''کھوج‘‘ جیسی کتاب سرہانے رکھی ہو اور آدمی رطب ویابس میں کھویا رہے! خود پر ترس آتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان خسارے میں ہے۔ شاید ہی وہ زندگی کی ترجیحات کا درست تعین کر سکا ہو۔ ترتیب میں کیا مقدم اورکیا موخر ہونا چاہیے؟ اگر وہ جان لیتا تو کبھی عمرِ رائگاں کا ماتم نہ کرتا۔
رمضان اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے۔ نیکیوں کا موسمِ بہار۔ عالم کے پروردگار کی رحمت ان دنوں میں جس طرح اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتی ہے، تخیل کو وہاں تک رسائی نہیں۔ رمضان کے شب وروز کے باب میں قرآن مجید نے جوکچھ کہا اور اللہ کے آخری رسولﷺ نے اس کی جس طرح شرح فرمائی، اگر سب کو جمع کیا جائے تو انسان نہ ختم ہونے والی حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ''کیسا سیاہ نصیب ہے وہ، جسے رمضان ملا مگر وہ اپنی بخشش کا سامان نہ کر سکا‘‘۔ (او کما قال)۔ اس کی بدنصیبی لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتی جس کے گھر کے سامنے شفاف اور میٹھے پانی کی نہر بہ رہی ہواور وہ پیاس سے مر جائے۔
اس بار رمضان اس طرح اترا کہ پاکستان اضطراب میں تھا۔ خبروں اور تجزیوں کے حوالے سے دنوں اور راتوں کوٹی وی اور اخبارات چاٹ گئے۔ یہ ایام تو اس لیے تھے کہ اللہ کی کتاب پر غور کیا جاتا۔ اللہ کے رسولﷺ کی سیرت کو سمجھا جاتا کہ اس پرعمل کیا جا سکے۔ عارضی سودو زیاں اور دلچسپیاں مگر ترجیحات کے تعین میں مانع ہوئے۔ ہمیشہ کا فائدہ اور خسارہ، جیسے نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ اس کا کرم کہ اس نے بے توفیق نہیں ہونے دیا مگر جیسے جیسے اللہ کے مہمان کی رخصتی کا وقت قریب آرہاہے،یہ قلق بڑھ رہا ہے کہ اس وقت کا بہتر مصرف ممکن تھا۔
''کھوج‘‘ جسٹس(ر) سید افضل حیدر کی تالیف ہے۔ مختلف مجالس میں ان سے قرآن مجید کی تاریخ، تعلیمات، مضامین اور مشکل مقامات کی تفہیم کے بارے میں، کچھ استفسارات کیے گئے۔ ان کے جوابات کو تحریری صورت میں مرتب کردیا گیا۔ یہ سوالات قدیم روایت کے حوالے سے ہیں اور جدید علم کے پیداکردہ بھی۔ افضل حیدر صاحب نے بہت سادہ الفاظ میں گرہ کشائی کی۔
قرآن مجید جسٹس صاحب کے وچار کا مستقل موضوع ہے۔ اس کی شہادت ان کی دو وقیع کتب ہیں۔ چند سال پہلے انگریزی زبان میں ان کی کتاب شائع ہوئی 'تعارفِ قرآن‘ (Introduction to Holy Quran)۔ اسے انہوں نے اپنی نصف صدی کے غوروفکر کا حاصل قراردیا۔ دوسری کتاب ہے ''کھوج‘‘۔ پہلی کتاب قرآن مجید کے مختلف پہلوئوں پر ان کے علمی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس میں جہاں قوموں کے عروج و زوال کو قرآن مجید کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے، وہاں ناسخ و منسوخ اور ترتیبِ قرآن جیسے تفسیری موضوعات پر بھی خامہ فرسائی کی گئی ہے۔ یہ سنجیدہ علمی مضمون ہے جس کا اصل مخاطب اہلِ علم ہیں۔ ''کھوج‘‘ کااسلوب بالکل مختلف ہے۔ اس میں عام لوگوں کے اٹھائے گئے سوالات کے جواب ہیں۔ کوئی جواب آدھ صفحے کا ہے اور کوئی کئی صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔
اس کتاب میں مجھے جس بات نے سب سے زیادہ متاثر کیا، وہ جسٹس صاحب کی علمی دیانت ہے۔ انہوں نے خود کو فقہی اور گروہی تعصبات سے دور رکھا ہے اور جس بات کو درست سمجھا ہے، اسے بیان کردیا ہے۔ مثال کے طورپر قرآن مجید میں ایک مقام پر اللہ اور رسول کے ساتھ 'اولی الامر‘ کی اطاعت کا حکم دیا گیا۔ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں اس کے مفہوم کے باب میں اختلاف ہے۔ شاہ صاحب نے جس طرح ہر گروہی تعصب سے بلند ہوکر اس کا جواب دیا، وہ ہمارے اہلِ علم کے لیے قابلِ تقلید ہے۔ یہ وہ رویہ ہے جو سماج کو فرقہ واریت جیسے مسائل سے نجات دلا سکتا ہے۔
