مذہب کا ذکر اپنے جوبن پر ہے۔ سوشل میڈیا کی لغت میں بیاں کروں تو 'ٹاپ ٹرینڈ‘۔ حاصل مگر کیا ہے؟
حکومت کا دعویٰ ہے کہ سرکار نے جو اہتمام اس ربیع الاوّل میں کیا، ماضی میں اس کی کوئی نظیر موجود نہیں۔ عوام کا جوش و خروش بھی کسی پیمانے سے شاید ماپا نہ جا سکے۔ جس سائز کے کیک تیار ہوئے اور جس مقدار میں حلوہ پکایا گیا، اس کی کوئی مثال تلاش کرنا بھی محال ہے۔ اس پر مستزاد مجالس اور تقریبات۔ معلوم یہ ہوتا تھا کہ سماج مذہب کے رنگ میں رنگ گیا ہے۔ محرم میں بھی ہم اسی طرح کے مظاہر دیکھتے ہیں۔ یہ وہ ایام ہیں کہ سارا سماج مذہب کی ردا اوڑھ لیتا ہے۔ سوال مگر وہی ہے جو ہر سال، ان ایام کے گزر جانے کے بعد، سامنے آکھڑا ہوتا ہے۔ مذہب دراصل ہے کیا؟ مسرت یا ماتم کے چند ایام؟ کسی تاریخی واقعے کی یاد؟ کسی حادثے کا ذکر؟ وجہ تفاخر؟ ایک عصبیت؟ ایک علمی سرگرمی؟
اس سوال کے بطن میں ایک دوسرا سوال بھی موجود ہے؟ اس کا جواب کہاں سے ملے گا؟ اس باب میں کس کا فرمان مستند ہے؟ ہمیں کس کی طرف رجوع کرنا چاہیے؟ مذہب کے نام پر مرتب کی گئی تصانیف سے کتب خانے بھر چکے۔ ان گنت شخصیات ہیں جو مذہب کی علامت ہیں اور لوگ ان کے گرد حلقہ بنائے بیٹھے ہیں۔ تاریخ کا کوئی عہد ان سے خالی نہیں۔ مذہب کی حقیقت کس سے معلوم ہوگی؟
مذہب اپنے جوہر میں ایک ما بعدالطبیعیاتی معاملہ ہے۔ میں اگر اس بحث کو اسلام کے دائرے تک محدود رکھوں تویہ اس ہدایت کا نام ہے جو اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کے توسط سے ہمیں ملی۔ آپﷺ نے واضح کیا کہ میں دین کے نام پر جو کچھ کہہ رہا ہوں، اس کا انتساب عالم کے پروردگار کے نام ہے‘ میں ایک رسول ہوں جسے خدا کی بات بندوں تک پہنچانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ آپﷺ نے خدا کا جو کلام انسانوں تک پہنچایا، اس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ آپﷺ اسی دین کو پیش کر رہے ہیں جو سیدنا آدمؑ سے سیدنا مسیحؑ تک تمام انبیا پیش کرتے آئے۔ اسی لیے آپﷺ اور آپ پر نازل کی گئی کتاب پر ایمان کا ایک لازمی تقاضا یہ بھی ہے کہ آپ سے پہلے آنے والے رسولوں اور نبیوں کے ساتھ، قرآن مجید سے پہلے نازل ہونے والی کتب اور صحائف پر بھی ایمان لایا جائے۔
اس مذہبی روایت کی آخری کڑی سیدنا محمدﷺ ہیں۔ اس لیے آپ جو کتاب لے کر آئے، وہ اس تمام دینی ریکارڈ کیلئے میزان اور کسوٹی ہے جو پہلے سے موجود ہے۔ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق، قرآن مجید کو میزان ماننا اس لیے ضروری ہے کہ آسمانی صحائف میں یہ واحد کتاب ہے جس کی پیغمبر کی طرف نسبت میں کوئی اختلاف نہیں اور اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لیا ہے۔ یہ ختمِ نبوت کا لازمی تقاضا تھا۔ چونکہ قیامت کی صبح تک اسی کتاب نے حق و باطل کا فیصلہ کرنا ہے، اس لیے لازم تھاکہ اس کو ہر انسانی مداخلت سے محفوظ کردیا جاتا۔
قرآن مجید سے مذہب کا جو تصور ملتا ہے، وہ مروجہ عوامی تصورات سے بہت مختلف ہے۔ قدیم آسمانی کتب بھی اس کی تائید کرتی ہیں۔ قرآن مجید نے یہود کا جو نقشہ کھینچا ہے، یہ وہی ہے جوعہدِ نامہ جدید میں سیدنا مسیحؑ نے اپنے خطبات میں بیان کیا۔ قرآن مجید کی راہنمائی میں انسان کی مذہبی تاریخ کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ، مذہب کا ایک عوامی ایڈیشن سامنے آتا ہے۔ اس کا ماخذ خدا کی کتاب یا پیغمبر کی بات نہیں ہوتی، عوامی ذوق یا مذہبی طبقے کے مفادات ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہود نے سیدنا موسیٰؑ کی غیر موجودگی میں جب بچھڑے کی پوجا شروع کر دی تو یہ عوامی ذوق کا اظہار تھا۔ یہودی علما نے جب تورات کے بجائے اپنی آرا کو دین کا ماخذ بنایا تویہ دراصل ان کے طبقاتی مفادات کا تقاضا تھا۔
