سیاسی بیانیے کا جب ذکر ہو تا ہے تو اس کا انتساب نواز شریف صاحب کی طرف کیا جا تا ہے‘درآں حالیکہ وہ بیانیوں میں سے ایک بیانیہ ہے۔جو کچھ شہباز شریف صاحب فرماتے ہیں‘وہ بھی دراصل ایک بیانیہ ہے۔اگر نواز شریف صاحب کے بیانیے کو ایک 'دعویٰ‘(Thesis) مان لیا جائے تو شہباز شریف صاحب کا بیانیہ 'جوابِ دعویٰ‘ (Anti Thesis) ہے۔اس وقت سیاست میں دراصل یہی دو بیانیے پائے جاتے ہیں۔شہباز شریف صاحب کا بیانیہ وہی ہے جو اس وقت آصف زرداری صاحب‘عمران خان صاحب‘چوہدری پرویز الٰہی صاحب اور ایم کیو ایم والوں کا بیانیہ ہے۔ دوسری طرف مریم نواز‘مولانا فضل الرحمن اورقوم پرستوں(اے این پی کے استثنا کے ساتھ) کا بیانیہ وہ ہے جو نوازشریف صاحب سے منسوب ہے۔ میڈیا کے تجزیوں میں شہباز شریف صاحب کے بیانیات کو متفرق 'اقوالِ زریں‘ کے طور پر لیا جاتا ہے۔میرا خیال ہے کہ اسے 'بیانیہ‘ سمجھ کراس کا تجزیہ کرنا چاہیے۔اسی سے عصر ی سیاست کی درست تفہیم ہو گی۔
یہ بیانیہ کیا ہے؟''اقتدار کی سیاست(Power Politics) زمینی حقائق کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے۔زمینی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اقتدار اور قوت کا ایک متعین اور معلوم مرکز ہے۔حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ اس مرکزکی بالادستی کو قبول کرتے ہوئے‘اُس کے ساتھ شراکتِ اقتدار کے ایک فارمولے پر اتفاق پیداکیا جائے اور اہلِ سیاست ایک کم تر حیثیت پر اکتفا کر لیں۔ ملک میں جاری سیاسی عمل‘ جس میں انتخابات اور احتساب‘ سب شامل ہیں‘ دراصل اسی حقیقت کے تابع ہیں۔ اگر آپ اس کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کر لیں تو انتخابی جیت آپ کے نام ہو سکتی ہے اورآپ کو ریاستی اداروں کی طرف سے نیک چلنی کا سرٹیفکیٹ بھی مل سکتا ہے‘قطع نظراس بات کے کہ آپ کے نامہ اعمال میں کیا لکھا ہے؟ بصورتِ دیگر انتخابی شکست اور احتساب کے لیے تیار ہو جائیں۔پھر آپ کواپنے باپ دادا کے اثاثوں کاحساب دینا ہو گا۔کردہ کے ساتھ ناکردہ گناہ میڈیا میں زیرِ بحث آئیں گے۔آپ کی پگڑی اچھلے گی‘لوگ آوازے کسیں گے اور زمین آپ پر تنگ کردی جائے گی۔پھر آپ کو جیل جانا ہو گا اور کیامعلوم کہ زندگی‘اس قید میں آپ کا ساتھ دینے پر آمادہ ہوتی ہے یا نہیں۔ ہم سیاست دان ہیں‘ مصلح نہیں جو اس راستے کا انتخاب کریں۔اس لیے ہمارے لیے ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے پہلا راستہ۔جب ہم اس پر چلے تو ہمارے سرمایے میں اضافہ ہوا ور ہمارا اقتدار محفوظ رہا۔اگرہم اسی پرچلتے رہتے تو نوازشریف چوتھی بار ملک کے وزیر اعظم ہو تے‘‘۔
یہ ہے شہباز شریف صاحب کے بیانیے کا خلاصہ۔ اعجاز شاہ صاحب‘ جب ملک کے وزیر داخلہ تھے توانہوں نے بھی بتا دیا تھا کہ نوازشریف آج بھی ملک کے وزیراعظم ہوتے اگر وہ اس بیانیے کو قبول کر لیتے۔پاکستان کی پوری تاریخ اسی کی تائید کر رہی ہے۔اوائل میں‘ خود( ن) لیگ کو اقتدار اسی طرح ملا۔عمران خان صاحب نے جب اس فارمولے کو قبول کر لیا تو اس کے بعد وزارتِ عظمیٰ اور ان کے مابین کوئی رکاوٹ باقی نہ رہی۔انہیں صادق و امین کا سرٹیفکیٹ ملا اور انتخابی نتائج بھی ان کے حق میں نکلے۔ شہباز شریف صاحب کا کہنا یہ ہے کہ ہم نے اس بیانیے سے انحراف کر کے‘ گویا اقتدار طشتری میں رکھ کر عمران خان کو پیش کردیا۔
