مذہب درحقیقت کیا ہے، اس سے قطع نظر، سماجی کردار اسی مذہب کا ہوتا ہے جسے عوامی سطح پر قبول کیا جاتا ہے۔ وہی جسے ہم 'پاپولر اسلام‘ کہتے ہیں۔
مجھ جیسے مذہب پسند، اسلام پر کی جانے والی تنقید کا ہمیشہ یہ جواب دیتے رہے ہیں کہ مذہب کو اہلِ مذہب سے نہیں، مذہب کے مآخذ سے جاننا چاہیے۔ یہ مقدمہ علمی سطح پر کتنا مضبوط ہی کیوں نہ ہو، عملاً بے معنی ہے۔ وہ مذہب جو کتابوں میں بند ہے، وہ سماج کی تشکیل میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہا۔ یہ کردار اگر کچھ ہے بھی تو ناقابلِ ذکر۔ سماجی رویوں پر وہی مذہب اثرانداز ہوتا ہے جسے لوگ مانتے ہیں یا جسے اہلِ مذہب پیش کررہے ہیں۔ اس لیے یہ بحث کہ مذہب کا سماجی و سیاسی کردار کیا ہونا چاہیے، اس پر منحصر نہیں کہ الہامی کتابوں میں کیا لکھا ہے یا پیغمبروں کی سیرت سے کیا اخذ ہوتا ہے۔ اس کا تمام تر انحصار اس پر ہے کہ لوگ جسے مذہب سمجھتے ہیں، وہ کیا ہے؟
میں دو مثالوں سے اپنی بات واضح کرتا ہوں۔ ایک کالعدم جماعت کا دھرنا، ایک بار پھر ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا۔ سماج اور ریاست، دنوں اس کی گرفت میں ہیں۔ یہ جماعت جو مقدمہ پیش کر رہی ہے، اس کی اساس پاپولر مذہب میں ہے۔ اسے سماج کے ایک بڑے طبقے کی حمایت حاصل ہے، اس لیے ریاست کیلئے ممکن نہیں رہا کہ اس کے مطالبات سے صرفِ نظر کرے۔ اس کے برخلاف پیش کیا جانا والا مقدمہ علمی سطح پر کتنا مضبوط ہی کیوں نہ ہو، سماجی رویے اور ریاستی پالیسی کی تشکیل میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ پاپولر مذہب کے سامنے، ریاست کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے اہلکاروں کے قتل کا مقدمہ تک نہیں لڑ سکتی۔
دوسری مثال پنجاب اسمبلی کی ایک قرارداد ہے جو 26 اکتوبر کو متفقہ طور پر منظور کی گئی۔ یہ قرارداد نکاح نامے میں ایک ترمیم تجویز کرتی ہے، جس کا تعلق پاپولرمذہب سے ہے۔ اس قرارداد کو متفقہ طور پر ہی منظور ہونا تھا۔ کوئی جماعت یا کوئی حکومت اس کی مخالفت کی ہمت نہیں کر سکتی تھی۔ نکاح نامہ، نکاح کے ادارے کی قانونی صورت گری میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے دوررس سماجی اثرات ہیں۔ اگر نکاح نامہ ایک پاپولر تعبیرِ مذہب کے تابع ہو کر بنے گا تو نکاح کے ادارے میں اصلاحات لانا مشکل ہو جائیں گی۔
میں صرف دو پر اکتفا کررہا ہوں، ورنہ مثالوں کا انبار ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب بھی ہم مذہب کے عملی کردار کا تعین کرتے ہیں تو یہ لازم ہے کہ اس سے وہ مذہب مراد لیا جائے جسے عوام مان رہے ہیں۔ ایک مصلح کا نقطہ نظر کتنا علمی یا مذہب کی اساسات سے مربوط ہی کیوں نہ ہو، کسی عملی اقدام کیلئے معاون نہیں ہو سکتا۔ مصلحین کی تعبیرات، یہی وجہ ہے کہ سماج کی تشکیل میں اگر عملی کردار ادا کرتی بھی ہیں تو پاپولر مذہب کے مقابلے میں ناقابلِ ذکر۔
مذہب اور ریاست کے باہمی تعلق کی بحث اسی وقت معنی خیز ہو سکتی ہے جب مذہب سے مراد 'پاپولر مذہب‘ ہو۔ جب ہم اسلام اور سیکولرازم میں تقابل کرتے ہیں تو سیکولرازم کے مقابلے میں مذہب کا وہ تصور رکھتے ہیں جو مصلحین پیش کرتے ہیں۔ وہ تصور جو کتابوں میں بند اور کتب خانوں میں مقید ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اسلامی نظریاتی کونسل نے کوشش کی کہ اس تصور کو باہر کی ہوا لگے۔ پاپولر اسلام نے اس کو مسترد کر دیا۔ مشرف صاحب کی طرح کا روشن خیال حکمران بھی مجبور ہواکہ پاپولر اسلام کے سامنے گھٹنے ٹیک دے۔ اس لیے میرے نزدیک آج حقیقی تقابل اسلام اور سیکولرازم میں نہیں، پاپولر اسلام اور سیکولرازم میں ہے۔ سوال یہ ہے نہیں ہے کہ اسلام چاہیے یا سیکولرازم؟ سوال یہ ہے کہ سیکولرازم چاہیے یا پاپولر اسلام؟
