حیرت‘اطمینان اور خدشات کے جلومیں ‘طالبان ایک بار پھر کابل میں داخل ہو گئے۔
حیرت اس بات کی کہ طالبان کو کسی قدم پر قابلِ ذکر مزاحمت کا سامنا نہیں کر نا پڑا۔کہنے کو فوج بھی تھی اور پولیس بھی لیکن فوج مزاحم ہوئی نہ پولیس۔ طالبان کی آمد اتنی اچانک نہ تھی کہ حکومت کو علم نہ ہوسکا۔علم کے باجود مزاحمت ہوئی نہ اشرف غنی صاحب نے حکومت چھوڑنے کا اعلان ہی کیا۔ جب طالبان صدارتی محل میں داخل ہوئے تو وہ وہیں تھے۔اگر مزاحمت نہیں کر نی تھی تو آخری وقت تک وہاں ٹھہرنے کا سبب کیا تھا؟ میرے لیے تو یہ جہانِ حیرت ہے۔ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں اس کا پردہ چاک ہو اور حقیقت بے نقاب ہوجائے۔
اطمینان اس بات کا ہے کہ کسی بڑی خون ریزی کے بغیر‘انتقالِ اقتدار ہو گیا۔اس میں کیا شبہ ہے کہ طالبان بندق کے زور پر فاتح ٹھہرے لیکن مزاحمت نہ ہونے سے انسانی جانیں بچ گئیں۔مزاحمت کا حکومت کو کچھ فائدہ نہ ہوتا لیکن لوگ مرتے۔اللہ کا شکر ہے کہ کوئی مقتل آباد نہ ہوا۔اس سے پہلے جب بھی اقتدار ایک فریق سے دوسرے فریق کو منتقل ہوا‘ان گنت افغان اس کی بھینٹ چڑھ گئے۔
خدشات بہت سے ہیں۔ایک یہ کہ اس بار طالبان کی حکومت کیسی ہو گی؟ طالبان ایک بار پہلے حکمران رہ چکے۔ان کے فہمِ دین‘تصورِ تہذیب اور اسلوب ِ حکمرانی کے مظاہر دنیا نے دیکھے۔ان کا سیاسی نظم‘کلچر و تہذیب کے بارے میں خیالات اور حکومت کا انداز‘ دورِ جدید کے نظامِ ریاست سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔مثال کے طور پر ان کے فہمِ دین کے مطابق‘موسیقی اور مصوری جیسے فنونِ لطیفہ کے لیے اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔وہ بنیادی حقوق کے جدید تصور کو قبول نہیں کرتے اور ریاست کو یہ حق دیتے ہیں کہ وہ شہریوں کے لباس اور حلیے تک کا تعین کرے۔اسی طرح ان کے تصورِ سیاست میں جمہوریت کا کوئی گزر نہیں۔
ایک رائے یہ ہے کہ نئے طالبان پرانے طالبان سے مختلف ہیں۔یہ بات ابھی ثابت ہونی ہے۔اس وقت تک یہ خدشہ باقی ہے کہ ان کے خیالات میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آئی۔اس میں شبہ نہیں کہ ان کا سیاسی شعور بہتر ہوا ہے اور انہوں نے امکانات کا درست استعمال سیکھ لیا ہے۔یہ لیکن فراست کی علامت ہے ‘خیالات میں تبدیلی کی نہیں۔ اگر یہ خدشہ درست ثابت ہوا کہ قدیم اور جدید طالبان ایک جیسے ہیں تو پھر یہ بات افغان معاشرے کے لیے باعثِ اضطراب ہوگی۔
دوسرا خدشہ نئے سیاسی نظام کے بارے میں ہے۔طالبان اگر چہ بندوق کے زور پر اقتدار میں آئے ہیں لیکن انہیں سوچنا ہوگا کہ اہلِ اقتدار کی تبدیلی کا پُرامن طریقہ کیا ہو سکتاہے۔کل اگر کوئی طالبان سے اختلاف کرنا چاہے تو اس کے پاس کیا راستہ ہے؟وہ بندوق اٹھائے یا رائے عامہ کو تبدیل کرے؟ طالبان نے اگر ملک کو جمہوریت کی راہ پر نہ ڈالا تو کل ان کے خلاف بھی مسلح گروہ منظم ہو سکتے ہیں۔اس لیے انہیں ابتدا ہی میں اختلاف اورپُر امن انتقالِ اقتدار کا کوئی راستہ تجویز کرنا ہوگا۔
ایک خدشہ وہ ہے جو پاکستان کے حوالے سے ہے۔پاکستان میں جو لوگ طالبان کے حامی ہیں ‘وہ جمہوریت کو مسترد کرتے ہیں اور قومی ریاست کو بھی۔وہ طالبان کے نظام کو مثالی سمجھتے ہیں اور ان کے اسلوبِ سیاست کوبھی۔ان کے نزدیک بزعمِ خویش صالحین کا کوئی گروہ یہ حق رکھتا ہے کہ وہ بندق کے زور پر برسرِ اقتدار آجائے۔وہ افغانستان اور پاکستان کے مابین سرحد کو بھی دل سے تسلیم نہیں کرتا۔ اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ وہ اپنے اس تصور کو پاکستان پر نافذ کرنے کی کوشش کریں اور طالبان کا تجربہ ان کی مہم جوئی کے لیے مہمیز ثابت ہو۔
