دھرنا اِس کہانی کا پہلا باب ہے نہ آخری۔
لوگ اسے یوں بیان کررہے ہیں جیسے یہ قصہ دھرنے سے شروع ہوتا ہے اور اسے یہیں پہ تمام ہو جانا ہے۔ کوئی پوری کہانی سنانا چاہے تو کہا جاتا ہے کہ تصادم چاہتا ہے۔ یہی غلطی لال مسجد کے قضیے میں کی گئی۔ تاریخ اب مہرِ تصدیق ثبت کر چکی کہ جسے سانحہ لال مسجد کہا جاتا ہے، وہ دراصل ایک داستان کا تیسرا یا چوتھا باب تھا۔ جاری کہانی بھی ابھی تک ختم نہیں ہوئی۔ نہیں معلوم اس کے کتنے باب مزید رقم ہوں گے۔ کون جانے کہ شکیل عادل زادہ کی ''بازی گر‘‘ کی طرح اس کا آخری باب لکھا ہی نہ جا سکے۔
لال مسجد کی کہانی کے بہت سے کردار ابھی زندہ ہیں۔ سچی کہانی کا المیہ یہ ہے کہ جب تک مرکزی کردار زندہ ہوں، اسے پوری طرح بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی کہانی اس وقت سنائی جاتی ہے جب قصہ پارینہ بن جائے یا جب کسی کردار کو ضمیر کی خلش بے چین کرے اور وہ بول اٹھے۔ وزیر آباد دھرنے کے ننانوے فیصد مرکزی کردار زندہ ہیں۔ جب تک وہ موجود ہیں، یہ کہانی لکھی نہیں جا سکے گی۔ اس کے متفرق واقعات سینہ در سینہ روایت ہوتے رہیں گے۔ لوگ اپنے طور پر خلا بھرتے رہیں گے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آجائے جب سب کچھ کھول کر بیان کر دیا جائے۔
ایک بات البتہ کہی جا سکتی ہے۔ یہ کہانی نئی ہے نہ اس کا انجام نیا ہوگا۔ تاریخ اور بالخصوص مسلمانوں کی تاریخ میں، ابتدا ہی سے ایسے گروہ وجود میں آتے رہے ہیں جنہوں نے انتہا پسندانہ مذہبی افکار کے ساتھ ریاست اور معاشرے کو اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کی۔ اس کی بنیاد سماج کی مذہبی حساسیت تھی۔ مسیحیت کے برعکس، اسلام کی مذہبی اور سیاسی تاریخ ایک ساتھ شروع ہوئی۔ یوں ایک طویل عرصہ مذہب کے 'غیر مذہبی‘ کردار کے لیے جگہ باقی رہی۔ اسی سے ان گروہوں نے فائدہ اٹھایا اورایک محدود وقت تک فضا میں ارتعاش پیدا کیے رکھے۔
عالم مسیحیت میں بھی، جب بعد کے ادوار میں مذہبی ادارے یعنی کلیسا اورسیاسی ادارے یعنی بادشاہت کے مابین ایک اتحاد وجود میں آیا تو اس سے مذہب کا 'غیر مذہبی‘ کردار بڑھا۔ اس سے لوگوں کو شکایت پیدا ہوئی۔ وہاں کے اہلِ دانش نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے کلیسا اور سیاسی اداروں کی علیحدگی کا تصور پیش کیا، جس سے مذہب باقی رہا لیکن اس کا غیرمذہبی کردار ختم ہوگیا۔ (اگر کسی کو 'غیرمذہبی‘ کی تفہیم میں دقت پیش آئے تو اسے وہ 'سیکولر‘ سے بدل سکتا ہے۔)
مسلم دنیا کا تاریخی تجربہ مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشرے ابھی تک مذہب، سماج اور ریاست کے باہمی تعلق کو کسی ایسے پیراڈائم کے تابع نہیں بنا سکے جس میں تینوں کیلئے عافیت ہو۔ اسی لیے ان معاشروں کو قدم قدم پر ان تینوں کے درمیان تصادم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کالعدم تحریکِ لبیک کا دھرنا اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ جب تک ہم اس تعلق کی تشکیلِ نو نہیں کریں گے یہ تصادم باقی رہے گا۔مستقبل میں اس تصادم سے بچنے کے لیے یہ حل تجویز کیا جا رہا ہے کہ اس تحریک کی کوکھ سے ایک سیاسی جماعت جنم لے۔ یہ خام خیالی ہے۔ ایک تواس وجہ سے کہ یہ حل پہلے ٹی ٹی پی کے معاملے میں آزمایا جا چکا اور کامیاب نہیں ہوا۔ دوسرا کالعدم تنظیم پہلے ہی سے ایک سیاسی جماعت ہے۔ یہ دھرناایک سیاسی جماعت ہی نے دیاتھا۔ یہ جماعت انتخابات میں حصہ لے چکی اور آج سندھ اسمبلی میں اس کی نمائندگی ہے۔ تو کیا اسے اب دوسری بار سیاسی جماعت بنایا جائے گا؟
