سیاست شفاف آبِ رواں سے متعفن جوہڑ میں بدل گئی۔ یہ اتنا بڑا المیہ ہے کہ اس پر جتنا ماتم کیا جائے،کم ہے۔ چند حقیر فائدوں کیلئے قوم کا اخلاقی وجود برباد کر دیا گیا۔
آغاز کرنے والے کی ذمہ داری، اس میں کیا شبہ ہے کہ سب سے زیادہ ہے مگر جو ردِعمل میں اس کا حصہ بنے، وہ بھی بری الذمہ نہیں۔ دشنام جب کلچر بن جائے تو یہ بات غیر اہم ہو جاتی ہے کہ پہلی گالی کس نے دی تھی۔ لوگ تو یہ دیکھتے ہیں کہ دریدہ دہنی کا مقابلہ ہے اور کوئی کسی سے کم نہیں۔ پگڑی اچھالنے سے جس کلچر کا آغاز ہوا تھا، وہ کپڑے اتارنے تک آ پہنچا ہے۔ اس کشمکش میں ہمارا اخلاقی وجود جس تیزی سے تحلیل ہورہا ہے، اس کا کسی کو احساس نہیں۔
مسابقت کسی میدان میں بھی ہو، اگر اخلاقی بندشوں سے آزاد ہو جائے تواس کا ناگزیر نتیجہ بربادی ہے۔ یہی سبب ہے کہ بحرِسیاست کے حقیقی شناور حدود کا خیال رکھتے ہیں۔ ایک غیر اعلانیہ معاہدہ کرلیا جاتا ہے کہ فلاں حد پارنہیں کی جائے گی۔ پھر سب اس کا لحاظ رکھتے ہیں۔ یوں مسابقت جاری رہتی ہے مگر معاشرہ زندہ رہتا ہے۔ یہ کاروبار میں بھی ہوتا ہے۔ تاجر اس کا اہتمام نہ کریں توکسی کی دکان باقی نہ رہے۔ گرمیٔ بازاراسی لیے ہے کہ سب کی دکان چل رہی ہے۔ اگرتاجر ایک دوسرے کو مٹانے کی ٹھان لیں تواور کچھ ہو نہ ہو، بازار ضرور بند ہو جائے گا۔
سیاست اپنی اساس میں کاروبار نہیں۔ یہ فی الحقیقت ایک خدمت ہے۔ چلیں، اسے ایک کتابی بات مان لیتے ہیں اور اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ اقتدارکے حصول کیلئے مقابلہ ہے۔ اس مقابلے کے جاری رہنے کیلئے بھی ضروری ہے کہ سیاست باقی رہے۔ سیاست کا میدان، میدانِ جنگ نہ بنے۔ اسی میں سب کا بھلا ہے۔ انسانوں کی کسی بستی میں، اگردوسروں کو بے لباس کرنے کا کلچر فروغ پائے گا تو برہنگی کلچر بن جائے گی۔ اس کا خیال ہراس آدمی کو ہونا چاہیے جودوسروں کے لباس کے درپے ہے۔ ہم سب انسان ہیں، فرشتے نہیں۔
ایک ہے قومی جرم۔ کسی نے ملک اورعوام کے ساتھ کوئی مالی یا کسی اور طرح کا دھوکہ کیا ہے اوراس کا کوئی ثبوت، آپ کے ہاتھ لگا ہے تواسے سامنے لایا جا سکتا مگراعلانیہ اور ذمہ داری قبول کرتے ہوئے۔ اس میں کوئی بات قابلِ اعتراض نہیں۔ ایک ہے کسی کی نجی زندگی۔ اس کی بے پردگی مذہباً اور اخلاقاً جرم ہے۔ اس کا کلچر بن جانا، کسی المیے سے کم نہیں۔ سوشل میڈیا کی صورت میں اب ایک ہتھیار لوگوں کومل گیا ہے۔ اس کے ذریعے دوسروں کو برہنہ کیا جارہا ہے۔ یہ سوچے بغیرکہ ہمارے بچوں کی بھی اس تک رسائی ہے۔ وہ اس سے کیا سیکھیں گے اوراس کے سماجی نتائج کیا ہوں گے۔
کیسے کیسے صاف ستھرے لوگ ہمارے لیڈر تھے۔ قائداعظم اور مولانا ابولکلام آزاد جیسے سرکردہ ایک دوسرے کے سیاسی مدِمقابل تھے مگریہ مقابلہ شائستگی اوردلیل کا تھا۔ کچھ لوگوں نے اپنی گفتاراور حرکتوں سے سیاست کو مبتذل بنانا چاہا۔ سماج نے انہیں اگل دیا۔ سیاست کی باگ ایسے اعلیٰ پائے کے لوگوں کے ہاتھ میں تھی جواسے شترِ بے مہار نہیں بننے دیتے تھے۔ ابوالکلام کو کانگریس کا شوبوائے کہا گیا توکلام پر پوری قدرت رکھتے ہوئے بھی اس کا جواب نہیں دیاکہ اس کا نتیجہ تلخی کے سواکچھ نہ تھا۔ اسی رویے نے شدید اختلاف کو دشمنی میں تبدیل نہیں ہونے دیا۔
آج مگر یہ صبر اور اعلیٰ ظرفی کہیں نہیں۔ دشنام اور پگڑی اچھالنے میں مہارت ترقیٔ درجات کا یقینی وسیلہ ہے۔ اس لیے اب مقابلے کا اصل میدان یہی ہے۔ میں نے ایک دفعہ ایک سیاسی راہنما کی توجہ دلائی کہ آپ بداخلاقی کا جواب نہ د یں اور خودکو مثبت تنقید تک محروم رکھیں۔ ان کا جواب تھا: ہم ایک سیاسی جماعت ہیں، اصلاحِ اخلاق کی تحریک نہیں۔ استدلال یہ تھاکہ اسی لہجے اور زبان میں جواب نہ دیا جائے تودوسرا سر چڑھ جاتا ہے۔ یہ بات کچھ ایسی خلافِ واقعہ نہ تھی لیکن اسی زبان میں جواب کا نتیجہ یہ نکلاکہ سب بے لباس ہو رہے ہیں۔
