اپوزیشن کی سیاست‘اپنے تضادات کے سیل ِرواں میں بہتی جا رہی ہے۔
پی ڈی ایم تین سال میں‘اپنے مقاصد میں یک سو ہو سکی نہ حکمتِ عملی میں۔نہ منزل متعین نہ راستہ۔ہر قدم پر یہ اختلاف نمایاں ہوتا گیا جو ہم قدمی میں مانع ہوا۔ دلچسپ بات یہ کہ یہ محض اختلاف نہیں تھا‘جو ناکامی پر منتج ہوا بلکہ ابہام بھی تھا۔جماعتیں انفرادی سطح پر بھی بے خبر تھیں کہ ان کا ہدف کیا ہے۔یوں ایک دوسرے سے الجھتی رہیں۔ حاصل یہ ہے کہ کچھ حاصل نہیں ہوا۔
کوئی عمران خان صاحب کو ہٹانا چاہتا تھا اورمبینہ بادشاہ گروں سے بنا کر رکھنا چاہتا تھا۔کسی کا ہدف بادشاہ گر تھے‘عمران حکومت نہیں۔کسی کا خیال تھا کہ سٹریٹ پاور سے حکومت کو ختم کیا جائے اورکوئی پارلیمان کے اندر سے تبدیلی کا خواہاں تھا۔کسی کی سوچ تھی کہ آغاز مرکز سے ہو اورکوئی پنجاب سے شروع کرنا چاہتا تھا۔نتیجہ یہ کہ کہیں سے کوئی ابتدا نہ ہو سکی۔پہلے مولانا فضل الرحمن اکیلے چل پڑے اور پھر پیپلزپارٹی نے اکیلا ہونے کا فیصلہ کر لیا۔اب سب اکیلے بھی ہیں اور ساتھ بھی۔اس حکمت عملی کے سا تھ وہی ہوا جو ہو سکتا تھا۔
چھ دسمبر کو ایک بار پھرپی ایم ڈی کی جماعتیں مل بیٹھیں گی۔اس کے ساتھ حکومت کے کم و بیش ساڑھے تین برس مکمل ہو جائیں گے۔ پی ایم ڈی کے سامنے سب سے اہم سوال یہ ہو گا کہ پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے یا نہیں۔ ساتھ لے کر چلیں گے تو ان کی بات ماننا پڑے گی۔ پیپلز پارٹی ابھی تک ان ہاؤس تبدیلی ہی کی قائل ہے اور مولانا اس کے حق میں نہیں۔ اگر ساتھ نہیں لیں گے تو سر پر یہ خوف سوار رہے گا کہ پیپلز پارٹی کہیں بادشاہ گروں سے علیحدگی میں کوئی معاملہ نہ کر لے۔
اُدھر اعجاز چوہدری صاحب پھول لے کر سعد رضوی کے حضور پیش ہو چکے۔ ممکن ہے اسی طرح کے پھول لیے وہ منصورہ بھی جا پہنچیں۔ کہتے ہیں کہ پنجاب میں سیاست ایک نئی کروٹ لے گی اور مذہب اس میں اہم کردار ادا کرے گا۔ پی ایم ڈی اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتی۔مولانا فضل الرحمن مذہبی معاملات میں پیپلزپارٹی سے مختلف سوچ رکھتے ہیں۔مولانا کی سیاست اگرچہ سیکولر ہے لیکن وہ مذہبی کارڈ کو کسی دوسرے کے حوالے نہیں کرنا چاہیں گے۔اسی لیے وہ تحریکِ لبیک سے اظہارِ یک جہتی کر چکے‘ جیسا کہ مفتی منیب الرحمن نے بتایا۔
یہ تو انتخابی مرحلے کی بات ہے لیکن اسے آج اس لیے زیرِ بحث آنا ہے کہ پی ڈی ایم فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اس مطالبے کے لیے ضروری ہے کہ انتخابات کا امکانی منظر نامہ ابھی سے سامنے رہے۔چھ دسمبر کے اجلاس میں ان باتوں کے بارے میں کوئی اتفاق رائے پیدا ہو گا تب ہی بات آگے بڑھ سکے گی۔میرا خیال ہے کہ اتنے تضادات کا حل ممکن نہیں کہ ایک اجلاس میں تلاش کیا جا سکے۔ یوں بات کسی اگلے اجلاس تک چلی جائے گی۔
چند ماہ مزید گزر گئے تو حکومت کے چار سال مکمل ہو جائیں گے۔اس کے بعد 'فوری‘ انتخابات کا مطالبہ بے معنی ہو جا ئے گا۔یوں بھی انتخابات کوئی کھیل نہیں۔ انتظامات ہی کے لیے کئی مہینے چاہیں۔اپوزیشن ای وی ایم کے معاملے کو عدالت میں لے جانے کا اعلان کر چکی۔ایسے مقدمات کے فیصلے دنوں میں نہیں ہوتے۔ نئے انتخابات کے لیے ان مقدمات کا فیصلہ ضروری ہے۔حکومت چاہے تو اس مقدمے کو مہینوں تک لٹکا سکتی ہے کہ وہ بھی ایک فریق ہے۔اس کے بعد فوری انتخابات کا مطالبہ بے معنی ہو جا ئے گا۔
