رمضان المبارک کے بابرکت شب و روز میں، مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی ''آسان تفسیرِ قرآن‘‘ زیرِ مطالعہ ہے۔ مجھے خیال ہوا کہ قرآن مجید کے اپنے جیسے طالب علموں کو اس جانب متوجہ کروں۔
ہر علم کی طرح علمِ تفسیر میں بھی کئی مکاتبِ فکر ہیں۔ سب سے مقبول 'تفسیرِ ماثور‘ ہے۔ یہ روایات اور قدیم تفسیری اقوال کی روشنی میں قرآن مجید کی تفہیم ہے۔ اس کے حق میںدلیل یہ ہے کہ جو لوگ عہدِ رسالت سے قریب تر تھے، ان کا فہمِ قرآن زیادہ قابلِ بھروسہ ہے، اس لیے محفوظ راستہ یہی ہے کہ اس سے انحراف نہ کیا جائے، الا یہ کہ کوئی نیا مسئلہ اسے ناگزیر بنا دے۔ اسی لیے اسے 'تفسیر بالروایہ‘ بھی کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں اکثر تفاسیر اسی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتی ہیں۔ تفسیر ابنِ کثیر اس کی نمائندہ ہے۔
اردو زبان میں زیادہ تر تفاسیر، تفسیر ابنِ کثیر ہی کو سامنے رکھ کر لکھی گئیں جس میں ایسے آثار پائے جاتے ہیں جنہیں نسبتاً مستند سمجھا گیا ہے۔ اردو زبان میں مفتی محمد شفیع مرحوم کی تفسیر 'معارف القرآن‘ کی وہی حیثیت ہے جومجموعی تفسیری ادب میں تفسیر ابنِ کثیر کو حاصل ہے۔ 'آسان تفسیرِ قرآن‘ کو 'معارف القرآن‘ کا اگلا ایڈیشن یا اس کی توسیع سمجھنا چاہیے۔ 'معارف القرآن‘ اضافوں کے ساتھ، مولانا اشرف علی تھانوی کی 'بیان القرآن‘ کی تسہیل ہے جسے 'خلاصہ تفسیر‘ کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے۔ مفتی تقی عثمانی صاحب نے کوشش کی ہے کہ جدید اردو نثر سے مانوس لوگوں کے لیے اس تفسیری روایت تک رسائی کو سہل بنا دیا جائے؛ تاہم، یہ محض تسہیل نہیں، اس میں اضافہ بھی ہے۔
یہ دراصل مفتی صاحب کے دروس کی تحریری صورت ہے۔ مولانا راشد حسین صاحب نے تقریر کو تحریرکی صورت دی۔ دروس میں جہاں کہیں کسی آیت، حدیث یا تفسیر وغیرہ کا ذکر آیا ہے تو اس کا حوالہ تلاش کرکے، اسے درج کر دیا ہے جسے تخریج کہتے ہیں۔ پھر مفتی صاحب نے اسے ایک سے زیادہ بار دیکھا اوراب یہ اس شکل میں ہمارے سامنے ہے کہ خود مفتی صاحب کے الفاظ میں 'گویا یہ خود میری لکھی ہوئی ہے‘ (پیش لفظ)۔ 'معارف القرآن‘ سے اس تفسیر کی ایک اور دلچسپ مماثلت یہ ہے کہ مفتی شفیع صاحب نے بھی پہلے ریڈیو کیلئے تفسیرِ قرآن کا آغاز کیا تھا جو سورہ ابراہیم ہی تک جاری رہ سکا۔ اس سے متاثر کچھ لوگوں کے اصرار پر، اس تفسیر کا خاکہ ابھرا، اگرچہ 'بیان القرآن‘ کی تسہیل پہلے ہی ان کے علمی منصوبوں میں شامل تھی۔
'آسان تفسیرِ قرآن‘ کے آغاز میں، اہم تفسیری معلومات کو یکجا کر دیا گیا جو مطالعہ قرآن سے پہلے قاری کے علم میں ہوں تو قرآن فہمی کا سفر آسان تر ہو جاتا ہے۔ جیسے وحی بحیثیتِ ذریعہ علم، وحی کی اقسام، تاریخِ نزولِ قرآن، تفسیرِ قرآن کے مآخذ۔ اس وقت تک، اس کی دو جلدیں ہی شائع ہو پائی ہیں جو سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کی تفسیر پر مشتمل ہیں؛ تاہم اس کی تدوین کا سلسلہ جاری ہے۔
مفتی تقی عثمانی زبان کا اچھا ذوق رکھتے ہیں۔ صاحبِ دیوان شاعر بھی ہیں۔ یہ ذوق ان کے خاندان کا امتیاز ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس تفسیر کی زبان آج کی اردو ہے جس نے اسے جدید پڑھے لکھے قاری کے لیے قدیم تفاسیر کے برعکس، مانوس بنا دیا ہے۔ مطالعے کے دوران اس کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ لکھتے وقت مفتی صاحب کے پشِ نظر جدید پڑھا لکھا قاری ہے، جسے قرآن مجید کے مضامین سے متعارف کرانا مقصود ہے۔ یہ قدیم بات کا جدید اسلوب میں بیان ہے۔ میںاس بات کو میں ایک مثال سے واضح کرتا ہوں۔
