بحیثیت ایک عالمی طاقت‘کیا امریکہ ناکام ہو گیا؟
1989ء میں سوویت یونین ایک حرفِ غلط کی طرح دنیا کے نقشے سے مٹ گیا۔بیالیس سال سے امریکہ بلاشرکتِ غیرے عالمی قوت ہے۔ اس دوران میں دنیا غیر معمولی تبدیلیوں سے گزری۔بالخصوص مشرقِ وسطیٰ اورجنوبی ایشیا انقلابات کی زد میں رہے۔آخری بڑی تبدیلی‘کابل پر طالبان کا قبضہ ہے۔ان سب واقعات سے ایک نئی دنیا وجود میں آئی۔اس دنیا میں خوشی کم اورغم زیادہ تھا۔سوال یہ ہے کہ اس نئے عالم کو وجود میں لانے کے لیے امریکہ کا کردارکیا رہا؟ مثبت یا منفی؟
قدرت نے امریکہ کو یہ موقع دیا تھا کہ وہ ایک ایسی عالمی نظم تشکیل دے جس کا مطمح نظر امن کا قیام ہو۔انسانی حقوق کا احترام ہو۔احترامِ ِانسانیت ایک قدر کے طور پر مستحکم ہو اور جمہوری روایات کو فروغ ملے۔ظالم کو یہ خوف ہو کہ اس کاا ٹھا ہوا ہاتھ تن سے جدا بھی ہو سکتا ہے۔کمزور اقوام کو حقِ خود ارادی ملے۔دنیا سے افلاس کا خاتمہ ہو۔تعلیم عام ہو اور کوئی دوا کی عدم دستیابی کے باعث موت سے ہم کنار نہ ہو۔امریکہ اپنا اثر ورسوخ استعمال کرکے یہ سب کچھ کر سکتا تھا۔سو فی صد نہ سہی‘اگر ایسی کوشش پچاس فیصد بھی کامیاب ہو جا تی تو دنیااس طرح دکھوں کا گھر نہ ہوتی جیسی آج ہے۔افسوس کہ امریکہ ایسا نہیں کر سکا۔آج دنیا فساد سے بھر چکی۔تاریخ کی ہر عالمی قوت کی طرح امریکہ نے بھی اپنی عالمی حیثیت کو بر قرار رکھنا تھا۔یہ بات قابلِ فہم ہے کہ فرد ہو یا ملک‘کوئی بھی میسر قوت کو کھونا نہیں چاہتا۔ اس قوت کو باقی رکھنے کے دوممکنہ طریقے تھے۔ایک یہ کہ اپنی قوت کو خیر کے فروغ میں لگا دیا جا ئے۔دوسرا یہ کہ بدی کو پھیلایا جائے یہاں تک کہ لوگوں کی زندگی اجیرن ہو جائے اور وہ مدد کے لیے آپ کو پکاریں۔
امریکہ کو اگر مشرقِ وسطیٰ میں اپنے اثرات کو پھیلاناتھا تو اس کا ایک طریقہ یہ تھا کہ وہاں موجود تنازعات کو انصاف کی بنیاد پر حل کرنے میں معاون بنتا۔یہ کوئی ایسا مشکل کام نہیں تھا۔امریکہ نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔سوال یہ ہے کہ اس کا حاصل کیا ہوا؟ اسرائیل کی ناجائز حمایت سے امریکی مفادات کو فائدہ پہنچا یانقصان؟سب کہیں گے کہ نقصان پہنچا۔ اگروہ مسئلہ فلسطین کو میرٹ پر حل کرنے میں معاون بنتا تو آج مشرقِ وسطیٰ میں امریکی حمایت اس کی مداخلت سے کہیں زیادہ ہوتی۔ اس کے مفادات پہلے کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہوتے۔
گزشتہ چالیس سال میں‘امریکہ کو مشرقِ وسطیٰ میں کسی بڑے خطرے کا سامنا نہیں تھا۔1960ء اور 70ء کی دہائی کی سیاست ختم ہو گئی تھی۔عراق اور شام میں امریکہ مخالف حکوتیں تھی لیکن ان سے معاملہ کیا جا سکتا تھا۔ اسی طرح ایران کے ساتھ بھی۔اس کے برخلاف‘امریکہ نے طاقت سے مسئلہ حل کرنا چاہا۔ایرانی انقلاب کے بعد‘عقلِ عام کا تقاضا بھی یہی تھا کہ اس تبدیلی کو قبول کر لیا جاتا۔امریکہ یہ موقف اپناتا کہ یہ ایرانی عوام کا فیصلہ ہے اورہم اس کا احترام کرتے ہیں۔کچھ لازم نہیں تھا کہ وہاں 'مرگ بر امریکہ‘ کے نعرے بلند ہوتے۔امریکہ نے مگرناجائز طور پر ایرانی اثاثوں کو ضبط کیا اور ایک ملک میں اپنے لیے ناپسندیدگی کی فصل کاایسا بیج بویا جو اب خود رو پودے کی طرح اُگتی رہتی ہے۔
افغانستان میں کیا ہوا؟امریکہ کے پاس ایک راستہ تھا کہ افغان نوجوانوں کو تعلیم سے آراستہ کرتا۔اس ملک میں صنعتوں اور دیگر معاشی اداروں کو مستحکم کرتا تاکہ یہ ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے۔ امریکہ چاہتا تو ایک نئی مڈل کلاس پیدا کر سکتا تھا جو سیاسی‘سماجی اور معاشی تشکیلِ نو میں اپنا کردار ادا کرتی۔جدید معیشت کے استحکام میں‘دنیا کے ہر ملک میں یہ کلاس ریڑھ کی ہڈی کا کردارادا کررہی ہے۔ ایک ٹرلین ڈالر کا اگر بیس فیصد افغان قوم کی تعمیر پر خرچ کیا جاتا تو وہاں طالبان کے لیے آج کوئی جگہ نہ ہو تی۔
