اسالیبِ اظہار میں کلام ہو سکتا ہے مگر فتح اور جیت پر اظہارِ مسرت فطری ہے۔ ایک مدت کے بعد اِن کانوں نے اچھی خبر سنی۔ ایسے میں طرب و نشاط کی مجلس برپا ہو جائے تو اسے گوارا کیا جانا چاہیے۔ یہ مجالس مگر تا دیر آباد نہیں رہتیں۔ زندگی کی حقیقتیں اپنی طرف کھینچنے لگتی ہیں اور ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ ان کی طرف متوجہ ہوا جائے۔
پاک بھارت تعلقات میں وقت نے ایسی تلخی گھول دی ہے کہ اس جَل کے میٹھا ہونے کا کوئی امکان پیدا نہیں ہوتا۔ ہر آنے والا دن اس کی تلخی میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ امن کی فاختہ کیا پر پھیلاتی کہ ہم نے پیامبرانِ امن کے ہاتھوں کے طوطے اڑتے ہی دیکھے ہیں۔ سرحد کے دونوں جانب ایسے لوگ کم نہیں جو امن کی خواہش کو غداری سمجھتے ہیں۔ گویا جنگ کے الاؤ کا دھکائے رکھنا‘ ان کی نگاہ میں حب الوطنی کا تقاضا ہے۔ جب ایسی فضا ہو تو کرکٹ کیا‘ مذہب بھی تنازعے کی افزودگی ہی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
نیوزی لینڈ کی ٹیم کا دورۂ پاکستان منسوخ ہوا تو سرحد کے اِس طرف یہی گمان کیا گیا کہ اس کے پیچھے بھارت کا ہاتھ تھا۔ مقصود یہ تھا کہ پاکستان کو ایک ایسا ملک ثابت کیا جائے جہاں مہمان بھی محفوظ نہیں۔ یہ قرینِ قیاس ہے‘ بالخصوص ایسے ماحول میں‘ جب دہشت گردی بین الاقوامی تعلقات کے تعین میں بنیاد قرار پائی ہے۔ بھارت کی خارجہ پالیسی کا یہ اہم ستون ہے کہ پاکستان کو دنیا میں دہشت گردوں کی پناہ گاہ ثابت کیا جائے۔ میں مگر کرکٹ کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھ رہا ہوں۔ ہم چاہیں تو اسے باہمی تعلقات کو پُرامن بنانے کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت‘ دونوں تاریخ کے ایک جبر کا شکار ہیں۔ یہ جبر ایسا ہے کہ اس سے نکلنے کی یک طرفہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ کوئی سیاسی رہنما‘ پاکستان ہو یا بھارت‘ یہ جرأت نہیں کر سکتا کہ تنہا دوسرے کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے۔ ریاست اور عوام دونوں‘ اس پیش قدمی کو قبول کر نے پر آمادہ نہیں۔ یوں خواہی نخواہی‘ لازم ہے کہ دوسرے کی مذمت کے لیے بلند آہنگ ہوا جائے۔ جب سیاسی جماعتیں ایسا نہیں کر سکتیں تو کوئی کھلاڑی کیسے کر سکتا ہے؟
یہ دراصل دانشور اور بحرِ تاریخ کے شناور ہوتے ہیں جو عوامی مقبولیت سے بے نیاز ہو کر آواز اٹھا سکتے ہیں۔ جو یک طرفہ طور پر امن کا جھنڈا لہرا سکتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں یہ ممکن ہے کہ ان کی آواز صدا بصحرا ثابت ہو‘ مگر ایسی آوازوں کو اٹھتے رہنا چاہیے کہ بالآخر لوگوں کو یہیں لوٹنا ہوتا ہے؛ اگرچہ اکثریت بعد از خرابیٔ بسیار یہ فیصلہ کر تی ہے۔ صحرا میں مگر اذان دیتے رہنا چاہیے۔
آواز اٹھنی چاہیے کہ پاکستان اور بھارت کو اگر مسابقت ہی کرنی ہے تو اس کے میدان دوسرے ہیں‘ میدانِ جنگ نہیں۔ ایک میدان کرکٹ بھی ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ہے تو آؤ کھیل کے میدان میں اپنا ہنر آزماؤ اور اپنی برتری ثابت کرو۔ جنگ کا کوئی فاتح نہیں ہوتا۔ انسانوں کی کھوپڑیوں سے بنے مینار پر فتح کا علم اگر لہرا بھی دیا جائے تو یہ باعثِ عزت نہیں‘ باعثِ ندامت ہے۔ حقیقی فتح کا رنگ کسی نے دیکھنا ہونا ہوتو فاتحِ مکہ کی سیرت کو مطالعہ کرے۔ مکہ میں اس شان سے داخل ہوئے کہ کوئی سامنے کھڑا ہونے کی سکت نہیں رکھتا تھا۔ فاتح کا عالم مگر یہ تھا کہ گردن شکر سے جھکی ہوئی ہے اور ان کی زبانِ حق ترجمان سے اعلان ہو رہا ہے کہ آ ج بدلے کا نہیں عام معافی کا دن ہے۔
