تحریکِ انصاف ایک سیاسی جماعت ہے یا ایک انقلابی تحریک؟ لازم ہو گیا ہے کہ عمران خان صاحب اس مخمصے سے نکلیں اور اپنے کارکنوں کو بھی نکالیں۔
خان صاحب نے خود کو کئی روز کے لیے‘ کے پی میں محصور کیے رکھا۔ بنی گالا آئے بھی تو وزیراعلیٰ کے پی کی معیت اور ان کے سرکاری ہیلی کاپٹر میں۔ جتنے دن وہ کے پی میں رہے‘ پارٹی بھی ان کے ساتھ کے پی تک سمٹی رہی۔ معلوم ہوتا تھا کہ پورے پاکستان میں کسی اور جگہ پی ٹی آئی کا کوئی وجود نہیں۔ اسی دوران مہنگائی کے خلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا گیا۔ پارٹی کے سیکرٹری جنرل اسد عمر کی قیادت میں اسلام آباد میں احتجاج ہوا‘ جو یہاں سے قومی اسمبلی کے رکن بھی ہیں۔ یہاں کے دوسری نشست بھی پی ٹی آئی کے پاس ہے۔ اس کے باوجود ''دنیا‘‘ کے رپورٹر کے مطابق‘ صرف اسی سے نوے افراد ہی مظاہرے میں شریک ہوئے۔
اب ایسا بھی نہیں کہ پی ٹی آئی اس سے زیادہ افراد جمع نہیں کر سکتی تھی۔ کارکنو ں کی اس عدم دلچسپی کا سبب یہ مخمصہ ہے کہ انہیں منزل کا پتا ہے نہ راستے کا۔ سیاسی جماعت اور سیاسی تحریک کی منزل ایک ہوتی ہے نہ راستہ۔ 25مئی کو جو کچھ ہوا‘ وہ بھی دراصل اسی مخمصے کا نتیجہ تھا۔ بیانیہ تحریک کا تھا اور اقدام سیاسی جماعت کا۔ یوں کارکن مایوسی سمیٹے گھروں کو لوٹ گئے۔
گزشتہ ہفتے‘ عشرے کے دوران میں پی ٹی آئی نے جو سرگرمی کی‘ وہ کے پی تک محدود تھی‘ ملک کے باقی حصوں میں ایسی سرگرمی کیوں دیکھنے میں نہیں آئی؟ عمران خان صاحب اگر صوبے سے باہر نہیں نکلے تو اس کی وجہ سمجھ میںآ سکتی ہے۔ دیگر قیادت مگر کہاں تھی؟ شاہ محمودقریشی صاحب کیوں نہیں نکلے؟ دھرنے میں ان کی سیاسی موجود گی کی کوئی شہادت مل سکی نہ اس کے بعد۔ یہی معاملہ دوسرے رہنماؤں کا ہے۔ کیا تحریک انصاف ون مین شو ہے؟ کیا اس میں کوئی دوسرا آدمی ایسا نہیں جو چند ہزار افراد جمع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو؟ یہ تمام تر صورتِ حال اس ابہام کا ناگزیر نتیجہ ہے‘ جس کا خود خان صاحب شکار ہیں اور نتیجتاً ان کے کارکن بھی۔
انقلابی تحریکیں‘ ایک رومان کے زیرِ اثر اٹھتی ہیں۔ وہ 'سٹیٹس کو‘ کے خلاف اعلانِ بغاوت کرتی ہیں اور کسی جزوی یا تدریجی تبدیلی کی قائل نہیں ہوتیں۔ اُن کا اعلان ہی یہ ہوتا ہے کہ 'موجودہ نظام‘ یہ سکت نہیں رکھتا کہ عوامی مسائل کا بوجھ اٹھا سکے‘ اس لیے ہمیں اسے اٹھا باہر پھینکنا ہے۔ ایسی تحریکیں مسائل کا ایک سادہ سا حل پیش کرتیں اور قوم کو نظام کے خلاف بغاوت کے لیے تیار کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ کوئی نظام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اس لیے انقلابی تحریکیں ایک مرحلے پر نظام سے متصادم ہو جاتی ہیں۔ یہ انقلاب کے لیے ناگزیر ہے۔ سوشلسٹ انقلاب ہو یا اسلامی انقلاب‘ دونوں کی قیادت متفق ہے کہ تصادم ناگزیر ہے۔کسی کو تفصیلی دلائل کی ضرورت ہے تو وہ ماؤ اور لینن کو پڑھ لے یا ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کو۔
سیاسی جماعتیں موجودہ نظام کو قبول کرتے ہوئے تبدیلی کی جدوجہد کرتی ہیں۔ وہ قانون کو مانتی ہیں اور اس کے دائرے میں رہتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ بتدریج اور اس امر پر یقین رکھتی ہیں کہ دنیا میں بڑی تبدیلی پلک جھپکنے میں نہیں آتی۔ یہ جماعتیں موجود نظام کے تحت انتخابات میں حصہ لیتیں اور عوامی تائید حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس کے لیے وہی راستہ اپناتی ہیں‘ قانون اور آئین جس کی اجازت دیتے ہیں۔
