دو نقطہ ہائے نظراس وقت ہمارے سامنے ہیں:
ایک :قومی سیاسی جماعتیں ناکام ہو چکیں۔قوم کو‘ لہٰذا نئی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے۔دوسرا:اگر قومی جماعتوں سے عوام کا اعتماد ختم ہوا تو ان کی جگہ مذہبی جماعتیں لے لیں گی‘جس سے مذہبی انتہا پسندی‘سیاست میں بھی در آئے گی۔
پہلے نقطہ نظرکا جائزہ پہلے۔تحریکِ انصاف سامنے آئی تو اسے' تیسری قوت‘کا نام دیا گیا۔جواز اُ س وقت بھی یہی پیش کیا گیاکہ دو بڑی جماعتیں ناکام ہوچکیں‘اس لیے ایک نئی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے۔ تشریح یہ کی گئی کہ یہ دراصل روایتی سیاست دان ہیں جو کبھی ایک جماعت کا چولا پہن لیتے ہیں اور کبھی دوسری کا۔دراصل یہ ایک ہی جماعت ہے۔قوم کو اس روایتی سیاست سے نجات دلانا از بس ضروری ہے۔اس لیے ایک نئی سیاسی جماعت کا قیام ناگزیر ہو چکا۔
عمران خان صاحب سیاست کے لیے ایک اجنبی چہرہ تھے۔ یوں انہیں نیا کہا جا سکتا تھا۔نوجوانوں کے ایک طبقے میں ان کی مقبولت پہلے سے موجود تھی۔اس طرح تحریکِ انصاف قوم سیاسی جماعتوں کی صف میں شامل ہو گئی۔ 2018ء کے سرکاری انتخابی نتائج کے مطابق‘تحریکِ انصاف ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے۔آج اسے اقتدار میں آئے ساڑھے تین سال ہونے کو ہیں۔لوگوں نے دیکھا کہ اس میں عمران خان صاحب یا ایک آدھ چہرے کے علاوہ کچھ نیا نہیں ہے۔ تصورِ حکومت اورسیاسی حکمتِ عملی کے اعتبار سے بھی کچھ نیا پن سامنے نہیں آ سکا۔ایسا کیوں ہوا؟
رائج الوقت تصورِ حکومت ایک ہی ہے جسے تینوں بڑی سیاسی جماعتیں اپنائے ہوئے ہیں۔یہ تصورِحکومت کہتا ہے کہ معاشی حکمتِ عملی کی تشکیل کیلئے آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں کی طرف رجوع کیا جائے۔ان سے قرض لیا جائے اور پھر ان کے مشورے سے معاشی اصلاحات متعارف کرائی جائیں۔اقتصادی پالیسی کے اہم ترین ستون ان کی مشاورت سے کھڑے کیے جائیں۔یہ ہیں وزیر معاشیات‘گورنر سٹیٹ بینک اور چیئرمین ایف بی آر۔ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسی سے ہم آہنگ اور ان کی ہدایت کے مطابق اصلاحات متعارف کرائیں اور حکومت ان پر عمل درآمد کی پابند ہو۔اس کے جواب میں ہمیں قرض ملتا رہے۔
کم و بیش تمام ترقی پذیر ممالک نے یہی معاشی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ماضی میں بھی ہماری معاشی پالیسی یہی تھی اور آج بھی یہی ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ حکومتوں نے آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک جیسے اداروں کے ساتھ اپنے اپنے انداز میں معاملہ کیا۔کسی نے ایک شرط مانی اور کسی نے دوسری۔کسی نے سب مان لیں۔یہی معاملہ سیاسی حکمتِ عملی کا بھی ہے۔گویا تحریکِ انصاف کی آمد سے بھی سیاست میں کچھ نیا پن نہیں آسکا۔
سوال یہ ہے کہ اگر گزشتہ تجربہ کامیاب نہیں رہا تو نیا کیسے کامیاب ہو گا؟ جس نئی سیاسی قوت کی بات ہو رہی ہے‘اس کی کیا ضمانت ہے کہ وہ سیاست کو کچھ نیا دے گی؟ میرا خیال ہے کچھ نیا نہیں ہو نے والا۔نئی سیاسی جماعت بنانے کا نتیجہ بھی وہی ہو گا جو پہلے تجربات کا ہوا۔موجود سیاسی جماعتوں سے لوگ نکلیں گے یا نکالے جائیں گے اوروہ'نئی سیاسی جماعت‘ بنا لیں گے۔یہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتاہے؟ سیاسی عمل خلا میں آگے بڑھ سکتا ہے نہ مصنوعی طریقے سے۔سیاست فطری طریقے سے آگے بڑھتی ہے۔ سیاست ہمیشہ سماجی محرکات اور حقائق کے زیرِ اثرہوتی ہے۔ جب میں سیاسی عصبیت کا نام لیتا ہوں تو دراصل ایسی ہی ایک حقیقت کی طرف متوجہ کر تاہوں۔سیاست کی باگ ہمیشہ ان لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے جنہیں یہ عصبیت حاصل ہو جائے۔صدیوں سے یہی ہوتا آیا ہے۔ جمہوریت نے اس کے اسباب پیدا کیے کہ نئی عصبیتیں جنم لے سکیں۔ جمہوریت میں عصبیت سیاسی جماعتوں کو منتقل ہو جاتی ہے۔ان کی تنظیم اگر جمہوری اصولوں کے تابع ہو تو ان کے اندر نئی قیادت کے ابھرنے کا پوشیدہ امکان امرِواقعہ بن جاتا ہے۔یوں سیاست اصول میں موروثی نہیں بنتی۔ میرا احساس یہ ہے کہ موجود سیاسی جماعتوں کو آزادانہ طریقے سے کام کر نے دینا چاہیے۔میڈیا اور سول سوسائٹی‘ان پر اپنا دباؤ ڈالتے رہیں تاکہ ان میں جمہوری کلچر فروغ پائے۔ان جماعتوں میں یہ صلاحیت پیدا ہو کہ ان میں نئے لوگ جگہ بنا سکیں۔اگر یہ حکمتِ عملی صرف چند سال تک اپنا تسلسل برقرار رکھ سکے تو مجھے یقین ہے کہ ہماری سیاسی سمت درست ہو سکتی ہے اور ملک میں سیاسی استحکام آ سکتا ہے۔اصلاح کا یہی واحد ذریعہ ہے۔ کسی نئے سیاسی تجربے کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ان کا ناگزیر انجام سیاست کے روایتی سمندر میں گم ہو جا نا ہے۔
اب آئیے دوسرے نقطہ نظر کی طرف۔یہ درست ہے کہ سادہ حل‘کتنا غیر حقیقی کیوں نہ ہو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔جیسے ہمارے مسائل کا حل اسلامی نظام میں ہے۔اس لیے اسلام کو نافذ ہونا چاہیے۔یا کرپشن ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔اگر ملک کا وزیر اعظم دیانتدار ہو تو نوے دن میں کرپشن ختم ہو سکتی ہے۔ان سب نعروں کی ناکامی اور کھوکھلا پن طشت ازبام ہو چکا۔ اس کے باجود‘کچھ لوگ اس کے اسیر رہیں گے جیسے اشتراکیت کو ماننے والے آج بھی موجود ہیں درآں حالیکہ اس کی ناکامی پر تاریخ اپنی مہر ثبت کر چکی۔اس با ت کا لیکن کوئی امکان نہیں کہ تحریکِ لبیک جیسی جماعتیں کبھی سیاست کے مرکزی دھارے میں کوئی فیصلہ کن کردار ادا کر سکیں۔اس کی صرف ایک ممکنہ صورت ہے۔کوئی اس طرح کے بہت سی مذہبی جماعتوں اور گروہوں کو ملا کر پاکستان قومی اتحاد جیسا کوئی اتحاد بنوا دے۔اس سے بھی قومی سیاست میں ایک ہلچل توپیدا سکتی ہے کوئی سیاسی تبدیلی نہیں آ سکتی۔پی پی 206کے ضمنی انتخابات کا نتیجہ اس عمل کو سمجھنے میں کسی حد تک معاون ہوگا‘اگرچہ ایک حلقۂ انتخاب کے نتیجے پر قومی سیاست کے رجحان کو قیاس کرنادرست نہیں۔ان انتخابات میں جماعت اسلامی نے تحریکِ لبیک کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ سعد رضوی صاحب بھی انتخابی مہم میں شریک ہیں۔اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتیں کیا سوچ رہی ہیں۔
اگر قومی سیاسی جماعتوں کو موقع ملا اور انہوں نے جرأت کے ساتھ عوامی رابطہ مہم منظم کی تو میرا خیال ہے کہ اس طرح کے مذہبی گروہ سیاست میں غیر مؤثر رہیں گے۔اگر حسبِ روایت قومی سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنے کی پالیسی جاری رہی‘ان کے خلاف پھر مذہبی کارڈ استعمال کرتے ہوئے‘ان گروہوں کو متبادل سیاسی قوت بنانے کی مصنوعی کوشش ہوئی تو مجھے خدشہ ہے کہ یہ حکمتِ عملی قومی وحدت کے لیے تباہ کن ہو سکتی ہے۔ اس کی باگ بالآخراتحاد سازوں کے ہاتھ سے نکل جائے گی اورہم ایک خطرناک صورتِ حال سے دوچار ہوجائیں گے۔ روایتی سیاستدانوں کی کمزوریوں کو آپ جس مبالغے کے ساتھ چاہیں‘بیان کر سکتے ہیں مگر سیاسیات کے ایک طلب علم کے طورپر‘میرا کہنا یہ ہے کہ اگر ان کے سر سے سرپرستی کی اور خوف کی چادر اتر جائے تویہی جماعتیں سیاسی و معاشی استحکام کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔آزاد میڈیا اور عدلیہ ان کا احتساب کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر حل تباہی اور بربادی کا پیغام ہے۔ان جماعتوں کو کمزور کر کے جب ہم ایک مصنوعی خلا پیدا کرتے اور اسے مصنوعی سیاسی قوتوں سے بھرتے ہیں تو سیاست کو اس کی فطری ڈگر سے ہٹا دیتے ہیں۔ نئی سیاسی قوت‘اس لیے ایک نیا جال ہے‘جس سے بچنا ضروری ہے۔