کشمیر پر کیا لکھا جائے؟
کیا یہ کہ ہم آزادی کی جد وجہدمیں اہلِ کشمیر کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں؟ لکھنے کوتو میں لکھ ڈالوں مگر اس کاا عتبار کون کرے گا؟ پھریہ سوال ہے کہ اس کا مخاطب کون ہے؟بھارت؟بھارت کے حکمران یہ سنیں گے تو ان کا ردِ عمل کیا ہوگا؟ایک قہقہہ جو کہہ رہا ہوگا کہ کشمیریوں کا شانہ تو برسوں سے خالی ہے۔ان کے ساتھ تو کوئی نہیں۔ وہ سرِ مقتل تنہا کھڑے ہیں۔ اپنے ہی لہو میں تیرتے ہیں۔ کچھ ابھر جاتے اور کچھ ڈوب جاتے ہیں مگر ڈوبتے ڈوبتے مشعل نئے جواں ہاتھوں کو تھما جاتے ہیں۔ غاصب ریاست جب چاہے‘ ان کو خون میں نہلا دے۔ چاہے تو ان کی آئینی حیثیت تبدیل کر دے۔ کسی محاذ پر کوئی ان کے ساتھ نہیں کھڑا۔ نہ سفارتی نہ سیاسی۔
تو کیا میرا مخاطب اہل ِکشمیر ہیں؟ ان کی مجبوری یہ ہے کہ وہ اخوت کے رشتے میں قید ہیں۔ محبت نے ان کے منہ پر تالا لگا دیا ہے۔ وہ مجھ سے شکایت بھی نہیں کر سکتے کہ ہم ہر دن اپنے شانے کی طرف دیکھتے ہیں کہ شاید اخوت کا رشتہ نبھانے کوئی آ جائے۔ ان کا یہ انتظار ختم ہونے کو نہیں آرہا۔یہ الگ بات ہے کہ ہم سے ان کی ا مید بھی ختم نہیں ہوتی۔ شاید ہمارا خون کبھی جوش مارے۔ شاید ہماری محبت جاگ اٹھے۔ شاید کوئی جبر کے خلاف ان کے ساتھ کھڑا ہو جائے۔
تو کیا ہم یہ بات عالمی برادری کو سنائیں گے؟ بھارت نے ہر بین الاقوامی معاہدے کو پامال کیا۔ کشمیر کی آ ئینی حیثیت کو تبدیل کیا‘حالانکہ یہ اقوام ِ متحدہ کی قراردادیں ہوں یا شملہ معاہدہ‘ سب کا بدیہی تقاضا ہے کہ وہ کشمیر کی متنازع حیثیت کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ ہم نے مگرکب کوئی سفارتی مہم چلائی کہ عالمی برادری کو اس جانب متوجہ کریں؟ ہم نے کب مسلم ممالک کو جمع کیا کہ وہ ہمارے دوست نہیں بن سکتے تو غیر جانب دار ہو کر ہی کشمیر پر بات کریں؟ کیا ہمارا خیال یہ ہے کہ 5 فروری کو ہم پاکستان کی سڑکوں پر نعرے بلند کریں گے اور ساری دنیا سن لے گی کہ بھارت نے کیسے بین الاقوامی معاہدوں کو پامال کیا ہے اور اس کے خلاف متحد ہو جائے گی؟ کیا میرا کالم اقوامِ متحدہ کے ایوانوں میں پڑھاجائے گا اوراس سے اثر لیتے ہوئے عالمی برادری بیدار ہوجائے گی؟ امتِ مسلمہ جوش میں آ جائے گی؟
میں پھر کشمیر پر کیا لکھوں؟ کیا یہ کہ ہم نے کشمیر کی آزادی کے لیے بڑی قربانی دی ہے‘ایسی قربانی کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے؟ جیسے ہم نے شاہراہِ کشمیر کانام شاہراہِ سری نگر رکھ دیا؟ لکھنے کو تومیں لکھ ڈالوں مگر کیا ا س کے بعد اپنے گریبان میں جھانک سکوں گا؟ کشمیری یا دنیا والے میری اس قربانی کا اعتراف کریں یا نہ کریں‘پہلے تو مجھے یہ دیکھنا ہے کہ یہ بات کہتے ہوئے‘کیا میں خود اپنے ساتھ کھڑا ہوں؟ دنیا کا سامنا کرنے سے پہلے مجھے اپنا سامنا کرنا ہے۔
ہم نے افغانستان کو سوویت یونین کے تسلط سے آزاد کرانے کے لیے جو کچھ کیا‘اگر اس کا دس فیصد بھی کشمیر کی آزادی کے لیے کرتے تو کشمیر کا فیصلہ ہو چکا ہو تا۔ افغانستان کے لیے ہم نے اپنی ریاست اور سماج‘دونوں کو داؤ پر لگا دیا۔ پوری نسل کو ایسی آگ میں جھونک دیا جس کے شعلے کم ہونے کو نہیں آرہے۔ آئے دن راکھ کے اس ڈھیر سے کوئی نہ کوئی چنگاری بھڑکتی اور شعلہ بن جا تی ہے۔ سوویت یونین ختم ہو گئی۔ امریکہ حواریوں کے ساتھ اپنے گھر چلا گیا۔ ہمارے جوان ابھی تک قربان ہو رہے ہیں۔
