تحریک انصاف کیا ہے؟ایک سیاسی جماعت ‘ایک انقلابی تحریک یا ایک سیاسی فرقہ؟ اس سوال کے جواب ہی سے طے ہو گا کہ لانگ مارچ روکنے کا حکومتی اقدام درست تھا یا غلط؟
تحریکِ انصاف کے کئی چہرے ہیں۔عمران خان صاحب کمال مہارت کے ساتھ حسبِ ضرورت اس کی رونمائی کرتے ہیں۔جب میڈیا سے مخاطب ہوتے ہیں تو ایک جمہوری چہرے کے ساتھ۔وہ اہلِ صحافت کو بتاتے ہیں کہ ہم فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔اس کے سوا کچھ نہیں۔ ہمارا احتجاج پُرامن ہے اورصرف اسی مقصد کے لیے ہے۔اب اس پہ کسی جمہوریت پسند کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔لہٰذامیڈیا میںان کے حامی اس دلیل کو اٹھاتے ہیں کہ احتجاج پی ٹی آئی کا جمہوری حق ہے‘جس سے روکنا غیر آئینی ہے۔ عمران خان جب عوام کے سامنے رونمائی کرتے ہیں تو ایک دوسرے چہرے کے ساتھ۔وہ انہیں بتاتے ہیں کہ ہم سیاست نہیں‘جہاد کر رہے ہیں‘ جہاد اللہ کا حکم ہے لہٰذا میرا ساتھ دو۔ان کے حامی اس مقدمے کو اٹھاتے ہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ خان صاحب سیاسی رہنما نہیں‘ایک مسیحا ہیں۔ایک مقبول فکاہیہ ٹی وی اینکر کو میں نے یہ کہتے سنا ہے کہ عمران خان کا بھٹو صاحب سے کوئی موازنہ نہیں۔یہ ان سے کہیں عظیم تر ہیں۔اگر ان کا کوئی موازنہ ممکن ہے تو وہ قائد اعظم کے ساتھ۔
ان محترم اینکر کی شہرت اگر چہ فکاہیہ اینکر کی ہے لیکن وہ یہ بات سنجیدگی کے ساتھ کہہ رہے تھے۔موصوف پروگرام کے ایک حصے میں قومی امور پراپنی رائے دیتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ وہ سنجیدہ ہوتی ہے۔میرا تبصرہ یہ ہے کہ قائداعظم کا نام تو بروزنِ بیت لیاجاتا ہے کہ مجبوری ہے۔دراصل یہ لوگ عمران خان کو ان سے کہیں بڑھ کر سمجھتے ہیں۔ یہ تحریکِ انصاف کا دوسرا چہرہ ہے۔جس میں وہ 'کلٹ‘ کے طورپر سامنے آتی ہے۔
تیسرا چہرہ وہ ہے جو انقلابی ہے۔امریکہ سے آزادی کے لیے ایک انقلابی تحریک اٹھانے کا اعلان۔عمران خان جب اس چہرے کے ساتھ سامنے آتے ہیں تو بتاتے ہیں کہ اس قوم کو ایک انقلاب کی ضرورت ہے۔ہم دراصل امریکہ سے آزادی کی جنگ کر رہے ہیں۔آزادی کی ایک جنگ 1947 ء میںلڑی گئی تھی۔دوسری آج لڑی جا رہی ہے۔ اس وقت پاکستان کا سیاسی نظام ایک امریکی سازش کے نتیجے میں قائم ہوا ہے۔امریکی ایجنٹ اقتدار پر قابض ہیں اورریاستی ادارے اس کام میں ان کے معاون اور اس سازش میں شریک ہیں۔ میں دورِ حاضر کاسراج الدولہ یا ٹیپو سلطان ہوں جسے آج کے میر جعفر اور میر صادق کا سامنا ہے۔یوں وہ ایک قوم پرست انقلابی لیڈر (Nationalist Revolutionary) ہیں۔ یہی وہ بات ہے جسے شیخ رشید خونیں انقلاب کہتے ہیں؛تاہم یہ جدید انقلابی چی گویرا کی طرح زندگی کی آسائشوں سے بے نیاز زندگی گزارنے کے لیے تیار نہیں۔جیل نہیںجانا چاہتے۔ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے آرام کدہوں میں رہیں اور سادہ لوح عوام ان کیلئے مئی‘ جون کی گرمی میں سڑکوں پہ خوار ہوں۔ اب پہلاچہرہ دیکھیں تو تحریکِ انصاف کاشمار پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کی صف میں کیا جا ئے گا۔سیاسی جماعتیں ایک آئین اور قانون کے تحت جدوجہد کی حامی ہو تی ہیں۔دوسرا چہرہ دیکھیں تو تحریک انصاف تحریک لبیک کے خواص کی حامل دکھائی دیتی ہے۔سیاسی جماعت کے بجائے ایک نظریاتی تحریک جو کسی آئین ‘کسی نظامِ ریاست کو نہیں مانتی اگر وہ اس کے مقاصد سے ہم آہنگ نہیں۔وہ تشدد پر یقین رکھتی ہے ا ور اس کے استعمال کوجائزسمجھتی ہے۔
