انسان اور روبوٹ میں کیا فرق ہے؟
انسان فکروعمل میں آزاد ہوتا ہے اور روبوٹ مستعار سوچ کے زیرِ اثر کام کرتا ہے۔ انسان بھی کبھی روبوٹ بن جاتا ہے مگر حالات کے زیرِاثر۔ نسلوں کی غلامی کبھی انسانی فطرت پراثر انداز ہوتی ہے اور وہ دوسروں کے ذہن سے سوچنے کا خوگر ہو جاتا ہے۔ وہی جسے اقبال نے بیان کیا: ''دریوزہ گرِ آتشِ بیگانہ‘‘۔ مانگے تانگے کی آگ سے گھر کو روشن رکھنے والا۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ بادلِ نخواستہ اپنی سوچ سے دست بردار ہوتا اور دوسروں کا تابع فرمان بن جاتا ہے۔ کبھی مجبوری، کبھی خوف اور کبھی لالچ اس کے دامن گیر ہو جاتا ہے۔
یہ استثنا ہے۔ انسان فطرتاً روبوٹ نہیں ہوتا۔ اپنا ذہن رکھتا اور سوچتا ہے۔ ڈی این اے کی یکسانیت، حسب نسب کی یکسانیت پر دلیل ہوتی ہے، سوچ کی یک رنگی پر نہیں۔ بھائی بھائی سے الگ سوچتا اور بیٹی ماں سے مختلف ذہن رکھتی ہے۔ یہی الٰہی سکیم ہے۔ قرآن مجید میں تین مقامات پر ارشاد ہواکہ عالم کا پروردگار چاہتا تو سب کوایک امت بنا دیتا مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ وہ سوچ کی آزادی دے کر انسان کوآزمائش سے گزارتا ہے۔ یہ آزادی میسر نہ ہوتو حساب کتاب بے معنی ہو جائیں۔
انسانوں کا معاملہ مگر عجیب ہے۔ انہیں ہم جنسوں پر اقتدار ملتا ہے توگمان کرتے ہیں کہ یہ اقتدار ذہنوں کو بھی محیط ہے۔ دوسروں کا عمل ہی نہیں، سوچ بھی اب ان کے اشارۂ ابرو کے تابع ہوگئی ہے۔ کل سے وہ اسی طرح سوچیں گے جس طرح ان کے حاکم چاہیں گے۔ جبر چونکہ اقتدار کے قیام میں مددگار رہا ہے، اس لیے خیال کیا جاتا ہے کہ یہ جسموں کے ساتھ ذہنوں کو بھی مسخر کرلیتا ہے۔ یہ خام خالی ہے جوایسے اقتدار کے زوال کا سبب بن جاتی ہے۔ چند سال کے لیے جسموں کو جبرسے قید رکھا جا سکتا ہے، ذھنوں کو نہیں۔ مصطفیٰ زیدی نے کہا تھا:
عشق میں اے مبصرینِ کرام
یہی تکنیک کام آتی ہے
اور یہی لے کے ڈوب جاتی ہے
جماعت اسلامی 1993ء میں اپنی تاریخ کے سب سے بڑے تنظیمی اور سیاسی بحران سے گزری۔ سیاسی زیاں کے اعتبار سے، یہ جماعت کی تاریخ کا سب سے بڑا حادثہ تھا۔ ماچھی گوٹھ میں پیش آنے والے حادثے سے بھی بڑا۔ جماعت کی عوامی قوت، اس کے نتیجے میں ایسے بکھری کہ آج تک مجتمع نہ ہوسکی۔ نون لیگ اور تحریکِ انصاف کی صفوں میں اگررونق ہے تو ان سیاسی کارکنوں کے دم سے جنہوں نے جماعت کے آغوشِ تربیت میں سیاست سیکھی۔ یہ ایسے گئے کہ پھر لوٹ کر نہیں آئے۔
یہ حادثہ کیوں پیش آیا؟ جماعت اسلامی کے مضبوط نظم کی بنیاد پرامیرِ جماعت نے گمان کیا کہ یہ نظم ذہنوں کوبھی اپنا پابند بنا سکتا ہے۔ جماعت اسلامی مدتوں اس بات کی تبلیغ کرتی رہی کہ پیپلز پارٹی اس ملک کی سب سے بڑی برائی ہے۔ جماعت کا عام کارکن دل و جان سے اس پرایمان لے آیا۔ اسی بنیادپر نوازشریف کو سیاسی قائد مانا گیا۔ ایک صبح اچانک انہیں بتایا گیا کہ نوازشریف اور پیپلزپارٹی تو ایک جیسی برائیاں ہیں۔
جماعت اسلامی کے کارکنوں کی اکثریت نے اسے ماننے سے انکار کیا اوراپنی راہیں جدا کر لیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ انسان تھے، روبوٹ نہیں۔ جس خیال کو انہوں نے حرزِ جاں بنا لیا تھا، کیسے ممکن تھاکہ چند دن میں اس سے نجات پالیں؟ جتنا وقت انہیں اس بات پر قائل کرنے میں لگا کہ پیپلزپارٹی سب سے بڑی برائی ہے، اب انہیںاتنا وقت مزید چاہیے تھا کہ ان کے ذہن متبادل سوچ کو قبول کرلیتے۔ امیرِ جماعت نے اس بات کو فراموش کیا کہ تنظیم کتنی سخت ہی کیوں نہ ہو، انسان روبوٹ نہیں بن جاتاکہ اس کا پروگرام بدل دیا جائے اور وہ خالی الذہن ہو کر ایک نئے پروگرام کو اپنالے۔