یہ صورتحال متقاضی ہے کہ ملک میں اخلاقی ایمرجنسی کا اعلان کردیا جائے۔ عمران خان صاحب وزیراعظم کی حیثیت سے اس پرایک کل جماعتی کانفرنس بلائیں اور سیاسی جماعتیں فوری طورپر ایک ضابطۂ اخلاق پراتفاق کرلیں۔ سائبر کرائم کے شعبے کومتحرک کیا جائے کہ لوگوں کی نجی زندگی سے متعلق کوئی بات سامنے نہ آئے۔ اگرآئے تومجرموں کا سراغ لگا کر انہیں عبرتناک سزا دی جائے۔ جو کچھ ملک کے باہر سے ہورہا ہے، اس کی بھی نشاندہی کی جائے۔ جس طرح ہم نے یہ سراغ لگایاکہ کون کون سی ویب سائٹس بھارت کے ایما پر کہاں کہاں سے متحرک ہیں، اسی طرح ان ذرائع کا بھی سراغ لایا جائے جو افراد، بالخصوص اہلِ سیاست کی کردار کشی میں ملوث ہیں۔ دوسرے مرحلے پر میڈیا کے لوگوں کو جمع کیا جائے اور ان سے بھی یہ عہد لیا جائے کہ وہ ان لوگوں کا بائیکاٹ کریں گے جو دشنام اور بدکلامی کی شہرت رکھتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کو سوچنا ہوگا کہ جو سیاسی راہنما خود بدکلامی کو فروغ دیتے ہوں، وہ کس منہ سے قوم کی اخلاقی حالت کو بہتر بنانے کی بات کرتے ہیں؟ ہم ایک طرف سیرت النبیﷺ جیسے مضمون کو نصاب کا حصہ بنارہے ہیں اور دوسری طرف اس سیاست کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جس کا شائستگی یا اخلاق سے دور کا واسطہ نہیں ہوتا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ عوام بھی سیاسی قیادتوں کو ان کے طرزِ عمل کی بنیاد پر نہیں پرکھتے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس وقت تمام بڑی سیاسی جماعتیں اس کلچر کو فروغ دینے میں برابر کی شریک ہیں۔
اگر اس موضوع پر اخلاقی ایمرجنسی کا نفاذ نہیں ہوتا اور کوئی کل جماعتی کانفرنس منعقد نہیں ہوتی توپھر کسی ایک سیاسی جماعت کوآگے بڑھ پر رضاکارانہ طور پر یہ اعلان کرنا ہو گاکہ اس کا کوئی راہنما دشنام سے کام لے گا‘ نہ جھوٹے الزامات لگائے گا۔ کسی کی نجی زندگی کوموضوع بنائے گا اورنہ ہی برائی کے فروغ میں حصہ دار بنے گا۔ اسی طرح کوئی ایک ٹی وی چینل کھڑا ہوجائے کہ وہ فلاں فلاں سیاستدان کو اپنے پروگراموں میں نہیں بلائے گا کہ وہ بدکلامی کی شہرت رکھتا ہے۔ دوسروں کا رویہ اب کسی کی بداخلاقی کیلئے عذر نہیں بننا چاہیے۔
ہم سیاسی مخالفت میں بہت آگے نکل آئے ہیں۔ ہم بدزبانی میں مقابلہ کرتے آئے ہیں۔ اب وعدہ کیا جائے کہ خوش کلامی میں مقابلہ کیا جائے گا۔ اب یہ تقابل نہیں ہوگا کہ کس کی لغت میں گالیوں کا ذخیرہ زیادہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کون زیادہ شائستہ ہے اورکس کی تنقید حقیقی مسائل کااحاطہ کرتی ہے۔ انتخابات جیسے جیسے قریب آتے جائیں گے، ویسے ویسے تلخی بڑھتی جائے گی۔ اگر ابھی سے اس رویے پرشعوری کوشش سے قابو نہ پایا گیا تو خطرہ ہے کہ یہ تلخی فضا کومزید مکدربنا دے گی۔
اقتدارکا دورانیہ زیادہ سے زیادہ پانچ سات سال ہے۔ سیاسی رویوں کے اثرات مگردیر تک باقی رہتے ہیں۔ جن لوگوں کو یہ ذرائع میسر ہیں کہ وہ لوگوں کی نجی زندگی میں جھانک سکتے ہیں، ان کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے کہ وہ بے حجابی کے کلچرکی روک تھام کریں۔ اس طرزِ عمل کا انجام بہت خطرناک ہوگا۔ پھر شاید ہی کوئی بچے جس کے بدن پر لنگوٹی بھی نظرآئے۔