جو لوگ یہ بات کہتے ہیں، وہ سیاسی جماعت کا مفہوم سمجھتے ہیں نہ جمہوریت کا اور نہ آئین کا۔ سیاسی جماعت ایک سیاسی ایجنڈے کے تحت قائم ہوتی اورایک خاص طرز کی حکمتِ عملی اختیار کرتی ہے۔ تحریکِ لبیک ایک مذہبی مسئلے پر کھڑی ہوئی اوراس نے واضح کیا کہ اس کا اقتدارکی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ خادم حسین رضوی صاحب کی جس ملی خدمت کا ذکر کیا جاتا ہے، وہ یہ نہیں کہ انہوں نے قوم کو سیاسی شعور دیا بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک مذہبی معاملے میں معاشرے کو حساس بنایا۔ جو نعرے دھرنے میں لگتے تھے، وہ سب اسی حساسیت کے گرد گھومتے ہیں۔ اس سے جیسی سیاست جنم لے سکتی تھی، وہ جنم لے چکی۔
سیاسی جماعت کے اس خیال نے دو وجوہات سے جنم لیا۔ ایک وجہ مسلکی سیاست ہے۔ پاکستان میں جو مذہبی سیاست ہورہی ہے، اس میں بریلوی مسلک کا کردار غیرنمایاں ہے۔ 1979ء کے بعد بالخصوص ہماری سیاست پر دیوبندی مسلک کا غلبہ ہے۔ اس کے دو بڑے اسباب رہے۔ ایک تو جہادِ افغانستان اوردوسرا ایران کا انقلاب۔ جہادِ افغانستان سے طالبان تک، مذہبی سیاست کی باگ فرزندانِ دیوبند کے ہاتھ میں رہی ہے۔ افغان مسئلے پرریاست کو مذہبی طبقات کی حمایت کی ضرورت تھی۔ اس نے طاقت کے مراکز تک اس مسلک کے متعلقین کی رسائی آسان بنادی۔
اسی طرح ایرانی انقلاب کے خلاف جو سنی ردِ عمل منظم ہوا، اس کی قیادت بھی اہلِ دیوبند کے پاس تھی۔ یوں بریلوی مسلک کا سیاسی کردار محدود ہوتا گیا۔ بریلوی حضرات کیلئے ایک بڑا حادثہ مولانا شاہ احمد نورانی کی رحلت تھی۔ وہ ایک مدبر آدمی تھے اور مولانا فضل الرحمن کی طرح جوہری طورپر سیاستدان تھے۔ ان کے بعد یہ مسلک سیاسی قیادت سے محروم ہوگیا۔ طاہرالقادری صاحب نے ان کی جگہ لینے کی کوشش کی لیکن بوجوہ وہ اس میںکامیاب نہ ہوسکے۔ یوں ایک خلا تھا جس نے بریلوی مسلک کے لوگوں کومضطرب رکھا۔ ان میں سب سے نمایاں محترم مفتی منیب الرحمن ہیں۔ وہ ہمیشہ آرزومند رہے کہ 'اہلِ سنت‘ سیاسی طور پر منظم ہوں۔ اس خواہش کو ناجائز نہیں کہا جا سکتا لیکن تجزیے کیلئے اس کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔
خادم رضوی صاحب کی زندگی میں بھی مفتی صاحب نے کوشش کی کہ اس تحریک کا رخ سیاست کی طرف موڑدیا جائے۔ وہ اس میں بڑی حد تک کامیاب رہے اور یہ تحریک پہلے سیاسی امتحان میں کامیاب بھی ہوگئی جو 2018ء کے انتخابات تھے۔ خادم رضوی صاحب کی اچانک وفات سے ایک بڑا خلا پیدا ہوا۔ ان کا کوئی جانشین ایسا نہ تھا جوتحریک کی اس جذبے کوقائم رکھتا۔ اس تحریک کو وہی مذہبی جذبہ زندہ رکھ سکتا تھا جو اس کی بنیاد کا اصل محرک تھا۔ اس کا موقع فرانس کے صدر نے فراہم کردیا۔
تحریکِ لبیک کو سیاسی بنانے کی دوسری وجہ وہ قومی منظرنامہ تھا جس میں نون لیگ کو کمزور کرنا مقصودتھا۔ اس تحریک نے اپنا یہ کردار بخوبی ادا کیا۔ اس سال بارہ ربیع الاوّل کو جو حالات پیدا ہوئے، اس نے ایک دفعہ پھر یہ موقع پیداکیا کہ ان دونوں مقاصد کو یکجا کردیا جائے جو تحریکِ لبیک کی بنیاد بنے۔ اس سے آنے والے سیاسی منظرنامے کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔ اعجاز چوہدری صاحب نے عجلت کی اوراس تخیل کو اپنے پیٹ میں نہ رکھ سکے تاہم لازم نہیں کہ یہ منظرنامہ وہی ہو جووہ سوچ رہے ہیں۔
میرا کہنا ہے کہ اگر معاشرے میں انتہا پسندانہ خیالات موجود ہیں توان کا رخ سیاست کی طرف نہیں موڑا جا سکتا۔ اگر ان خیالات کا کوئی حامل سیاست کا رخ کرے گا تو کوئی دوسرا اس فکر کا نمائندہ بن کر کھڑا ہو جائے گا۔ یہ دائرے کا سفر ہے جو جاری رہے گا۔ اسی لیے عرض ہے کہ دھرنا اس کہانی کا پہلا باب ہے نہ آخری۔