12 اکتوبر کی تاریخ ایک عام دن کی طرح گزر گئی جیسے کسی کی کوئی یاد اِس دن سے وابستہ نہ تھی‘ جیسے یہ اس ملک کی تاریخ کا ایک عام سا دن تھا۔ 5 جولائی بھی ایسے ہی گزر جاتی ہے۔ جو قوم اجتماعی حادثات کے بارے میں اتنی زود فراموش ہو، زندگی کی ہر نکڑ پر حادثات اس کے انتظار میں کھڑے رہتے ہیں۔ کیا یہ کم حادثہ ہے کہ کوئی حادثہ دیکھ کر رکتا نہیں ہے؟
غالب نے کہا تھا:؎
آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
غزل کا مطلع بھی حسبِ حال ہے مگر یہ شعر تو بطورِ خاص۔ آج یار لوگوں نے ہنگامہ اٹھا رکھا ہے جیسے تاریخ کی زنبیل میں کوئی ان ہونی چھپی ہے جو اچانک باہر آئے گی اور دنیا حیرت میں ڈوب جائے گی۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے؟ نیا 12 اکتوبر؟ حیران ہونے کے دن گزر گئے۔ اب تو کچھ ہو جائے حیرت نہیں ہوتی۔ غالب سے منیر نیازی تک، کیا یہ ایک ہی داستان چلی آتی ہے؟؎
وہ بے حسی ہے مسلسل شکستِ دل سے منیر
کوئی بچھڑ کے چلا جائے، غم نہیں ہوتا
نہیں، درمیان میں ایک پڑاؤ بھی ہے۔ اس کا نام اقبال ہے۔ غالب کا عہدِ دورِ زوال ہے۔ اقتدار ہی نہیں ہماری تہذیب بھی طوفانِ بادوباراں میں گھری ہوئی تھی۔ صرف برصغیر ہی نہیں، یہ تہذیب اس سیارے کے ہر گوشے میں گویا آخری سانسیں لے رہی تھی۔ اقبال نے اس کا مرثیہ لکھا۔ اقبال کا معاملہ مگر غالب سے مختلف تھا۔ مرثیے کے سوز میں، سازِ حیات صاف سنائی دے رہا تھا:
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئینِ مسلم سے کوئی چارہ
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
اس احساسِ زیاں میں چھپا درد، ایک قوتِ عمل کو مہمیز دے رہا ہے۔ یہ اقبال ہی کا کمال ہے۔ یہ آوازِ رحیلِ کارواں تھی، کسی درماندہ رہرو کی صدائے کربناک ہرگز نہیں تھی۔ اس آواز کو سن کر قافلہ سوئے منزل چل نکلا اور پھر پاکستان بن گیا۔ یہ درست ہے کہ تاریخ کسی رائے اور موقف کے غلط یا صحیح ہونے کا فیصلہ کرتی ہے مگر آدمی کو تو لمحہ موجود میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اس وقت تاریخ کا صرف یہ پہلو میرے پیشِ نظر ہے کہ جس منزل کا انتخاب کیا گیاتھا، قافلے نے اسے پا لیا۔ ہر کامیابی مایوسی کے خاتمے کا اعلان ہوتا ہے۔
اس کے بعد مگر کچھ ایسا ہوا کہ دریا پر سراب کا دھوکا ہونے لگا۔ ہم برلبِ دریا پیاسے رہ گئے۔ یہاں تک کہ نظر کا دھوکہ حقیقت بن گیا۔ دریا دیکھتے دیکھتے سوکھ گیا۔ یہ ایک منفرد واقعہ تھا۔ ہم ایک بار پھر غالب کے دور میں جا کھڑے ہوئے۔ گنوا دی ہم نے اسلاف سے جو میراث پائی تھی۔ جنگل میں رات ہوگئی۔ ایسی طویل رات کہ دن کا وجود یاد سے محو ہونے لگا۔ منیر نیازی نے اسے منظوم کردیا۔ یہ غالب کی صدائے بازگشت کے سوا کیا ہے؟
مرے باہر فصیلیں تھیں غبارِ بادوباراں کی
ملی مجھ کو ترے غم کی خبر، آہستہ آہستہ
یہ فصیلیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اسی لیے میں نے عرض کیا ہم غالب کے دور کی طرف لوٹ رہے ہیں، اس فرق کے ساتھ کہ اب ہم میں غالب نہیں ہوتا۔ ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے۔
