مہنگائی کا طوفان ہے اور سب اس کی لپیٹ میں ہیں‘الا اُمرا کا طبقہ جس کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
یہ مہنگائی کیوں ہے؟یہ بحث‘اس وقت بے معنی ہے۔ پولیٹیکل اکانومی کی شُد بُد رکھنے ولا جانتا ہے کہ پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میںحالیہ اضافہ‘اس معاہدے کا ناگزیر نتیجہ ہے جو سابقہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ کیا۔ موجودہ حکومت کے پاس کوئی راہِ فرار نہیں تھا۔ عام آدمی کے لیے مگر اس استدلال کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ وہ تو اتنا جانتا ہے کہ جب پٹرول کی قیمت میں‘محض ایک ہفتے کے دوران میں ساٹھ روپے کا اضافہ ہوا تو اس وقت شہباز شریف صاحب ملک کے وزیراعظم تھے۔
اضافہ جس وجہ سے بھی ہوا‘اس کا حل تلاش کرنا حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے۔ معاشی عمل آج اتنا پیچیدہ ہو چکا کہ عام آدمی کے لیے اس کی تفہیم ممکن نہیں۔ جب تفہیم ہی ممکن نہ ہووہ اس کی گرہ کشائی میں بھی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ میں بھی ایک عام آدمی ہوں؛ تاہم پولیٹیکل اکانومی کا ایک طالب علم ہونے کے ناتے‘چند اتائی نوعیت کے مشورے دے سکتاہوں۔ ممکن ہے حکومت کے کسی کام آ سکیں۔
اس معاملے کی ایک سطح نفسیاتی ہے۔ معاشی مسائل کا تمام ترتعلق صرف معیشت سے نہیں ہوتا۔ اس کے بعض پہلو نفسیاتی ہیں اور بعض سماجی۔ نفسیاتی پہلو سے دیکھیں تو بھوک اور افلاس تقسیم ہونے سے کم ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو یہ معلوم ہو کہ دوسروں کا پیٹ بھی آپ کی طرح خالی ہے توآپ کی بھوک کا احساس مدہم پڑ جاتاہے اوران کے بارے میں آپ کا غصہ بھی کم ہو جاتا ہے‘جن کے بارے میں یہ گمان ہوتا ہے کہ ان کا پیٹ بھرا ہوا ہے اور وہ آپ کے حال سے بے نیاز ہیں۔
لیڈر اور حکمران چونکہ اس معاملے میں عوامی غصے کا زیادہ ہدف ہوتے ہیں‘اس لیے انہیں عوام کو یہ احساس دلانا ہو تا ہے کہ وہ لوگوں کی دکھوں میں شریک ہیں۔ رسالت مآب سیدنا محمد ﷺ جیسا کون ہو سکتا ہے‘ ہمیں انہی کے اسوۂ حسنہ کی طرف دیکھنا ہے۔ غزوۂ خندق کے موقع پر جب لوگ بھوک کے باعث پیٹ پر پتھر باندھ رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے راہنما کے پیٹ پر دو پتھر بندھے ہوئے ہیں۔ اس مشاہدے نے جذبات کوایک نیا رخ دے دیا۔
سیدنا عمرؓ اسی درس گاہ کے تربیت یافتہ تھے۔ ان کے عہدِ اقتدار میں‘ جب مدینہ میں قحط پڑا تو لوگوں نے دیکھا کہ امیر المومنین نے گوشت‘ گھی‘ مچھلی وغیرہ کھانا چھوڑ دیا۔ یہ تو خیر انسانیت کے گلِ سرسبد تھے۔ ہمارے حکمران اُن جیسے تو نہیں ہو سکتے لیکن ان سے اصولِ حکمرانی ضرور سیکھ سکتے ہیں۔ جب معاشی مسائل ہوں تو عوام کو یہ پیغام ملنا چاہیے کہ حکمران طبقہ عوام سے الگ نہیں ہے۔ وہ بھی انہی کی طرح بھوک اور افلاس کو برداشت کر رہا ہے۔
آج حکومت کو چاہیے کہ اپنا طرزِ حکمرانی یکسر بدل ڈالے اور عوام کو یہ محسوس ہو کہ مہنگائی کی آنچ اقتدار کے ایوانوں میں بھی محسوس کی جا رہی ہے۔ وہ مہنگائی میں اضافے کی ذمہ دار نہیں لیکن اس کے اثرات کو محسوس کرنے میں عوام کے ساتھ شریک ہے۔ اس کے لیے ایک تو یہ لازم ہے کہ غیر ترقیاتی اخراجات کو بالکل ختم کر دیا جائے۔ جون کے دنوں میں ہر محکمہ غیر ترقیاتی اخراجات کرتا ہے جن میں گاڑیوں کی خریداری جیسی عیاشی شامل ہے۔ اس کو فی الفور روک دینا چاہیے اور ان فنڈز کا رخ عوامی بہبود کے منصوبوں کی طرف پھیردینا چاہیے۔
