سمندر پار مقیم پاکستانیوں کی اکثریت نے، گزشتہ چار پانچ سالوں میں جس 'سیاسی شعور‘ کا مظاہرہ کیا ہے، اس نے مجھے پریشان ہی نہیں، حیران بھی کر دیا ہے۔
پردیس میں تادیر قیام جن نفسیاتی وسماجی مسائل اور عوارض کو جنم دیتا ہے، اس پر بہت کچھ لکھا گیا۔ سنجیدہ علمی مطالعے کے ساتھ ساتھ، یہ مسائل ہمارے ادب اور ٹی وی ڈراموں کا موضوع ہیں۔ میرے فہم کے مطابق، اس باب میں چند نکات قابلِ توجہ ہیں۔ چونکہ ہمارے اخبارات بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانیوں میں بھی پڑھے جاتے ہیں، اس لیے اگر اس حلقے کے لوگ ان پر غور کر سکیں تو مجھے خوشی ہو گی۔
1۔ جنہوں نے سب سے بلندآہنگ کے ساتھ، اپنے اس 'شعور‘ کااظہار کیا ہے، وہ کم و بیش سب کے سب برطانیہ، یورپ اورامریکہ میں آباد ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں جمہوریت کی ایک طویل تاریخ ہے۔ پاکستانیوں کے بنیادی حقوق بھی اسی طرح محفوظ ہیں جس طرح دوسرے شہریوں کے ہیں۔ انہیں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ معاشی ترقی کے مواقع، حسبِ صلاحیت، میسر ہیں۔
پاکستان سے جانے والا ایک باشعور آدمی جب مغرب کی سرزمین پرقدم رکھتا اورایک مختلف ماحول کو دیکھتا ہے تولازم ہے کہ اس کے ذہن میں چند سوالات پیدا ہوں: یورپ اور امریکہ یہاں تک کیسے پہنچے؟ سماجی تبدیلی ایک ارتقائی عمل ہے یاانقلابی؟ یہ خطے کسی فردِ واحد کی کوشش سے تبدیل ہوئے یایہ اجتماعی سماجی کاوش کا حاصل ہے؟ مذہب اور سماج، مذہب اور ریاست کا باہمی تعلق کیا ہے؟ اختلافِ رائے کا اظہار کیسے کیا جاتا ہے؟ سیاسی استحکام کیلئے آئین اور جمہوریت کی کیا اہمیت ہے؟ پاکستانیوں کا ایک گروہ، مسلسل جس 'سیاسی شعور‘ کا مظاہرہ کررہا ہے، اس میں ان سوالات پر غوروفکر کا شائبہ تک موجود نہیں۔
2۔ مغرب، بالخصوص امریکہ جانے والی ایک نسل کی مسلسل کوشش ہے کہ ان کی اگلی نسل بھی امریکہ پہنچے اور اسے یہاں کی شہریت ملے۔ اس کیلئے ہر جائز‘ ناجائز راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ امریکی شہریت کے تمام فوائد اہتمام کے ساتھ اٹھائے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود اکثریت امریکہ کو گالیاں دیتی ہے۔ ایک طرف امریکہ کی وفاداری کا حلف اور دوسری طرف گالیاں۔ کیا رویّے کے اس تضاد اور اس سے اٹھنے والے اخلاقی سوالات پر کبھی کسی نے غور کیا؟
ایک مسلمان کسی وقت بھی خیال اور عمل کے تضاد کا شکار ہو سکتا ہے مگر وہ اس سے آگاہ ہوتا اور اسے دور کرنے کیلئے بے چین رہتا ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ اسے اطمینان کے ساتھ، ایک مستقل رویے کے طور پر قبول کرلے۔ 9/11 کے بعد اور اس سے پہلے مشرقِ وسطیٰ میں امریکی مہم جوئی کے دوران، امریکی فوج میں شامل حساس مسلمان فوجیوں کیلئے بطورِ خاص یہ مسئلہ پیدا ہوا جب انہیں مسلم ممالک میں فوجی ذمہ داریاں ادا کرنا پڑیں۔ ان کا سامنا مسلمان ملک کی فوج اور شہریوں سے تھا‘ اور انہیں اپنے ہم مذہب لوگوں پر گولی بھی چلانا پڑتی تھی۔
ایسا ہی اضطراب ایک امریکی فوجی محمد عبدالرشید کوبھی تھا۔ اس نے علامہ یوسف قرضاوی اور ایک فتویٰ کمیٹی سے رجوع کیا۔ ان کے فتوے کا حاصل یہ تھاکہ جب آپ ایک ملک کے جملہ حقوقِ شہریت سے مستفید ہورہے ہیں تو شہریت کے جملہ فرائض بھی ادا کریں۔ ان فرائض میں ریاست کا دفاع بھی شامل ہے، اگر ریاست مطالبہ کرے۔ امریکہ میں مقیم پاکستانی، جب امریکہ کی ایک مبینہ سازش کے خلاف مظاہرہ کرتے اور اسے مجرم ٹھہراتے ہیں تو کیا انہیں بھی اس اضطراب کا سامنا کرنا پڑا جو عبدالرشید کو پیش آیا؟ اگر وہ دل سے یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ، پاکستانی مفادات کے خلاف سازش کر رہا ہے توکیا اس کے بعد، بیک وقت دو شہریتیں رکھتے ہوئے، انہیں کسی اخلاقی سوال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا؟