ہماری ریاست بھی اسی غلط فہمی کا شکار ہو جاتی ہے کہ اس ملک کے عوام روبوٹ ہیں۔ آج ہم انہیں بتائیں گے کہ فلاں جماعت یا گروہ ملک دشمن اور بھارت کا ایجنٹ ہے تو وہ مان لیں گے۔ اگلے دن ہم اسی کے بارے میں یہ خبر دیں گے کہ وہ محب وطن ہے تو وہ اس پر ایمان لے آئیں گے۔ وہ توسوچیں گے کہ پلک جھپکنے میں کوئی غدار سے محبِ وطن کیسے بن جاتا ہے؟ کیا واقعہ ہواجو اس کایا کلپ کا سبب بنا؟ اگر انہیں اپنے سوالات کا جواب نہیں ملے گا تو ریاست پر ان کا اعتماد متزلزل ہو جائے گا۔
انسان جماعت یا گروہ کو تو چھوڑ سکتا ہے، ریاست کو نہیں۔ ایسی صورت میں وہ مسلسل حالتِ اضطراب میں رہتا ہے۔ اب اگر اسے بات کرنے کا، سوال اٹھانے کا حق بھی نہ ہو تو اس کا اضطراب بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہ کسی ریاست کیلئے نیک شگون نہیں کہ شہریوں اور ریاست کا رشتہ متزلزل ہو۔ وہ کسی مضبوط بنیاد پراستوار نہ ہو۔ جمہوریت کا سب سے بڑا فائدہ ہی یہ ہے کہ وہ عوام اور ریاست کے مابین مکالمے کا دروازہ کھلا رکھتی ہے۔ عوام سوال اٹھاتے ہیں اورانہیں جواب ملتا ہے۔ یہی جواب انہیں اُس اطاعت پر آمادہ کرتا ہے جوخارجی دباؤ سے نہیں، دل سے ہوتی ہے۔
عمرؓ ابن خطاب خطبے کے لیے کھڑے ہوئے اور کہا ''سنو اور مانو!‘‘ ایک شہری کھڑا ہو گیا۔ کہا ''نہ سنیں گے نہ مانیں گے پہلے بتاؤ کہ کُرتا کیسے بنایا‘‘؟ حکمرانِ وقت نے جواب دیا۔ شہری کی تسلی ہوئی۔ پھرکہا ''اب سنیں گے بھی اور مانیں گے بھی‘‘۔ ریاستِ مدینہ کا یہ حکمران اور شہری آنے والی نسلوں کو درس دے رہے تھے کہ یہ ریاست وہ ہے جس میں شہری روبوٹ نہیں ہوتے اور حکمرانوں کے اقتدار کی اساس عوام کا اعتماد ہوتا ہے۔ اسی کا نام جمہوریت ہے۔
اس ملک میں آئے دن معاہدے ہوتے ہیں۔ افراد اور گروہ راتوں رات غدارسے محبِ وطن اور محبِ وطن سے غدار بنتے ہیں۔ عوام نہیں جانتے کہ لمحوں میں یہ کیسے ہوجاتا ہے‘ یا اگر اس کے پسِ منظر میں کوئی عمل کارفرما ہے تو وہ کیا ہے۔ یوں ریاست اور عوام کا تعلق کمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔ پھر شہریوں سے جب کہا جاتا ہے کہ سنو اور اطاعت کرو تو وہ متذبذب ہوجاتے ہیں۔ سمع وطاعت کے رشتے میں دراڑیں دکھائی دینے لگتی ہیں۔
ریاست مذہبی اور سیاسی گروہوں سے معاہدوں کا حق رکھتی ہے مگرانہیں عوام سے خفیہ کیوں رکھا جاتا ہے، یہ راز سمجھ میں نہیں آسکا۔ اس باب میں دو باتیں ضروری ہیں۔ ایک یہ مذاکرات وہ کرے جسے آئین یہ اختیار دیتا ہے۔ دوسرا اسے منتخب پارلیمان کے سامنے پیش کیا جائے۔ یہ بات ریاست کو کمزور نہیں، مضبوط بناتی ہے۔ عوام ایسی حکومت کی اونرشپ لیتے ہیں جو انہیں اعتماد میں لیتی ہے۔ مہنگائی ہوتی ہے تو وزرا میڈیا میں اس کی وجوہات بیان کرتے ہیں۔ عوام سے مکالمہ کرتے ہیں۔ اس سے حکومت کو فائدہ ہوتا ہے۔ اگر وہ عوام کو نظرانداز کردیں تو پانچ سال توکیا، کوئی حکومت دوسال مکمل نہ کرسکے۔
ریاست اور حکومت کو مان لینا چاہیے کہ عوام انسان ہیں، روبوٹ نہیں۔ وہ ریاست کے اختیار کو جانتے ہیں اور اپنی حدود کو بھی سمجھتے ہیں۔ جب ریاست اپنی حدود سے تجاوز کرتی اور عوام کو روبوٹ سمجھنے کی غلط فہمی کا شکار ہو جاتی ہے تو پھر عوام بھی اس کی توقعات پر پورا نہیں اترتے اور ایسے فیصلے کر گزرتے ہیں‘ جو ریاست کو حیرت میں مبتلا کر دیں۔ ایسی ہی حیرت کا شکار پرویز مشرف بھی ہوئے تھے۔ اس وقت مگر دیر ہو چکی تھی۔