سورہ بقرہ اور سورہ آلِ عمران میں بہت وضاحت سے یہ بتایا گیا ہے کہ یہود کو امامت کے منصب سے کیوں معزول کیا گیا۔ انہوں نے دین کا انکار ہی نہیں کیا تھا بلکہ اس کی صورت تبدیل کر دی تھی اور اس کی یہی دو وجوہات تھیں۔ قرآن مجید سے زیادہ تفصیل کے ساتھ سیدنا عیسیٰؑ نے اس کو بیان کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بنی اسرائیل میں سے تھے اور انہی کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ انہوں نے اس مذہبی معاشرے کی ایک مکمل تصویر دکھا دی۔ ان کی یہ بات یہود کے مذہبی پیشواؤں کو اتنی ناگوار گزری کہ وہ انہیں مصلوب کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ اپنے رسولوں کو اپنے منکرین سے مغلوب نہیں ہونے دیتا۔ اسی وجہ سے یہود حضرت مسیحؑ کو صلیب دینے میں ناکام رہے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں محفوظ رکھا۔
قرآن مجید نے دین کو جس طرح پیش کیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسرت یا ماتم کے چند ایام کا تذکرہ ہے اور نہ ہی کسی تاریخی واقعے کی یاد‘ کسی حادثے کاذکر ہے نہ وجہِ تفاخر۔ ایک عصبیت ہے نہ ایک علمی سرگرمی۔ بلاشبہ یہ ایام کا ذکر کرتا ہے مگر اپنے اصل مقدمے کی تائید میں۔ وہ حادثات کو بھی بیان کرتا ہے مگر ساتھ ہی واضح کرتا ہے کہ یہ بیان اس لیے نہیں کہ حادثہ یاد رہ جائے اور اس کا مقصد پس منظر میں چلا جائے۔ وہ بعض اوقات کسی واقعے کی یاد کوزندہ رکھنا چاہتا ہے مگر اس کے نتیجے کی وجہ سے۔
سیدنا ابراہیمؑ اور سیدنا اسماعیلؑ کی قربانی کے واقعے کو اس نے ہمیشہ کیلئے محفوظ کردیا لیکن ساتھ ہی یہ واضح کردیا کہ تمہارا گوشت یا جانوروں کا خون جو تم بہاتے ہو، وہ اللہ تک نہیں پہنچتا‘ اگر پہنچتا ہے تو تمہارا تقویٰ۔ یہی واقعہ جب عوامی ذوق کی صورت اختیار کرتا ہے تو نمائش کے ایک کلچر میں بدل جاتا ہے اور یوں اس 'مذہب‘ سے دور ہو جاتا ہے جو حقیقی ہے۔ اب بظاہر مذہب کی رسم باقی ہے۔ کسی مذہبی تعلیم کا انکار نہیں ہوا لیکن مذہب کی روح باقی نہیں رہ گئی۔
کوئی مذہبی معاشرہ جب اس سطح تک پہنچتا ہے تو اس میں مذہبی سرگرمیاں بڑھ جاتی ہے۔ مذہبی ایام زیادہ گرمجوشی سے منائے جاتے ہیں۔ وہ فخر سے اعلان کرتا ہے کہ جو اس سال ہوا، پہلے تو کبھی نہیں ہوا تھا۔ 'عوامی مذہب‘ کواس سے تقویت ملتی ہے اور وہ یہ غلط فہمی پھیل جاتی ہے کہ لوگ مذہبی ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف وہ گروہ مضبوط ہوتے ہیں جو مذہب کی بنیادپر دنیاوی مفادات کے حصول کے متمنی ہوتے ہیں۔ یوں مذہبیت ہر جگہ نظر آتی ہے مگر مذہبی کردار کہیں دکھائی نہیں دیتا۔
مذہبی شخصیت کیسی ہوتی ہے؟ ایک مذہبی معاشرہ کیسا ہوتا ہے؟ کوئی اس سوال کا جواب تلاش کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ خالی الذہن ہو کر اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید کا مطالعہ کرے۔ بالخصوص یہود کی تاریخ کو پڑھے جو قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے اور عہدنامہ جدید میں بھی۔ اس سے واضح ہوگا کہ مذہبی سرگرمیوں کے بڑھنے سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتاکہ سماج مذہبی ہوگیا ہے۔ اس مطالعے سے یہ بات بھی نکھر کر سامنے آجائے گی کہ مذہبی شخصیت اور مذہبی معاشرے کے اوصاف کیا ہوتے ہیں۔ کسی فرد یا معاشرے کے مذہبی ہونے کا پیمانہ یہ نہیں کہ اس میں مذہبی سرگرمیاں کتنی ہیں۔ پیمانہ یہ ہے کہ اس کی اخلاقی سطح کیا ہے؟