ان کا خیال ہے کہ ہم اگرآج بھی رجوع کر لیں تواقتدار کی دیوی ہم پر مہربان ہو سکتی ہے۔کرپشن کے داغ دھل سکتے ہیں۔انتخابات جیتے جا سکتے ہیں۔وہ پنجابی محاورے کے مطابق امید سے ہیں کہ بکھرے بیروں کو پھر سے سمیٹا جا سکتا ہے۔اسی کو وہ قومی اتفاق رائے کا نام دیتے ہیں۔اسی کا ایک اور نام 'قومی مفاہمت‘ ہے یعنی شراکتِ اقتدار کے فارمولے پر اتفاق۔ اس بیانیے میں پاکستانی سیاست کی بنیادی حقیقت کو بدلنا مطلوب نہیں۔عوام کو اقتدار کا سرچشمہ بنانا بھی پیشِ نظر نہیں۔ووٹ کی عزت ایک بے معنی بات ہے۔اصل ہدف اقتدار ہے۔اقتدار مل جائے تو عوام کی خدمت کی جا سکتی ہے۔دیے گئے اختیارات میں رہتے ہوئے سڑکیں گلیاں بنائی جا سکتی ہیں۔اس سے کوئی نہیں روکتا۔جب عوام کی خدمت کا راستہ موجود ہے تو پھر روحانی آسودگی کا اہتمام بھی ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے فرائض 'دیانت داری‘ سے ادا کر رہے ہیں۔ اس بیانیے کے مطابق‘ بنیادی سیاسی حقائق کو تبدیل کرنا‘سیاست دانوں کا نہیں‘مصلحین یا لیڈروں کا کام ہے۔سیاست اپنے عہد میں جینے کا نام ہے۔تاریخ میں جینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔جو تاریخ میں جینے کا شوق رکھتاہے‘اسے چاہیے کہ اصلاحی کالم لکھے‘کتاب لکھے‘کسی یونیورسٹی کالج میں جا ڈیرے ڈالے‘اگر کوئی اس کی اجازت دے۔ سیاست دانوں کو سیاسی حقائق کے ساتھ جینا ہے۔یہی ان کا وظیفہ ہے۔کیا یہ بیانیہ درست ہے؟اس کا ایک جواب مولانا مودودی نے دیا تھا۔ایوب خان نے ایک بار انہیں متوجہ کیا کہ سیاست ایک گندا کھیل ہے۔آپ ایک نیک آدمی ہیں۔ آپ کو اس سے دور رہنا چاہیے۔ مولانا نے جواب دیا: کیا آپ کے خیال میں اس کھیل کو ہمیشہ گندا ہی رہنا چاہیے؟معلوم ہو تا ہے کہ ایوب خان کا بیانیہ بھی وہی تھا جو شہباز شریف اور دوسرے سیاستدانوں کا ہے۔ سیاستدان آج بھی اسے تبدیل کیے بغیر اقتدار میں شرکت چاہتے ہیں‘ چاہے کم تر حیثیت ہی میں کیوں نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ آج بھی اس کے نتائج وہی نکلیں گے جو کل نکلے تھے۔
یہ محض اتفاق ہے کہ سیاست کے دوسرے پہلو کی شرح بھی جماعت اسلامی ہی کے ایک فکری رہنما نے کر رکھی ہے۔خرم مرادمرحوم نے‘ جو جماعت ا سلامی کے نائب امیر تھے‘اس بات کو جان لیا تھا کہ اصلاح اور سیاست ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے کارکنوں کو پہلی باریہ باور کرایا کہ انتخابات جیتنے کیلئے لڑے جاتے ہیں‘ توسیعِ دعوت کیلئے نہیں۔جماعت اسلامی اس باب میں اس لیے ایک معتبر حوالہ ہے کہ اس نے سیاسی جماعت اور اصلاح پسند (Reformist) جماعت کے خواص کو جمع کر نے کی کوشش کی جو کامیاب نہ ہو سکی۔جماعت اسلامی‘جب بھی انتخابات میں حصہ لیتی ناکام رہتی۔جماعت کے لوگ ووٹ شمار کرنے کے بجائے‘انتخابات کو اس نظر سے دیکھتے تھے کہ اپنی انتخابی مہم میں‘ہم نے کتنے لوگوں تک اپنی دعوت پہنچائی اور اس طرح اپنی حسنِ کارکردگی پر شاد رہتے تھے۔ خرم صاحب نے انہیں سمجھایا کہ انتخابی کارکردگی کا پیمانہ ووٹوں اورنشستوں کی تعداد ہوتی ہے۔جماعت اسلامی اس مخمصے میں اصلاح پسند جماعت بن سکی نہ سیاسی جماعت۔
سوال یہ ہے کہ (ن )لیگ ایک اصلاح پسند جماعت ہے یا ایک سیاسی جماعت؟اگروہ اقتدار کے کھیل کی ایک کھلاڑی ہے تو اسے سیاسی جماعت ہی سمجھناچاہیے۔ سیاسی جماعت کے پیشِ نظر واحد سوال یہ ہوتا ہے کہ اقتدار تک کیسے پہنچا جائے۔آج 'اقتدار‘ سے مراد شراکتِ اقتدار اور ایک کم تر حیثیت پر اکتفا ہے۔شہبازشریف صاحب معاصر اہلِ سیاست کی طرح اسی اقتدار تک پہنچنا چاہتے ہیں۔آزادکشمیر کے انتخابی نتائج پر نوازشریف صاحب کا تبصرہ یہ تھا کہ یہ چند نشستوں کا معاملہ نہیں‘ووٹ کے تقدس کا سوال ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اصلاح کے ایجنڈے پر ہیں۔
ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ (ن) لیگ اگر شہباز شریف صاحب کے بیانیے کو قبول کر لے تو کیا اسے اقتدار میں شریک کر لیا جائے گا؟ میرے نزدیک اس کا بھی کوئی امکان نہیں۔ میں اس کے دلائل چند کالموں میں بیان کر چکا۔ اگر اس طرح بھی اقتدار نہیں ملنا تو کیا (ن) لیگ کے پاس نواز شریف کے بیانیے کے علاوہ بھی کوئی راستہ موجود ہے؟ اس کا جواب شہباز شریف صاحب ہی دے سکتے ہیں۔