3۔ مغرب میں ایک ایسا کلچر وجود میں آچکا ہے، جس میں اختلافِ رائے کے احترام کو ایک قدر کے طور پر قبول کرلیا گیا ہے۔ وہاں ہرفرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جو چاہے، سیاسی یا مذہبی موقف رکھ سکتا ہے۔ ایک ایسے ماحول میں رہتے ہوئے، یہ رویہ کیسے پیدا ہو سکتاہے کہ ایک ریستوران میں ایک سیاسی مخالف کو دیکھ کر کوئی آپے سے باہر ہو جائے اور اس پر آوازے کسنے لگے؟ ایک سیاسی مخالف کے گھرکے باہر بینر لے کرکھڑا ہو جائے اور 'چور چور‘ کے نعرے بلند کرے؟ کیا ہمارے لوگوں نے وہاں کے جمہوری کلچر سے یہی سیکھاہے؟ کیا برطانیہ کے شہری اسی طرح کرتے ہیں؟ اس کا تعلق تو بنیادی اخلاقیات سے ہے۔ آپ کا موقف سو فیصد درست ہو، توبھی اس کا کوئی جواز نہیں۔
4۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کا ایک بڑا مسئلہ شناخت کا ہے جو شاید ان سب مسائل کی جڑ ہے‘ جن کا اس کالم میں ذکر ہوا۔ شناخت کا تصور خارجی عوامل پر منحصر ہوتا ہے۔ ایک کثیرالمذہبی اور کثیرالمدنی معاشرے میں آپ کی مذہبی، تہذیبی، نسلی، قومی، کئی طرح کی شناختوں کو مسلسل امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ کوئی واقعہ ایسا ہو جاتا ہے، جسے آپ کی مذہبی شناخت قبول نہیں کرتی۔ کوئی سماجی روایت ہے جسے آپ کا تہذیبی پس منظر قبول نہیں کرتا۔ ایسے موقعوں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک کثیرالمدنی معاشرے میں اپنی شناخت کو کیسے باقی رکھا جائے اور اس میں ترجیح کیسے قائم ہو؟
اس میں بطورِ خاص قومی شناخت کا مسئلہ ہے۔ آپ بیک وقت پاکستانی رہنا چاہتے ہیں اورامریکی بھی۔ آپ نے دو ریاستوں کی وفاداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔ اب اس میں ترجیح کسے حاصل ہوگی؟ آپ کی پہلی وفاداری کس کے ساتھ ہے؟ یہ وہ مخمصہ ہے جس میں کم ازکم دو نسلوں کوتو مبتلا رہنا ہے۔ اس کے بعد شاید تیسری نسل کیلئے پاکستان ماضی کا ایک حوالہ بن جائے۔ وہ تیسری نسل اب جوان ہورہی ہے؛ تاہم اس کے ساتھ، چونکہ نقل مکانی کا سلسلہ بھی جاری ہے، اس لیے پاکستانی کمیونٹی کیلئے شناخت کا مسئلہ حل طلب رہے گا۔ یہ مسئلہ بھارت جیسے ممالک کے شہریوں کو بھی درپیش ہے جنہوں نے معاشی اسباب کی وجہ سے ایک نئی شہریت اختیار کرلی ہے۔
5۔ جب پاکستان کی داخلی سیاست کے اختلافات اس شدت سے ظاہر ہوتے ہیں تو پاکستانی سفارتخانے کہاں ہوتے ہیں؟ کیا ایسے مواقع پر ان کی کوئی ذمہ داری ہے؟ کتابی بات تو یہی ہے کہ جب آپ دوسرے ملک میں ہوتے ہیں تو ان اختلافات سے بلند ہو جاتے ہیں جو آپ کو پاکستان میں درپیش ہوتے ہیں۔ جب ایسا نہیں ہوتا اور داخلی سیاست کی تلخی دوسرے ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں تک پھیل جاتی ہے تو ایسے مواقع پر پاکستانی سفارتخانے کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے؟
6۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کوکیا حق ملنا چاہیے کہ وہ سمندر پار رہنے والے پاکستانیوں میں تنظیم سازی کریں؟ میرا جواب تو نفی میں ہو گا کیونہ اس نے پاکستانوں کی وحدت کو نقصان پہنچایا ہے۔ وہاں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے انہیں زیادہ اتحاد اور قرب کی ضرورت ہے۔ پہلے کچھ مسلک پرستوں نے مذہب کے نام پر پاکستانیوں میں افتراق پیدا کیا‘ اب یہ کام سیاست کے نام پر ہونے لگا ہے۔ لازم ہے کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اس سوال پر بھی غور کریں۔ سوالات اور مسائل اور بھی ہوں گے، لیکن یہ چند زیادہ توجہ کے متقاضی ہیں۔ میرے لیے تو 'سیاسی شعور‘ کے یہ مظاہر پریشان کن ہی نہیں، حیران کن بھی ہیں۔ سردست اس کالم کا جو ردِ عمل ہو گا، میں جانتا ہوں کیا ہو گا۔ آئندہ دنوں میں شاید کوئی اس پر غور کرے۔