اسی طرح وزرااور سرکاری افسران کے لیے پٹرول وغیرہ کی سہولت کم کر دی جائے۔ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے حکمران طبقہ بھی متاثر ہو رہا ہے۔ کھانوں پر تو بطورِ خاص پابندی لگا دینی چاہیے۔ اسی طرح بیرونی دورے ہیں۔ حکومت کو فوری طور پر غیر ضروری اخراجات ختم کرنا ہوں گے۔ ساتھ ہی عوام تک یہ خبر پہنچنی چاہیے کہ حکمران طبقہ‘ عوام کے ساتھ بھوک کو بانٹ رہا ہے۔ یہ سب کچھ نمائشی نہ ہو‘حقیقی ہو۔
دوسری سطح سماجی ہے۔ معاشرے کی اس حس کو ابھارا جائے جس کا اظہار ہم رمضان میں دیکھتے ہیں۔ مخیر حضرات میں انفاق کی تحریک اٹھائی جائے۔ وہ اپنی اپنی بستیوں اور شہروں میں اس بات کا اہتمام کریں کہ کسی گھر میں بھوک کا بسیرا نہ ہو۔ اس کے لیے سماجی اداروں کے تجربے اور مؤثر نظام سے مدد لی جاسکتی ہے۔ 'الخدمت‘ نے بارہا اپنی صلاحیت اور دیانت کا لوہا منوایا ہے اور ثابت کیا ہے کہ یہ ادارہ بحرانوں سے نمٹنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتاہے‘یہی معاملہ 'اخوت‘ کا ہے۔
مخیر حضرات کو اس جانب متوجہ کیا جائے کہ وہ نوجوانوں کے لیے روزگار پیدا کریں۔ یہ مدد کا احسن طریقہ ہے۔ اس سے جہاں مایوسی کم ہو گی وہاں ہم سماج میں طفیلی طبقہ بھی پیدا نہیں کریں گے جو ایک سماجی برائی ہے۔ غیر ملکی مصنوعات پر پابندی سے مارکیٹ میں ایک خلا پیدا ہوا ہے۔ اسے مقامی مصنوعات سے دور کیا جا سکتا ہے۔ یہاں ایسے ماہرین موجود ہیں جو اس طرح کے منصوبے بنا سکتے ہیں۔ ان سے مدد لی جائے۔
تیسری سطح سرکاری اور ریاستی ہے۔ سب سے پہلے تو ہفتے کی چھٹی کو بحال کیا جائے۔ اب تک کی خبریں یہی ہیں کہ کیبنٹ ڈویژن اس کی سفارش کر چکی اور کابینہ بھی اس کے حق میں ہے مگر وزیراعظم صاحب قائل نہیں ہو رہے۔ ان کو اس بارے میں ضرور سوچنا چاہیے‘ بلکہ میں تو اس سے بڑھ کر یہ کہوں گا کہ ہفتے میں ایک دن 'ورک فرام ہوم‘ کے فارمولے کو اپنانا چاہیے جس پر دنیا بھر میں‘کورونا کے دنوں میں‘کامیابی کے ساتھ عمل کیا جا چکا ہے۔ اس سے یقینا کروڑوں روپے روزانہ کی بچت ہو گی۔ سنا ہے کہ اس حوالے سے بھی کم ازکم تین فارمولے حکومت کو پیش کیے جا چکے ہیں۔
سرکاری سطح پردوسرا کام یہ ہے کہ کھانے پینے کی ضروری اشیا‘جن میں آٹا‘چاول‘دالیں‘گھی‘سبزیاں اور پھل وغیرہ شامل ہیں‘ پر رعایت (سبسڈی) لازماً دی جائے۔ اس فہرست میں ادویات کو بھی شامل کیا جائے۔ سعودی عرب اور امریکہ وغیرہ میں مہنگائی کی لہر جب بھی آتی ہے‘یہ اشیا‘عام طور پراس سے محفوظ رہتی ہیں۔ لازم ہے کہ اس طرح کی ایک پالیسی بنائی جائے کہ معاشی حالات کا ان اشیا کی قیمت پر اثر نہ پڑے۔ مہنگائی کا بوجھ خود بخود ان اشیا کی طرف منتقل ہو جائے جوطبقۂ امرا کے استعمال میں رہتی ہیں۔
تیسرا یہ کہ ایک پالیسی کے تحت‘یہ لازم کر دیا جائے کہ جس کے اثاثے ایک خاص حد سے زیادہ ہیں وہ لازماً ان کا بیس فیصد‘کم ازکم تین سال کے لیے‘ قومی خزانے میں جمع کرا ئے گا۔ اس سے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا۔ اگر ہم یہ درخواست سعودی عرب جیسے دوست ممالک سے کرتے ہیں تو پاکستانیوں سے کیوں نہیں کر سکتے‘بالخصوص جو بیرونِ ملک مقیم ہیں اور دولت کے انبار جمع کیے ہوئے ہیں۔ پہل حکومت میں شامل اہلِ ثروت کریں۔ ان کو یقین دلایا جائے کہ سب کا سرمایہ محفوظ رہے گا۔ صرف یہ کہ یہ حضرات تین سال اسے واپس نہیںلے سکیں گے۔
یہ چند تجاویز ہیں۔ عقلِ عام اسے قابلِ عمل سمجھتی ہے؛ تاہم درست رائے معیشت کا کوئی ماہر ہی دے سکتا ہے۔ گزارش بس ایک ہے: اس سے پہلے کہ مہنگائی کا سونامی‘لوگوں کو بر باد کر دے یا سراپا احتجاج بنا دے‘ لازم ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر اس کا کوئی حل تلاش کیا جائے۔ روایتی طریقوں سے یہ مسئلہ حل ہو نے والا نہیں۔