ہم افغانستان کے لیے سوویت یونین جیسی عالمی قوت سے ٹکرا گئے مگر کشمیر کے لیے بھارت سے پنجہ آزما نہ ہوئے۔ اگر شاہراہوں کے نام تبدیل کر نے سے قومیں آزاد ہو سکتیں تو ہم نے یہ فارمولا افغانستان کے معاملے میں کیوں نہ آزمایا؟ جی ٹی روڈ کا نام شاہراہ کابل رکھ دیتے‘ سوویت یونین افغانستان سے بھاگ جاتا۔ پورے ملک کو کیوں ایک اضطراب میں ڈالا؟ پنجگور اور نوشکی میں‘وہ کون سا قرض ہے جسے اتارنے کے لیے ہمارے جوان اپنی جانیں پیش کر رہے ہیں؟
توپھرکشمیر پر میں کیا لکھوں؟ کیا یہ کہ ہم نے روزِ اوّل سے جو پالیسی اپنائی‘وہ درست نہیں تھی؟ کیا میں لکھوں کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے موقف سے لے کر ‘حکومتِ پاکستان کی خارجہ پالیسی تک‘ہم نے کبھی حقیقت پسندی کے ساتھ اس قضیے کا جائزہ نہیں لیا؟ مسلح تحریک یا سیاسی جد وجہد‘ کشمیر کی آزادی کے لیے بہتر حکمتِ عملی کیا ہو سکتی ہے؟ کیا میں یہ سوال اٹھاؤں؟ کیا میں ان گروہوں کی بات کروں جو پاکستان کے گلی بازاروں میں عوام کے جذبات سے کھیلتے رہے؟ کیا ہم میں یہ حوصلہ اور صلاحیت ہے کہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کر سکیں؟ میں جانتا ہوں کہ میری قوم خود احتسابی کی خوگر نہیں۔ ایسی ہر بات اس کی سماعتوں سے ٹکراتی اور ہوا میں بکھر جا تی ہے۔
اگر یہ بھی نہیں تو پھر مسئلہ کشمیر کا کون سا پہلو ہے جس پر کلام کیا جائے؟کیا اس مسئلے پرمزید کچھ لکھنے کی ضرورت ہے؟ کیا اس مقدمے کو مزید دلائل کی حاجت ہے؟ ان گنت پاکستانی ا ور غیر پاکستانی محقق اس پر قلم اٹھا چکے۔ میرے ماموں ڈاکٹرممتاز احمد مرحوم نے 1960ء کی دہائی میں اس پر اردو زبان کی پہلی محققانہ کتاب لکھی۔ اس کا ایک امتیاز یہ ہے کہ اس کا دیباچہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے لکھا۔ غیر ملکی اہلِ علم تو یہاں تک بتا چکے کہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کی دستاویز‘ جو مہاراجہ سے منسوب ہے جعلی ہے۔ آج تک اس کی اصل کو کسی آنکھ نے نہیں دیکھا۔ آخر کشمیر پر اور کیا لکھا جا سکتا ہے؟
کیا میں پاکستان کے اہلِ اقتدار کو متنبہ کروں کہ مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کے نام پر ایک نیا ڈرامہ رچایاجا رہا ہے؟ انتخابی نشستوں میں اس طرح اضافہ کیا گیا ہے کہ کشمیریوں کی نمائندگی خود کشمیر کی اسمبلی میں کم ہو جائے۔ آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کاکام تو برسوں سے جاری ہے۔ کشمیر فلسطین بنتا جا رہاہے جہاں مقامی لوگ اپنے آبائو اجداد کی سرزمین پر اجنبی بن گئے ہیں۔ کیا میں اس پر لکھوں؟ پھر سوچتا ہوں اس کا کوئی فائدہ ہے؟ جس بات سے میں باخبر ہوں ‘کیا ہماری ریاست نہیں ہے؟ وہ اس کی روک تھام کے لیے کیا کر سکتی ہے یا اس نے مقبوضہ کشمیر کے آئینی سٹیٹس کی تبدیلی پر کیا کیاجو اَب کرے گی؟
اگر مسئلہ کشمیر کے کسی بھی پہلو پر لکھنا لاحاصل یا تحصیلِ حاصل ہے تو کیا خاموش رہوں؟ قلم رکھ دوں یا کسی اور موضوع کا انتخاب کروں؟ موسم کا حال لکھوں؟ ملک میں پھیلتی بے اخلاقی کا نوحہ قلم بند کروں؟ نئی نسل کی مبینہ بے راہ روی پر اظہارِتشویش کروں؟ پھر خیال آتاہے کہ سارا سال ان موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔ اخباری کالم کا تقاضا ہے کہ موقع کی مناسبت سے لکھا جائے۔ کالم نے 5 فروری کو چھپنا ہے تو مناسب یہی ہے کہ کشمیر پر لکھا جائے۔روایت بھی ہے کہ اس دن اخبارات میں اس موضو ع پر کالم اور مضامین شائع ہوتے ہیں۔ ہم روایتی لوگ ہیں۔روایت کا احترام کرتے ہیں۔
توقارئینِ کرام! آج کا کالم اہلِ کشمیر کے نام ۔ بھارت کا ریاستی ظلم بڑھتا جا رہا ہے‘ مگر میرے کشمیری بھائیو اور بہنو‘آپ نے گھبرانا نہیں۔ ہم آپ کے شانے سے شانہ ملا کر کھڑے ہیں اور اس وقت تک کھڑے رہیں گے جب تک کشمیر آزاد نہیں ہو جا تا۔ ہم کشمیر کے لیے ہزار سال تک لڑیں گے۔ ہم...