تاریخ کے جبر کے باعث فی الوقت کسی دوستی کا خواب تو نہیں دیکھا جا سکتا مگر مسابقت کا میدان ضرور بدلا جا سکتا ہے‘ اگر کوئی ہمت کرے۔ پاکستان اور بھارت کے کرکٹ میچ سے وابستہ فتح و شکست‘ اپنے اثرات کے لحاظ سے میدانِ جنگ کی جیت اور ہار سے کم نہیں ہوتی۔ جس طرح دونوں جانب سے لوگوں کے جذبات میچ کے فیصلے سے وابستہ ہو جاتے ہیں‘ وہ انہیں نفسیاتی طور پر اس کیفیت میں مبتلا کر دیتے ہیں جو جنگوں ہی میں پیدا ہوتی ہے۔ یوں کرکٹ سرحد کے دونوں اطراف میں رہنے والوں کی جذباتی تسکین کا سامان کرتی رہتی ہے۔ کل بھارت جیت رہا تھا‘ آج ہم جیت گئے۔ کل ان کے خوش ہونے کا دن تھا‘ آج ہماری خوشی کا دن ہے۔
کھیل کے معرکے میں کسی کی جان نہیں جاتی۔ کسی کا مالی نقصان بھی نہیں ہوتا۔ یہ مقابلے دونوں ملکوں کو ابھارتے ہیں کہ وہ اپنی صفوں سے بہتر کھلاڑی تلاش کریں۔ یوں مسابقت کا یہ میدان عوام کے لیے بہتری کا پیغام لاتا ہے۔ فخر زمان کی صورت میں‘ مردان میں چھپا ٹیلنٹ سامنے آتا ہے۔ اس دائرے کو بڑھا دیجیے۔ ہاکی‘ کبڈی۔ ا س کی معراج علم کی دنیا میں مسابقت ہے۔ بھارت نے کتنے نوبیل انعام جیتے اور ہم نے کتنے؟ بھارت میں یونیورسٹیوں کی تعداد کتنی ہے اور ہماری ہاں کتنی؟ ان کا تعلیمی معیار کیا ہے اور ہمارا کیا ہے؟
کھیل کے میدان میں کھلاڑی ایک دوسرے کے درپے تھے۔ کھیل ختم ہوا تو رضوان اور کوہلی مسکراتے‘ گلے مل رہے تھے۔ مقابلہ ختم نہیں ہوا لیکن ایک معرکہ تمام ہوا جس کے آخر میں کسی کی نکسیر پھوٹی اور نہ کسی کا مال بر باد ہوا۔ کوہلی نے رضوان کو گلے لگایا تو ہمیں اچھا لگا۔ تھوڑی دیر پہلے کوہلی کے بارے میں ہمارے جذبات کچھ اور تھے۔اس ایک لمحے نے جذبات کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ مسابقت اگر شرفِ انسان کو مجروح نہ کرے تو خیر ہی خیر ہے۔ مسابقت کا حاصل اگر انسانی لاشیں ہوں تو پھر خون کے دھبوں کو دھونے کے لیے اَن گنت برساتوں کی ضرورت پڑتی ہے۔
پاکستان میں ایسے حالات پیدا ہوئے کہ کرکٹ کاایک کھلاڑی ملک کا وزیراعظم بن گیا۔ ان کی موجودگی میں کرکٹ کو باہمی تعلقات کی بہتری کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا مگر برصغیر کی بدقسمتی یہ ہوئی کہ دوسری طرف ایک مذہبی جنونی اور انتہا پسند وزرات عظمیٰ کے منصب پر آ بیٹھا۔ امن تو دور کی بات‘ اس نے کشمیر کے معاملے میں ہر اخلاقی قدر اور بین الاقوامی اور باہمی معاہدے کی حرمت کو اپنے جنون کی بھینٹ چڑھا دیا۔ یوں تاریخ کا جبر ایک بار پھر آڑے آیا۔ اس سے پہلے اُس وقت اس جبر نے امن کو سبوتاژ کیا جب نواز شریف اور واجپائی نے دوطرفہ طور پر پیش قدمی کی تھی۔ تاریخ نے یہ کام جنرل پرویز مشرف سے لیا۔ یہ الگ بات کہ بعد میں‘ وہ آگرہ میں اپنے وقار کو داؤ پر لگا کر امن کا نسخہ بیچتے رہے مگر کوئی خریدار نہ ملا۔
پاکستان کو ایک مدت کے بعد بھارت کے خلاف ایک بڑی کامیابی ملی۔ اس نے بھارت کا یہ گھمنڈ ختم کر دیا کہ وہ ناقابلِ شکست ہے۔ کیا ممکن ہے کہ دونوں ملکوں کی سیاسی قیادت اس بات کو جانے کہ میدان جیسا بھی ہو‘ سدا ناقابلِ شکست کوئی نہیں رہتا۔ کوئی ہے جو آواز اٹھائے کہ پرتھوی میزائل بنے گا تو غوری بھی بنے گا۔ آؤ! بابر میزائل کے بجائے‘ بابر اعظم جیسے کھلاڑی پیدا کرو اور کھیل کے میدان میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرو۔ آؤ کہ اپنی اپنی صفوں سے کوہلی اور بابر اعظم تلاش کرو۔ ڈاکٹر عبدالسلام اور ڈاکٹر عبدالکلام پیدا کرو کہ مسابقت کا اصل میدان یہی ہے۔ اس کا اگلا مرحلہ وہ ہو گا کہ دونوں مل کر افلاس اور جہالت کے خلاف جنگ لڑیں۔ اس منزل تک پہنچنے کے لیے مگر پہلے سنگِ میل کو عبور کرنا ضروری ہے۔