بعض لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ 'پاپولر اسلام‘ اپنے جوہر میں سیکولر ہے۔ اس موقف کے حق میں وہ صوفی اسلام یا صوفیانہ شاعری کو پیش کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پاپولر اسلام تصوف پر مبنی ہے جس کی تعبیرات وحدتِ ادیان کی سرحدوں کو چھوتی ہیں۔ یہ تصورِ اسلام، رام اور رحیم کی بحث کو ایک لفظی نزاع سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ اسی طرح مزارات پر ہونے والے میلوں ٹھیلوں کی روایت ہے جس میں شاعری ہے، موسیقی ہے، پیار محبت ہے جس کا دامن وسیع ہے۔ یہ دلیل تاریخی اعتبار سے جتنی قوی کیوں نہ ہو، میرا احساس ہے کہ دورِ جدید اس کی تائید نہیں کرتا۔
کالعدم تنظیم اپنے جوہر میں اُسی اسلام کی توسیع ہے جو صوفیا بیان کرتے ہیں۔ اس میں مگر اختلافِ رائے کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ دوسرے مذاہب تو دور کی بات، یہ فی المذہب اختلاف کو بھی قبول نہیں کرتی۔ تاریخ سے پھوٹا پاپولر اسلام کا یہ تصور، کلامی اور نظری طور پر صوفیانہ روایت سے جڑا ہے لیکن اس کا نیا روپ آج کے سیاسی اور سماجی تصورات سے متاثر ہے جس میں مذہب 'اقتدار‘ (Power) سے مربوط ہے۔ وہ قوت سے اپنی بات منوانا چاہتا ہے اور اس کی کڑیاں قومی اور بین الاقوامی سیاست سے جڑی ہوئی ہیں۔ یہ اسلام اب ایک 'تحریک‘ ہے۔ تحریک کا تصور تاریخی طور پر سیاست سے مربوط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاپولر اسلام کی ہر تعبیر اقتدار میں اپنا حصہ چاہتی ہے۔ کالعدم تحریکِ لبیک بھی بطور سیاسی جماعت متحرک ہے اور انتخابات میں حصہ لیتی ہے۔ انتخابات ظاہر ہے کہ اقتدار کیلئے لڑے جاتے ہیں۔
اس لیے میرے نزدیک عصری حوالے سے یہ خیال اب بے معنی ہوچکا ہے کہ پاپولر اسلام یا خانقاہی تصوف سے جڑا اسلام، اپنی اساس میں سیکولر ہے۔ یہ بات تاریخی واقعے کے طور پر درست ہو سکتی ہے مگر آج کے حالات میں غلط ثابت ہوچکی۔اس تعبیر کو ماننے والے بعض لوگ تصوف کو تاریخی اعتبار سے بھی سیاست و اقتدار سے الگ کرکے نہیں دیکھتے۔ ان کاخیال ہے کہ سید علی ہجویریؒ کی لاہور آمد اور محمود غزنوی کے حملوں میں واقعاتی تعلق پایا جاتا ہے۔
جب پاپولر اسلام اور سیکولرازم کا موازنہ کرتا ہوں تو مجھے خیال آتا ہے کہ سیکولرازم ہی ایک موزوں سیاسی بندوبست ہے۔ تجدید و احیائے دین کی آواز بھی ایک سیکولر ماحول ہی میں اٹھ سکتی ہے۔ پاپولر اسلام، آج جو صورت اختیار کرچکا، اس میں خود مذہب کی مختلف تعبیر کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ اس لیے ریاست اور سماج کا سیکولر بندوبست ہی 'حقیقی مذہب‘ کے مفاد میں ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کی سیکولرازم بھی مدت سے لغت اور تاریخ کی بندشوں سے آزاد ہو چکا۔ یہ زمان ومکان کی رعایت سے اپنی صورت تبدیل کرتا ہے۔ طلال اسد کا کہنا ہے کہ یہی خصوصیت مذہب میں بھی پائی جاتی ہے۔
جب مذہب کو سیاسی اور دنیاوی مقاصد کیلئے اس بیدردی سے استعمال کیا جائے گا‘ جیسا کہ ہمارے ہاں کیا گیا تویہ اس کا ایک ناگزیر نتیجہ ہے جو نکل چکا۔ یہ تعبیر مذہب آج اُن کے درپے ہے جو کل اسے اپنے حریفوں کے خلاف ہتھیار کے طور پراستعمال کرتے رہے۔ اُس وقت بھی میں نے عرض کیا تھا کہ یہ دودھاری تلوار ہے۔ آج اگر دوسروں کے گلے پر چل رہی ہے تو کل آپ کا گلا بھی اس کی زد میں ہوگا۔ یہ نتیجہ اتنا جلدی نکلے گا، اس کا البتہ مجھے بھی اندازہ نہیں تھا۔ نتیجہ مگر نکل چکا۔ اب دیکھنا ہے کہ کون ہے جو اس سے عبرت پکڑتا ہے۔ تاریخ سے کچھ سیکھنے کے باب میں، اگرچہ ہماری تاریخ زیادہ درخشاں نہیں۔