابی کی ایک وجہ یہ ہے یہ تحریک سیاست کو مذہب سے الگ رکھتی ہے۔ یہ اس بات کو مانتی ہے کہ سیاسی اعتبار سے قومیں اوطان سے بھی بنتی ہیں۔ اس لیے افغان طالبان مذہبی حوالے سے، پاکستان یا بھارت کے اہلِ دیوبند سے متفق ہو سکتے ہیں لیکن یہ لازم نہیں کہ خود کوسیاسی طور پر بھی ان کے ساتھ ایک اکائی سمجھیں۔
طالبان کی حکومت اگر قائم ہوتی ہے تو عالمی سیاسی نظم کے ساتھ موافقت پیدا کرکے ہی ہوگی۔ حالیہ دنوں میں اگر انہیں کسی بڑی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ، چین اور روس سمیت سب اہم ممالک نے انہیں قبول کر لیا ہے اور طالبان نے بھی ان قوتوں کو یقین دلا دیاکہ وہ موجود عالمی سیاسی نظام کیلئے کوئی خطرہ نہیں بنیں گے۔ جس دن اس طرح کا کوئی خدشہ پیدا ہوا، صورتحال تبدیل ہو جائے گی، جیسے9/11 کے بعد ہوا۔
جہاں تک افغانستان کے داخلی معاملات ہیں، دنیا اس پر متفق دکھائی دیتی ہے کہ ان کو حل کرنا کسی کے بس میں نہیں۔ اس لیے انہیں افغانوں پر چھوڑ دیا جائے۔ افغان تنازعات کو صرف ایک طریقے سے حل کرنے کے عادی ہیں۔ یہ طریقہ 'بندوق‘ ہے۔ بندوق کی نالی سے امن نہیں، گولی نکلتی ہے۔ گولی اور امن میں وہی رشتہ ہے جو آگ اور پانی میں ہے۔