آج شعر کچھ زیادہ ہی یاد آ رہے ہیں۔ بطور جملہ معترضہ عرض ہے کہ شعروں سے بوجھل تحریر اب زیادہ اچھی نہیں لگتی۔ یہ انداز ابوالکلام ہی کو زیبا ہے۔ شاید یہ ہم جیسوں کا عجزِ بیان ہے کہ بات بات پر شعر کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ بعض اوقات یہ حالات کا جبر ہوتاہے کہ نثر میں بات کہنی مشکل ہو جاتی ہے۔ میرا مسئلہ دوسرا ہے۔ وہی جو غالب کا تھا۔
پھر کیا کیا جائے؟ پس چہ یاید کرد اے اقوامِ شرق؟ اقبال ہی نے سوال اٹھایا تھا اور پھر اس کا جواب بھی دیا۔ ہم میں اور اقبال میں فرق ہے کہ ہم سوال اٹھا سکتے مگر جواب نہیں دے سکتے۔ آج ضرورت سوال کی ہے اور جواب کی بھی۔ ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن... فیض صاحب نے کہا تھا، بس اسی کا سہارا لے کر جواب تلاش کرتے ہیں۔
سیاست میں کچھ نہیں رکھا۔ یہ اقدار ہیں جنہیں زندہ رہنا چاہیے۔ اقدار کی حفاظت سماج کرتا ہے، ریاست نہیں۔ ریاست کی سطح پر الٹ پھیر کسی جوہری تبدیلی کو ممکن نہیں بناتا۔ ریاست کو بدلنے کی سب کوششیں جب ناکام ہو جائیں تو پھر مایوسی گھیر لیتی ہے۔ وہی مایوسی جس نے غالب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ سماج پر کی گئی محنت کبھی ضائع نہیں ہوتی۔ یہ درخت لگانے کی طرح ہے۔ آج نہیں تو کل پھل لگنے کا امکان زندہ رہتا ہے۔ یہی امکان ہے جو تبدیلی کو ممکن بناتا ہے۔
اندازِ نظر‘ سوچ‘ مائنڈ سیٹ، ان کو بدلنا پڑے گا۔ اس کا علاج تعلیم ہے اور آگہی۔ لوگوں کو بتایا جائے کہ خرابی کی جڑ کیا ہے؟ فساد کہاں سے اٹھتا ہے۔ آئین کی پامالی سے قانون کے احترام کا کلچر نہیں پیدا ہو سکتا۔ یہ بات سمجھانا پڑتی ہے۔ اس کیلئے لازم ہوتا ہے کہ اجتماعی یادداشت سے پانچ جولائی اور بارہ اکتوبر کی تاریخیں محو نہ ہوں۔ یہ تاریخیں اگر لوگ اپنے اپنے تعصبات کی نذر کر دیں گے توپھر کوئی نظامِ اقدار جڑ نہیں پکڑ سکے گا۔ پھر تقسیم در تقسیم کا عمل گہرا ہوتا جائے گا۔
کیا نون لیگ بارہ اکتوبر کو اپنی یادداشت سے محو کر دینا چاہتی ہے؟ کیا بیانیہ اب اس کے لیے اہم نہیں ہے؟ نہ ہو۔ جن کے افکار کسی لیگ یا جماعت کے ہاتھوں گروی ہوں، اس سوال کی اہمیت اس کے لیے تو ہو سکتی ہے، کسی ایسے آدمی کے لیے نہیں جو ماضی کو اقبال کی طرح یاد کرتا ہے۔ جو چاہتا کہ یہ یاد نئے جہاں کی دریافت کے سفر میں زادِ راہ بن جائے۔ جو اس سے کشید کرے کہ قومیں آئین اور عوامی رائے کے احترام سے سرخرو ہوتی ہیں۔ پھر ماضی کے واقعات یہ کسی فرد کے ساتھ دشمنی نہیں، ایک نئے دور کے خواب کی علامت بن جائے۔
کیا میں اس امید کی آبیاری کر سکتا ہوں؟ شاید نہیں کہ میں غالب کا طرف دار ہوں۔ کوئی امید بر نہیں آتی۔ اقبال اپنی ذاتی زندگی میں، اگر عطیہ فیضی کے نام ان کے خط پڑھیے تو‘ غالب ہی کے طرف دار تھے۔ قومی زندگی میں مگر انہوں نے امید کے چراغ روشن کر دیے۔ ایسے چراغ کہ چاروں طرف چراغاں ہو گیا۔ میرا مسئلہ ذاتی نہیں، قومی ہے۔ کاش اقبال کی طرح میں بھی کبوتر کے تنِ نازک میں شاہیں کا جگر پیدا کر سکتا۔
دیکھیے بات بارہ اکتوبر سے چلی اور کہاں جا پہنچی۔ ویسے نون لیگ نے کیا ماضی سے پیچھا چھڑا لیا ہے؟ نون لیگ کس کی ہم نوا ہے غالب اور منیر نیازی کی یا پھر اقبال کی؟