پی ڈی ایم سے زیادہ‘تضادات کے ساتھ نباہ کا مسئلہ خود نون لیگ کو در پیش ہے۔نوازشریف اور مریم نواز کے موقف میں کوئی لچک نہیں اور شہباز شریف سراپالچک ہیں۔ اگر نون لیگ نوازشریف صاحب کے بیانیے کو لے کر چلتی ہے توتنظیم یہ بوجھ اٹھا نہیں سکتی۔شہباز شریف صاحب کی سنی جائے تو بیانیے کو بالائے طاق رکھنا پڑتاہے۔ نواز شریف صاحب سے منسوب عوامی تائید کواب تک منظم نہیں کیا جا سکا۔ یہ ایسی لہر ہے جس میں سیلِ رواں بننے کی سکت نہیں۔اس کا ظہور انتخابات میں ہو سکتا ہے۔ فوری انتخابات کے لیے مگراس لہر میں اضطراب ضروری ہے اور اس کے آثار موجود نہیں۔
دوسری طرف آڈیو وڈیو کے کھیل نے نظام ِ کہنہ کو مزید مضبوط کیا ہے۔ اس نے' سٹیٹس کو‘ کی سب قوتوں کو اتحاد کا پیغام دیا ہے کہ بقا کا تقاضا یہی ہے۔ ممکن ہے فریق ثانی کی طرف سے بھی سچی جھوٹی وڈیوز سامنے آئیں۔مجھے نہیں لگتا کہ یہ مہم جوئی سیاسی عمل پر زیادہ اثر انداز ہو پائے گی۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس نے بھی بتا دیا کہ پیج اپنی جگہ موجود ہے۔اقتدار کے کسی مرکز میں کسی نئی سوچ کا گزر نہیں۔معلوم یہی ہوتا ہے کہ تاریخ کو دہرایا جائے گا‘چند کردار البتہ بدل سکتے ہیں۔
اپوزیشن کی اس سے بڑھ کر ناکامی کیا ہوگی کہ موجِ گرانی سر تک آ پہنچی مگروہ عوام کو متحرک کرنے میں کامیاب نہیں۔اس میں مزید اضافہ ہو ناہے اوروزیراعظم یہ خبر سنا چکے۔ مہنگائی کے خلاف شروع ہونے والے مظاہرے کسی حکومت مخالف تحریک میں نہیں ڈھل سکے۔اب تو مظاہروں کی خبر سنائی دیتی ہے نہ دکھائی۔ پی ڈی ایم کے نام سے کوئی تنظیمی ڈھانچہ موجود نہیں جو اس تحریک کو گلی محلے تک منظم کر سکتا ۔کسی رکن جماعت نے بھی کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔عوام مہنگائی سے پریشان ہیں ‘مگر اپوزیشن کے طرف بھی امید بھری نظروں سے نہیں دیکھ رہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ حکومت عوام میں مقبول ہے۔حکومتیں کم ہی مقبول ہو تی ہیں‘بالخصوص ایسے حالات میں جب مسائل ان کی تدبیر سے کہیں بڑے ہوں۔ پاکستان جیسے ممالک میں یہ بات کسی سیاسی کارنامے سے کم نہیں کہ کوئی سیاسی حکومت پانچ سال مکمل کر جائے۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت حکومت کا ہدف بھی یہی ہے۔ آخری سال میں وہ ترقیاتی منصوبوں سے انتخابی نتائج کو متاثر کرنے کی کوشش کرے گی۔ یہ حکمتِ عملی لازم نہیں کہ ناکام ہو۔ حلقے کی سیاست اس سے متاثر ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس وقت پی ڈی ایم کے دامن میں کیا ہے؟ ایجابی طور پر نواز شریف کا بیانیہ اور سلبی طور پر حکومت کی ناکامیاں۔ بیانیہ پہلے دن سے اس کے پاس موجود تھا۔ ناکامیاں ساڑھے تین سال کی دین ہیں۔ یہ بات اب واضح ہو چکی کہ پی ڈی ایم ان سے کوئی سیاسی مفاد کشید کرنے میں ناکام رہی۔ رہی پیپلز پارٹی تو اس کا کوئی بیانیہ ہی نہیں۔ ان حالات میں اگر مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم کی صدارت چھوڑنا چاہتے ہیں تو اس کی مایوسی پوری طرح قابلِ فہم ہے۔
ہم آج ایک عجیب صورتِ حال کا شکار ہیں۔سب اپنے اپنے تضادات کی گرفت میں ہیں۔ایسی صورت میں مکمل کامیابی کسی ایک فریق کے حصے میں نہیں آسکتی۔ اپوزیشن کامعاملہ بھی یہی ہے۔اپوزیشن اگر آج یک سو ہو جائے توبھی اسے کوئی جزوی کامیابی ہی مل سکتی ہے۔اگر اس کے مطالبے پر چار سال بعد 'فوری‘ انتخابات ہو بھی جائیں تواسے جزوی کامیابی قرار دینا بھی مشکل ہے۔'صبح د م کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا‘۔
شیخ رشید صاحب کا کہنا ہے کہ موجود حکومت اس لحاظ سے پاکستان کی سب سے خوش قسمت حکومت ہے کہ اسے یہ اپوزیشن ملی۔ شیخ رشید صاحب کی سیاست اور خیالات سے اتفاق ایک مشکل کام ہے لیکن اس بات میں اختلاف مشکل ہے۔