یہ گروہ میڈیا میں کئی برسوں سے سر گرم ہے۔وہی میڈیا جسے وہ دجالی کہتا ہے۔اسی کے ذریعے یہ لوگ اپنے ان خیالات کا ابلاغ کرتے ہیں کہ جمہوریت ایک غیر اسلامی تصوراور طاغوتی ہتھکنڈا ہے۔اسی طرح یہ گروہ عالمگیر نظامِ خلافت کے قیام کا داعی ہے‘اگرچہ طالبان نے اس کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔اس کاامکان ہے کہ اس سوچ کو علمی جامہ پہنانے کے لیے کوئی عوامی تحریک اٹھ کھڑی ہو۔اس سے پہلے ٹی ٹی پی بھی اسی نعرے کے ساتھ اٹھی تھی۔پاکستان میں ایسی کسی تحریک کی کامیابی کا امکان کم ہے لیکن اس سے ایک فساد تو برپاہو سکتا ہے۔
یہ دلیل زیادہ وزن نہیں رکھتی کہ پاکستان اور افغانستان کے حالات مختلف ہیں۔جو لوگ طالبان کا مقدمہ مذہبی بنیادوں پر پیش کرتے ہیں‘ وہ دونوں میں فرق نہیں کرتے۔مولانا فضل الرحمٰن جب طویل عرصے بعد‘ سابقہ فاٹا کے علاقے میں گئے تو انہوں نے طالبان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا اور پختون قوم پرستوں کی شدید مذمت کی۔یہ خدشہ بے بنیاد نہیں کہ اس علاقے میں ایک نیا خلفشار جنم لے جس میں ایک طرف طالبان کی حمایت یافتہ لوگ ہوں جو مذہبی بنیادوں پر منظم ہوں اور دوسری طرف قوم پرست ہوں۔
خدشات کا تذکرہ اس لیے کیا جاتا ہے کہ انہیں واقعہ بننے سے روکا جا سکے۔ افغانستان کے داخلی حالات کے بارے میں ہمیں تشویش ہے لیکن یہ حق بہرحال افغانوں کا ہے کہ وہ اپنے لیے کون سا نظام پسند کرتے ہیں۔اگر ان کے لیے طالبان کا فہمِ اسلام‘تصورِ تہذیب اوراسلوبِ حکمرانی قابلِ قبول ہے تو ہمیں اعتراض کا کوئی حق نہیں۔ ایک خیر خواہ ‘پڑوسی ا ور بھائی ہوتے ہوئے‘ ہم انہیں مشورہ دے سکتے ہیں لیکن ان پر اپنی رائے بالجبر مسلط نہیں کر سکتے اور نہ اس کی کوشش ہی کی جانی چاہیے۔ تاہم‘ اس کی کوشش ضرور کرنی چاہیے کہ انتقالِ اقتدار بندوق کے زور پر نہیں‘ووٹ کی قوت سے ہو۔یہاں پر حقیقی جمہوریت آئے اور کسی گروہ کا حقِ اقتدار عوام کی تائید سے ثابت ہو۔یہی اسلام کی تعلیم کا حاصل ہے اور یہی انسانی کی اجتماعی بصیرت کا نچوڑ بھی ہے۔اسلام نے ہمیں مشاورت کے ساتھ سیاسی و اجتماعی فیصلے کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس پر پاکستان کے علما کا اتفاق ہے اور انہوں کی تائید کے ساتھ ہمارا آئین بنا ہے جوپارلیمانی جمہوریت ہی کو اقتدار کی تبدیلی کاواحد آئینی راستہ قرار دیتا ہے۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت بالفعل قائم ہو چکی۔اس کے اخلاقی جواز اور عدم جواز کی بحث اپنی عملی افادیت کھو چکی۔کچھ لوگ اسے آج مان لیں گے اور کچھ کل۔ زندگی زمینی حقائق کے تابع رہتی ہے۔اس معاملے میں بھی یہی ہو گا؛تاہم سماج کے اہلِ علم و دانش کی یہ ذمہ داری ہے کہ و ہ درست اور غلط کے معاملے کو زمینی حقائق کے تابع نہ ہونے دیں۔وہ لوگوں کو بتاتے رہیں کہ غلط کیا ہے ا ورصحیح کیا۔اگر کوئی بندوق کے زور پر کہیں غلبہ حاصل کر لے تو یہ کامیابی اس کی دلیل نہیں بن سکتی کہ بندوق کی مدد سے اقتدار پر قبضہ کرناجائز ہے۔2013 ء میں امریکہ طاقت کے زور پر عراق پر حملہ آور ہوا ور صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔صدام کی حکومت بالفعل ختم ہو گئی لیکن اس سے امریکہ کا اقدام جائز نہیں ہو گیا۔جو لوگ آج طالبان کی کامیابی کو ان کے موقف کی صداقت کے لیے بطور دلیل پیش کر رہے ہیں‘انہیں سوچناچاہیے کہ ان کے نزدیک غلط صحیح کا معیارکیا ہے؟دنیاوی کامیابی یا کوئی اخلاقی اصول اور ضابطہ؟
طالبان کے عزم کے ساتھ ‘اشرف غنی صاحب کا فرار اور برسرِ اقتدار گروہ کا طرزِ عمل بھی تاریخ کا حصہ بن گیا۔اس گروہ نے افغانوں کے بارے میں موجود تاریخی تاثر کے سامنے سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