قرآن مجید میں قصہ آدم و ابلیس بیان ہوا ہے۔ الہامی لٹریچر میں اس قصے کی خاص اہمیت ہے۔ یہ بائبل میں بھی درج ہے۔ اس باب میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ خلافت اور خلیفہ سے کیا مراد ہے؟ مفتی صاحب ایک طرف اس کو عمومی مفہوم میں لیتے ہیں اور دوسری طرف خصوصی مفہوم میں۔ وہ لکھتے ہیں کہ 'انی جاعل فی الارض خلیفہ‘ کا مطلب یہ ہے کہ میں زمین میں ایک ایسی نئی مخلوق پیدا کرنے والا ہوں جو زمین پہ میرے نائب کے طور پر میرے دیے ہوئے احکام کو نافذ کرے۔ اس کے مطابق دنیا کا نظام قائم کرے اور اس کے مطابق اپنی زندگی گزارے‘۔ (صفحہ 240)
خاص مفہوم میں، وہ اس خلافت کو انبیا تک محدود کرتے ہیں: ''اللہ تعالیٰ کی خلافت حضرت آدم سے شروع ہوئی اور حضور نبی کریمﷺ تک ہزاروں بلکہ لاکھوں انبیا اللہ تعالیٰ کے خلیفہ بن کر تشریف لائے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی خلافت کا یہ سلسلہ حضور خاتم النبیینﷺ پر ختم ہوا۔ آپ آخری نبی بھی تھے اور آخری خلیفہ بھی‘‘۔ مفتی محمد شفیع مرحوم کا موقف بھی یہی ہے۔ قرآن مجید کے ایک طالب علم کے طور پر جب میں نے اس عام اور خاص مفہوم میں تطبیق پیدا کرنا چاہی تو مجھے مشکل پیش آئی۔
اگر نبیﷺ آخری خلیفہ ہیں تو بنی آدم کی خلافت کا مفہوم کیا ہوگا؟ کیا آج کا انسان اللہ کا خلیفہ نہیں ہے؟ پھر یہ کہ قرآن مجید میں کہیں اللہ نے کسی پیغمبر کواپنا خلیفہ نہیں کہا۔ پیغمبروں کو نذیر، بشیر، داعی الیٰ اللہ، سراجِ منیر جیسے القابات کے ساتھ متعارف کرایا گیا لیکن کہیں یہ نہیں فرمایا کہ پیغمبر خلیفہ بھی ہوتا ہے۔ پھر اس الٰہی فیصلے پر فرشتوں نے جو استفسار کیا، اس استدلال سے، اس کا جواب بھی نہیں ملتا۔ پیغمبر کسی طرح اس کا مصداق نہیں سمجھے جا سکتے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اگلے ایڈیشن میں خلافت سے متعلق اس نوعیت کے سوالات کو سامنے رکھتے ہوئے، اس میں ضروری اضافہ کردیا جائے۔ بعض دوسرے مفسرین کے نزدیک، خلیفہ سے مراد ایک 'صاحبِ اختیار مخلوق‘ ہے۔ اسے درست مان لیا جائے تو فرشتوں کے استفسار کے حوالے سے کوئی اشکال باقی نہیں ہوتا۔
مفتی صاحب بیان کرتے ہیں کہ شیطان کے انکار کی وجہ تکبر ہے لیکن وہ اس کی عقلی توجیہ بھی کرتا ہے کہ میں انسان سے برتر ہوں۔ یہاں سے مفتی صاحب یہ نکتہ پیدا کرتے ہیں کہ 'حکمِ خداوندی کے سامنے عقلی گھوڑے دوڑانا کافرانہ روش ہے‘ (صفحہ254)۔ قصہ آدم وابلیس کی زمین پر سکونت کے حوالے سے وہ قدیم مفسرین کی یہ رائے بھی نقل کرتے ہیں کہ 'اس میں اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ میاں بیوی دونوں ایک جگہ رہ کر زندگی گزاریں اور حتی الامکان کوشش کریں کہ وہ ایک ساتھ سکونت اختیار کریں۔‘‘ اور ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کھانے میں میاں بیوی ایک دوسرے کے تابع نہیں ہیں۔‘
محترم مفتی صاحب نے تمہیدی مباحث میں پیغمبروں کی طرف آنے والی وحی کی اقسام کا ذکر کیا ہے لیکن اس میں خواب کو شامل نہیں کیا۔ اسی طرح سورہ بقرہ کی تعارف میں لکھا کہ صحابہ نے جب قرآن مجید کی سورتوں کو جمع کیا تو بقرہ کو فاتحہ کے بعد رکھا۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ سورتوں کی ترتیب صحابہ کا اجتہادی فیصلہ تھا، درآں حالیکہ قرآن مجید کی آیات اور سورتوں کی ترتیب توقیفی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے طے کردہ ہے۔ اگلے ایڈیشن میں جملوں کی تدوینِ نو سے ان اشکالات کو دور کیا جا سکتا ہے۔
ان امور کی نشاندہی سے مقصود خدانخواستہ کوئی تنقید نہیں بلکہ ایک طالب علمانہ تاثر کا اظہار ہے۔ اس امید کے ساتھ کہ اگلے ایڈیشن میں مجھ جیسے کم فہم قاری کی ضروریات بھی حضرت مفتی صاحب کے پیشِ نظر رہیں۔ علوم القرآن، مقدمہ معارف القرآن اور قرآن مجید کے انگریزی ترجمے کے بعد، یہ حضرت مفتی صاحب کی بڑی خدمتِ قرآن ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے مصنف اور قارئین کے لیے باعثِ خیر بنائے۔