تیسرے چہرے کے ساتھ‘ اس کی چین کی کمیونسٹ جماعت سے مناسبت ہے۔عمران خان صاحب کئی بار چین کے نظام کی تعریف کر چکے۔وہ اس خواہش کا اظہار کر چکے کہ پاکستان میں بھی ایساہی نظام ہونا چاہیے۔یہ نظام کیا ہے ؟سادہ لفظوں میں ایک جماعت کے نام پر ایک فرد کی آمریت۔اسی لیے کہاجاتا ہے کہ خان صاحب فسطائی رجحانات کے زیر اثر ہیں۔
پاپولسٹ سیاسی راہنما دراصل ان تمام رجحا نات کا ملغوبہ ہوتا ہے۔وہ ایک طے شدہ حکمتِ عملی کے ساتھ‘ان تمام چہروں کے ساتھ جیتا ہے۔چونکہ وہ ایک کلٹ ہوتا ہے۔ اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے گرد لوگ شخصی سحر میں مبتلا ہیں۔وہ کسی دلیل کی وجہ سے اس کے ساتھ نہیں بلکہ وہ جو کہے گا‘اس پر ایمان لانے کے لیے پہلے سے تیار ہیں۔ اس لیے اسے اس تردد میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ اس کے تضادات اس کے حلقۂ اثر کو متاثر کریں گے۔یوں وہ تنقیدسے بے نیاز ہو جاتاہے۔ایک دن کہتا ہے کہ نیوٹرلزکو نیوٹرل ہی رہنا چاہیے۔ دوسرے دن کہتا ہے کہ نیوٹرلز کو میرا ساتھ دینا چاہیے۔
سوال ریاست کے لیے ہے کہ وہ ایسے گروہ اور فرد کے ساتھ کیسے معاملہ کرے۔اسے آئین کی پابند جمہوری سیاسی جماعت سمجھے یا آئین کو اپنے نظریاتی کے تابع اور غیر اہم سمجھنے والاگروہ؟اس کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرے یاعوام کو فساد سے بچانے کے لیے‘اس کے خلاف اقدام کرے اور اسی دھرنوں وغیرہ سے روک دے ؟ہماری ریاست کواس مخمصے کا اس وقت بھی سامنا کرنا پڑا جب اسے تحریکِ لبیک کے دھرنے کا سامنا تھا۔ مفتی منیب الرحمن صاحب اور دیگر اکابرین تحریکِ لبیک کے بارے میں قریب قریب ویسا ہی استدلال پیش کر رہے تھے جو آج تحریکِ انصاف کے لوگ دے رہے ہیں۔
اسی صورتِ حال کو سپریم کورٹ نے تحریکِ لبیک کے مقدمے میںاپنے فیصلے میں سامنے رکھا تھا جس کا حوالہ جسٹس اطہر من اللہ نے دیا۔اسی بنیاد پر انہوں نے انتظامیہ کے اس حق کو تسلیم کیا کہ وہ صورتِ حال کے مطابق فیصلہ کرے۔ گویا حکومت نے دیکھنا ہے کہ کیا ہونے جا رہا ہے اور وہ کس طرح عوام کے جان و مال کو محفوظ بنا سکتی ہے۔اسے سوچنا ہے کہ اس کاسامنا کسی سیاسی جماعت سے ہے یا کسی کلٹ سے؟
میرے نزدیک تحریکِ انصاف ایک سیاسی جماعت نہیں‘ایک کلٹ ہے۔اس کے دلائل میں ایک گزشتہ کالم میں بیان کر چکا۔یہ دلیل سے بے نیاز ایسے افراد کا گروہ بن چکا ہے جو عمران خان کی زبان کو حق کا ترجمان سمجھتے اور اس پر بغیر سوچے سمجھے ایمان لانے کے قائل ہیں۔ کلٹ میں یہی ہوتا ہے ا ور اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ کلٹ اپنے لیڈر کے کہنے پر اجتماعی خوش کشی کر نے پر آمادہ ہیں۔
آج ریاست کے لیے لازم ہے کہ وہ لوگوں کو اجتماعی خود کشی سے روکے۔ لاہور میں جس بے دردی سے ایک پولیس والے کو قتل کیا گیا‘ اس کے بعد اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ اس جماعت میں کس طرح کے لوگ ہیں۔اس وقت تحریکِ انصاف کے لیے وہی ریاستی پالیسی ہونی چاہیے جو تحریکِ لبیک کے معاملے میں اختیار کی گئی۔ریاست ایسے گروہوں کے خلاف کوئی مسلح اقدام نہیں کرتیں کیونکہ وہ ریاست کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھاتے لیکن چونکہ تشدد کی طرف مائل ہوتے ہیں‘اس لیے ان کو جتھہ بندی کی اجازت نہیں دیتی۔ انہیں یہ موقع نہیں فراہم کرتی کہ وہ کہیں جمع ہو کر تشدد پر اُتر آئیں اورریاست کے ساتھ عوام کو بھی نقصان پہنچائیں۔
جب یہ کالم شائع ہوگا‘حکومتی فیصلے اور خان صاحب کے رویے کے نتائج بڑی حد تک سامنے آ چکے ہوں گے۔میں دعا کرتا ہوں کی عوام کے جان و مال محفوظ رہیں اور اس کے نتیجے میں خیر برآمد ہو۔ آج امن اور استحکام سے بڑا خیر کوئی نہیں ہو سکتا۔