امریکہ نے اس مثبت راستے کے بجائے‘ایک منفی طریقہ اپنا۔سیاست دانوں کواپنے ساتھ ملانے کے لیے انہیں رشوت دی۔ ہتھیار دیے۔ افغانستان کو تعلیم اورعلم کا مرکز بنانے کے بجائے‘اسلحہ خانہ بنا دیا۔آج اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے حمایت یافتہ اخلاقی قوت سے ایسے تہی دامن ہوئے کہ انہوں نے افغانوں کی تاریخ میں بزدلی کا ایک نیا باب رقم کر ڈالا۔امریکہ کے ہاتھ کیا آیا؟ندامت اور ہزیمت۔
ان بیا لیس برسوں میں امریکہ کو یہ موقع ملا تھا کہ وہ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتا۔اس نے مگر جسموں پر حکومت کو ترجیح دی۔اس کے دونتیجے نکلے۔ایک تو یہ کہ اس وقت امریکہ سے نفرت پر مبنی ایک عالمگیر تحریک مو جود ہے۔دنیا میں اسرئیل کے علاوہ کوئی ایک ملک ایسا نہیں جو دل سے امریکہ کی عزت کرتا ہو۔اگر بھارت میں بھی کوئی سروے کرایا جائے توعوام کی اکثریت امریکہ مخالف ہوگی۔
انسانی تاریخ میں طاقت کا رویہ بالعموم وہی رہا ہے‘امریکہ نے جس کا مظاہرہ کیا لیکن ان کا انجام بھی ایک جیسا ہوا ہے۔اس کے برخلاف جنہوں نے لوگوں کے دلوں پر حکومت کی‘لوگ ان کا نام آج بھی عزت سے لیتے ہیں۔سیدنا عمرؓ کے دور میں مسلمانوں کی فتوحات تاریخ کا معلوم واقعہ ہے۔اہلِ اسلام نے انصاف کا علم لہرایا اور لوگوں کے دل مفتوح ہوتے گئے۔بعد میں‘مسلمانوں ہی میں سے تھے جنہوں نے ظلم کو روارکھا‘تاریخ آج انہیں ایک دوسرے عنوان سے یاد کرتی ہے۔
امریکہ کو دنیا میں بارہا ہزیمت اٹھانا پڑی۔امریکی اداروں نے ہمیشہ اپنی ناکامیوں کا تجزیہ کیا ہے۔میرے علم میں نہیں کہ کبھی ناکامی کے اخلاقی اسباب بھی زیرِ بحث آئے ہوں۔ویت نام کی شکست پر بہت کچھ لکھا گیا۔9/11 کے بعد بھی ایک تحقیقاتی کمیشن بناجس میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹ اراکینِ سینیٹ شامل تھے۔اسباب کی تلاش میں ابن تیمیہ اور سید قطب تک‘سب کو کھنگال ڈالا۔کمیشن کی رپورٹ میں مگر امریکی پالیسی کے اخلاقی پہلو کہیں زیرِ بحث نہ آئے۔
کیا افغانستا ن میں ہزیمت اٹھانے کے بعد امریکہ میں اس ناکامی کے اخلاقی پہلو پر بات ہوگی؟اس کا کوئی امکان نہیں۔انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ انفرادی اوراجتماعی ناکامیوں کے اسباب اس مادی دنیا میں تلاش کر تا ہے۔اس میں شبہ نہیں کہ اکثراسباب مادی ہوتے ہیں مگر تمام نہیں۔مادی دنیا میں توجہ مرتکز کرنے کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ وہ کامیابی کی حکمتِ عملی بھی اسی نقطہ نظر سے بناتا ہے‘جیسے امریکی پالیسی ساز بناتے ہیں۔اس اندازِ نظر کے حاملین اگر اخلاقی پہلو پیشِ نظر رکھیں تو کامیابی اس صورت میں بھی مل سکتی ہے۔
امریکی ناکامی کو سمجھنے کی یہ کوشش ایک شخصی واردات ہے۔اس کا مخاطب امریکی نہیں ہیں۔مجھے کوئی خوش فہمی نہیں کہ وہ منہ نہار اس کالم کو پڑھ کر اپنی پالیسی بناتے ہیں۔ یہ کالم تو ایک خود کلامی ہے۔یا پھر وہ لوگ اس کے مخاطب ہیں جو اردو پڑھتے ہیں۔عالمی واقعات کو عبرت کی نظر سے دیکھنا اس لیے ضرورت ہے کہ اس نظامِ دنیا کو سمجھا جائے۔ ہمیں معلوم ہو سکے کہ قوموں کے عروج وزوال میں کیااصول کارفرماہیں۔ان کا اطلاق سب پر یکساں ہوتا ہے۔جو اپنے دائرے میں اخلاقی اصولوں کو نظر انداز کرے گا‘ایک طرح کے نتائج کا سامنا کرے گا۔کل سوویت یونین کو موقع ملا تھا۔اس سے پہلے برطانیہ کو۔آج امریکہ عالمی قوت ہے۔سب زوال کے راستے پرہیں۔کاش امریکہ کے اربابِ حل وعقد سوچ سکیں کہ انہوں نے بیالیس سالوں میں کیا کھویا‘کیا پایا۔معلوم نہیں یہ مہلتِ عمل کب تک ہے۔ اپنے دائرہ عمل میں ہمیں بھی چوہتر سال مل چکے۔سوال یہ ہے کہ ہمارے فیصلوں میں اخلاقیات کا لحاظ کتنا ہے؟