خبر ہے کہ اہلِ صحافت میں عمران خان صاحب کے ناقدین‘سلیم صافی صاحب‘ حامد میر صاحب‘عاصمہ شیرازی صاحبہ اور دیگرکے گھروں کے باہر‘اُسی طرح کی ہنگامہ آرائی کا منصوبہ بنایا گیاہے جیسی آئے دن لندن میں نواز شریف صاحب کی رہائش گاہ کے باہر ہو تی ہے۔
یہ سب ایک عرصہ سے دھمکیوں کی زد میں ہیں۔اب اندازہ ہو رہا ہے کہ دھمکیوں کو عملی شکل دینے کا وقت آ گیا ہے۔پولیس کو ان کے گھروں کے باہر تعینات کیا جارہا ہے۔ یہ صحافی عام لوگوں کے درمیان رہتے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ اس متوقع ہنگامہ آرائی سے‘نہ صرف یہ بلکہ وہ سب لوگ متاثر ہوں گے جو ان کے اڑوس پڑوس میں آباد ہیں۔یہ وہ انتہا پسندی ہے جو معاشروں کو پہلے خوف اور پھر فساد میں بدل دیتی ہے۔
اس سے پہلے‘ہم انتہا پسندی کا مذہبی روپ دیکھ چکے۔جن لوگوں نے مذہبی گروہوں کے بیانیے پر تنقید کی‘ان کا جینا دوبھر کر دیا گیا۔اُن کے لیے عام آبادیوں میں اپنے لوگوں کے ساتھ رہنا مشکل ہو گیا۔محترم جاوید احمدصاحب غامدی کا ادارہ لاہور کے ایک معروف علاقے میں تھا۔وہاں ان کے جریدے''اشراق‘‘ کے مدیر پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ گولی ان کے جبڑے کو چھوتی ہوئی گزر گئی۔زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں نہ ہوتی توبڑا حادثہ ہو سکتا تھا۔اس واقعے نے ارد گرد کے لوگوں کو بھی خوف میں مبتلا کردیااور انہیں اس ادارے کو بند کر نا پڑا۔
خود جاوید صاحب کا جس محلے میں قیام تھا‘اس کی مسجد کے نمازی وفد کی صورت میں‘اس پیغام کے ساتھ‘ان کے پاس آئے کہ آپ ہماری مسجد میں نماز کے لیے نہ آیا کریں۔آپ کی وجہ سے ہم خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ان کا یہ خوف بے وجہ نہیں تھا۔چند دنوں کے بعد انہیں یہ محلہ محض چند گھنٹوں کے نوٹس سے چھوڑنا پڑاکہ ان کی جان کے درپے لوگ ان کی دہلیز تک آ پہنچے تھے۔محلہ کیا‘ وہ تو ملک ہی چھوڑنے پر مجبور کر دیے گئے۔ صرف وہی نہیں‘ ڈاکٹر خالد ظہیر جیسے کتنوں کو میں جانتا ہوں جن کے لیے اپنے ملک میں رہنا ناممکن ہو گیا۔
اللہ کا شکر ہے کہ ریاست اور عوام کے عزم نے اس ملک کو انتہا پسندی کے اس خوف سے نکالا۔فوج‘پولیس اور قومی سلامتی کے اداروں سے وابستہ جوانوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھی اور ہماری آبادیوں‘گلیوں اور بازاروں کو محفوظ بنایا۔اپنی جانیں نچھاور کر کے‘عوام کو خوف کے حصار سے نکالا۔یہ آسان کام نہیں تھا۔اس میں لوگوں کی جانیں ہی نہیں گئیں‘اس انتہا پسندی نے ہمارا سماجی نظم بھی برباد کردیا۔ پاکستان وہ نہیں رہا جو 1980ء سے پہلے تھا۔اس نے سماجی اداروں کو بدل ڈالا اور معاشرے سے اس کا فطری حسن چھین لیا۔وہ مجالس اور سماجی ربط ایک حسرت بن گئے جو ہمارا امتیاز تھا۔ہم اس کی طرف لوٹ رہے ہیں لیکن جن نسلوں پر یہ ماہ و سال بیتے ہیں‘ان کا نارمل ہونا آسان نہیں۔
ہم ابھی تک مذہبی انتہا پسندی سے پوری طرح نہیں نکلے کہ اب سیاسی انتہا پسندی نے ہمیں گھیر لیا ہے۔آوازے کسنے کا کلچر اب پھیل رہا ہے۔ سیاست میں جس ہیجان کو بالارادہ فروغ دیا گیا‘وہ اب واقعات میں ڈھل رہا ہے۔اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں جو کچھ ہوا‘وہ اچانک نہیں تھا۔ اس حادثے کی برسوں پرورش کی گئی۔آج فسادیوںکے گروہ سیاسی لوگوں کا پیچھا کر تے ہیں۔یہ کسی خفیہ منصوبے کا حصہ نہیں‘ تحریکِ انصاف کی قیادت جلسوں میں اپنے کارکنوں کو ابھارتی ہے کہ اختلاف کرنے والوں کا گھیراؤ کیا جائے۔یہ گھیراؤ سوشل میڈیا سے شروع ہوااور اب لوگوں کے گھروں تک پہنچ گیا ہے۔