جسٹس صاحب کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ جدید اندازِ نظر رکھنے کے باوصف، وہ روایت سے باہر نہیں نکلتے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ پہلے سے موجود کسی رائے کو اختیار کریں اور اس کی ایسی تاویل کریں جو جدید ذہن کیلئے قابلِ قبول ہو؛ تاہم روایت اجازت دے تو وہ اس سے استنباط کرتے ہوئے، مختلف بات بھی کہہ دیتے ہیں جیسے قرآن مجیدکی آیات میں ناسخ و منسوخ کا تعین۔
شاہ صاحب نے اس مسئلے کو اپنی دونوں کتابوں میں موضوع بنایا ہے۔ انگریزی کے مضمون میں وہ اس باب میں موجود چار آرا کا ذکر کرتے ہیں لیکن اس رائے کو قبول نہیں کرتے کہ حدیث قرآن مجید کی ناسخ ہو سکتی ہے۔ ''کھوج‘‘ میں وہ آیت اور ناسخ و منسوخ کے مفاہیم کو وسعت دیتے ہیں اور لفظ 'آیت‘ کو قرآن مجید کی آیات تک محدود نہیں رکھتے۔ اس کیلئے قرآن مجید سے استدلال کرتے ہیں جس میں آیت کا لفظ وسیع تر مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ جیسے حضرت صالحؑ کی اونٹنی کو بھی 'آیت‘ کہا گیا ہے۔ سید افضل حیدر آیاتِ قرآن کے باب میں اپنی یہ رائے اس طرح بیان کرتے ہیں: ''قرآن نے کسی جگہ نہیں کہا کہ اس کے متن میں فلاں آیت منسوخ ہے اور فلاں آیت منسوخ کرنے والی ہے... چونکہ قرآن اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے‘ لہٰذا یہ نسخ کے عمل سے پاک ہے‘‘۔ (صفحہ 165)۔
اس کتاب میں بہت سے سوالات ہیں جو دلچسپ بھی ہیں اور اہم بھی۔ شاہ صاحب کے اکثر جوابات مختصر اور مدلل ہیں؛ تاہم کچھ جواب ایسے بھی ہیں جن سے مجھے اتفاق نہیں ہو سکا۔ مثال کے طور پر پوچھا گیا: ''کیا کوئی نہایت اہم دریافت سائنس نے کی ہے جس کا ذکر صدیوں پہلے قرآن میں موجود ہو؟‘‘ جواب میں کہا گیا ''بیگ بینگ تھیوری اور راکٹ کی 'دریافت‘‘۔ راکٹ کے حوالے سے سورہ رحمن کی یہ آیت بطور دلیل پیش کی گئی: ''اے گروہ جنات و انس! اگر تم میں آسمانوں اور زمین کے کناروں سے باہر نکل جانے کی طاقت ہے تو نکل بھاگو۔ بغیر غلبہ اور طاقت کے تم نہیں نکل سکتے‘‘۔
اس آیت کا سیاق و سباق سامنے رکھیے تویہ مفہوم محض تکلف معلوم ہوتا ہے۔ یوں بھی قرآن مجید کی حقانیت اس کی محتاج نہیں کہ اس میں کسی سائنسی دریافت کا پایا جانا لازم ہو۔ قرآن سائنس کی نہیں، ہدایت کی کتاب ہے۔ سائنس رموزِ کائنات کو دریافت کرنے کا عمل ہے جس کیلئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل جیسی نعمت دے رکھی ہے۔ ہدایت کے باب میں بھی اگرچہ عقل راہنمائی کرتی ہے لیکن چونکہ اس کے ٹھوکر کھانے کا امکان تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی سے اس امکان کا ازالہ کردیا ہے۔
تفہیمِ قرآن کے حوالے سے میرا تعلق مکتب فراہی سے ہے، دورِ جدید میںجس کی نمائندگی استادِ محترم جاوید احمد صاحب غامدی کرتے ہیں؛ تاہم ہمارے استاذ نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ قرآن مجید کے تمام عقدے انہی کی مجلس میں کھلتے ہیں اور ان کے طلبا و طالبات کو دوسرے اہلِ علم سے بے نیاز ہو جانا چاہیے۔ ان سے یہی سیکھا ہے کہ جس جس نے بھی قرآن مجید اور دین کے علم کو عام کیا اورکوئی خدمت سرانجام دی ہے، اس کا احترام اور اس سے استفادہ ہم پر لازم ہے اورغیر معصومین کے معاملے میں ہمیشہ دلیل ہی ترجیح کا فیصلہ کرے گی۔ اس لیے افضل حیدر صاحب کی کتب سے بھی سیکھا جس کیلئے میں ان کا شکر گزار ہوں۔ افسوس البتہ اس کا ہے کہ ''کھوج ‘‘ جیسی کتاب سرھانے دھری رہی ہے اور میں رطب و یابس کے مطالعے میں وقت ضائع کرتا رہا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ رمضان کے آخری دنوں میں تلافی کی ایک صورت نکلی اورمیں اس کا مطالعہ کر پایا۔