مذہبی انتہا پسندی اور اس سیاسی انتہا پسندی میں‘کم از کم اس مرحلے پر ایک جوہری فرق باقی ہے۔مذہبی انتہا پسند مسلح تھے۔ان کے ہاتھوں میں ہتھیارتھے۔عام آدمی ان کا مقابلہ نہیںکر سکتا تھا۔اس کا جواب صرف ریاست دے سکتی تھی۔سیاسی انتہا پسندی پہلے مرحلے میں غیر مسلح ہے۔اس وقت نعرہ بازی ہو رہی ہے اور آوازے کسے جا رہے ہیں۔پورا امکان ہے کہ جو ہدف ہیں‘ اپنی جان اور عزت کی حفاظت کے لیے جوابی وار کریں جس کاحق انہیں مذہب دیتا ہے اور قانون بھی۔اس لیے تصادم ناگزیر ہے۔بعض جگہ صرف ہاتھ چلیںگے جیسے میریٹ اسلام آباد میں ہوا لیکن ہر جگہ لازم نہیں کہ ایک طرح کا ردِ عمل ہو۔جب کوئی کسی کے گھر تک پہنچ جاتا ہے تو اس کا جواب مقامی کلچرل روایات کے تحت دیا جاتاہے۔پشاور میں ردِعمل وہ نہیں ہو گا جو اسلام کے ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں ہوا ہے۔
کیا ہمیں اندازہ ہے کہ یہ رویہ ہمیں کہاں لے جائے گا؟میں نے سوشل میڈیا پر وڈیوز دیکھی ہیں کہ لوگ شاہد خاقان عباسی صاحب اور مصدق ملک صاحب کا گھیراؤ کیے ہوئے ہیں اور ان پر آوازے کس رہے ہیں۔یہ رویہ ایک حد تک ہی قابلِ برداشت رہتا ہے۔سب لوگ ملک نہیں چھوڑ سکتے۔اس کا جبلی ردِعمل یہی ہے کہ وہ اپنی بقا کا سامان کریں۔اس کے نتیجے میں جو فساد برپا ہو گا‘اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
یہ کسی مفروضے کی بات نہیں ہو رہی۔ ایسے واقعات شروع ہو چکے ہیں۔ لندن میں گزشہ روز دو مظاہرے ہوئے۔ اُس گھر کے باہربھی لوگ جمع ہوئے جہاں عمران خان صاحب کے بیٹے رہتے ہیں۔ایک مدت سے اس گھر کی سڑک مظاہرین کے ہجوم دیکھ رہی ہے جہاں نواز شریف صاحب اوران کے بیٹے آباد ہیں۔اگر نوا زشریف اور ان کے بیٹے محفوظ نہیں تو کیسے ممکن ہے کہ عمران خان کے بیٹے محفوظ رہیں؟نتیجہ یہ ہے کہ کوئی بھی محفوظ نہ رہے۔نہ لندن میں‘نہ اسلام آباد۔
اسے ایک سیاسی اختلاف سمجھ کر نظر انداز کرنا سادہ لوحی ہوگی۔یہ اب سماج کی بقا کا مسئلہ بن چکا ہے۔ایسی صورتِ حال درپیش ہو تو سیاسی جماعتوں کو کسی ضابطہ اخلاق کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے۔تحریکِ انصاف کو مگر یہ مشورہ نہیں دیا جا سکتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ معروف معنوں میں کوئی سیاسی جماعت نہیں‘ایک سیاسی فرقہ ہے جو کسی دوسری جماعت کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔ضابطہ اخلاق ترتیب دینے کے لیے لازم ہے کہ دوسروں کو اپنی طرح کا انسان مانا جائے ا ور ان کے ساتھ بیٹھ کر کسی بات پر اتفاق کیا جائے۔اس لیے کوئی اور راستہ دیکھنا ہو گا۔
یہ راستہ عوامی شعور کی بیداری ہے۔اس کے لیے سول سوسائٹی‘ میڈیا اور رائے ساز اداروں کوکردار ادا کرنا ہے۔اسی طرح شہریوں کی حفاظت ریاست کی اصل ذمہ داری ہے۔اگران کی جان و مال اور عزت و آبرو کو خطرات لاحق ہوجائیں توریاست کو بھی بروئے کار آنا ہوتا ہے۔آج کم لوگوں کو حالات کی اس سنگینی کا احساس ہے۔ اگرکوئی رسماً بات کرتا ہے تو وہ'ہم‘ کی ضمیر استعمال کرتے ہوئے سب کوالزام دے رہا ہے۔'ہم‘ یقیناً اس کے ذمہ دار نہیں۔اس صورتِ حال کا ذمہ دار وہ گروہ ہے جو فسطائیت پر یقین رکھتا ہے اورمعاشرے کو مستقل بنیادوں پر ہیجان میں مبتلا رکھنا چاہتا ہے۔
عوام نے بڑی قربانی دے کر ملک کو مذہبی انتہا پسندی سے نجات دلائی ہے۔اگر ہم نے اسے دوسری بارسیاسی انتہا پسندی کی نذر ہونے سے نہ روکا تو جان لینا چاہیے کہ وقت کسی قوم کو بار بار اصلاح کا موقع نہیں دیتا۔مکرر عرض ہے‘یہ نوازشریف‘آصف زرداری یا عمران خان میں انتخاب کا نہیں‘سماج کی زندگی کا سوال ہے۔کسی کو شبہ نہیں ہو نا چاہیے کہ ہم خانہ جنگی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