تحریک انصاف کی قیادت ایک طرف انقلاب کی بات کرتی ہے اور 'سٹیٹس کو‘ کی قوتوں کو للکارتی ہے۔ دوسری طرف اسی نظام کو قبول کرتے ہوئے تبدیلی کی بات کرتی ہے جس کی ناگزیرضرورت 'سٹیٹس کو‘ کی قوتوں سے مفاہمت ہے۔ آج تحریکِ انصاف یہ کہہ رہی ہے کہ نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے۔ یہ اعلان کون کرے گا؟ ظاہر ہے کہ حکومت۔ ایک طرف آپ کا موقف ہے کہ یہ حکومت ناجائز ہے اور دوسری طرف آپ اسی سے مطالبہ بھی کررہے ہیں۔
پھر یہ انتخابات کون کرائے گا؟ فوج؟ عدلیہ؟ الیکشن کمیشن؟ یہ سب ادارے آپ کے نزدیک 'سٹیٹس کو‘ کی علامتیں ہیں۔ کیا آپ ان کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات کو قبول کر لیں گے؟ اگر تحریکِ انصاف یہ طے کر لیتی ہے کہ وہ ایک سیاسی جماعت ہے تو ان سوالات کے جواب اس کے لیے مشکل نہیں رہتے۔ پھر وہ اس 'سٹیٹس کو‘ کو سندِ جواز فراہم کرے گی اور مخمصے سے نکل آئے گی۔ اب اگر وہ خود کو انقلابی جماعت سمجھتے ہوئے‘ جو کلی تبدیلی کی علم بردار ہے‘ اس سب کچھ کو قبول کرتی ہے تو اس کا مخمصہ باقی رہے گا۔ خان صاحب کی انقلابی سوچ مانع ہے کہ وہ کرپٹ سیاست دانوں کے ساتھ بیٹھیں یا مذاکرات کریں۔
اس معاملے کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھیے۔ 'سٹیٹس کو‘ کی نمائندہ قوتوں کی نصرت سے جو 'انقلاب‘ آتا ہے‘ لازم ہے کہ وہ ان قوتوںکو قبول کرے۔ علامہ اقبال نے برسوں پہلے نشا ندہی کی تھی کہ اس خطے کا مسلمان تین قوتوں کے ہاتھوںمیں یرغمال بنا ہوا ہے۔ اقبال کے الفاظ میں ان کا کشتہ ہے: پیری‘ سطانی اور ملائیت۔ خان صاحب کے ایجنڈے میں ان کا کہیں گزر نہیں۔ یہی نہیں‘ پارٹی کا وائس چیئر مین‘ پاکستانی سیاست کی واحد شخصیت ہے جو ان تینوں کی تنہا نمائندہ ہے۔ اب ان لوگوں کے ساتھ مل کر کیاکوئی انقلابی تحریک اٹھائی جا سکتی ہے؟پاکستان کے معروضی حالات میں ایک چوتھی قوت مقتدرہ بھی ہے۔ جس جماعت کی قوتِ پرواز یہ ہوکہ مقتدرہ نے ہمارے سروں سے کیوں ہاتھ اٹھا لیا‘کیا وہ کوئی انقلابی تحریک اٹھا سکتی ہے؟
جب تک تحریکِ انصاف اپنی سیاسی جنس کے بارے میں واضح نہیں ہوگی‘ اسے 'نیوٹرل‘ ہی سمجھا جائے گا۔ تحریکِ انصاف کے پاس جو مردانِ کار موجود ہیں‘ ان کے ہوتے ہوئے‘ تحریکِ انصاف کے لیے محفوظ راستہ یہی ہے کہ وہ خود کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر منظم کرے۔ یہ نہ صرف پارٹی کے مفاد میں ہے بلکہ قومی مفاد کا تقاضا بھی یہی ہے۔ پاکستان کو مضبوط سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے آئین نے ان کے لیے یہ راستہ کھول دیا ہے کہ وہ جمہوری طریقے سے ملک کے نظام میں بہتری لا سکتی ہیں۔ پھر یہ کہ ایسی قومی سیاسی جماعتیں ملک کو متحد رکھتی ہیں جو ملک کے تمام حصوں میں نمائندگی رکھتی ہوں۔ تحریکِ انصاف ہر جگہ موجود ہے۔ اگر وہ خود کو ایک قومی سیاسی جماعت کے طور پر منظم کرے تو نہ صرف ایک بار پھر اقتدار تک پہنچ سکتی ہے بلکہ ملک کے استحکام اور وحدت کے لیے بھی اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔ یوں بھی جمہوریت کے آنے سے انقلاب کا متبادل راستہ بند ہوچکا۔
انقلابی سوچ نے محض دو ماہ میں تحریکِ انصاف کو وفاق کے بجائے‘ کے پی کی جماعت بنا دیا ہے۔ اس پر وزیراعلیٰ کے پی جیسے لوگوں کے بیانات‘ جو نہ وفاق کو سمجھتے ہیں اور نہ سیاسی نزاکتوں کو۔ اگر اس سیاسی حکمتِ عملی پر نظرثانی نہ کی گئی تو تحریکِ انصاف آج کی عوامی لیگ بن جائے گی۔ تحریکِ انصاف کو اس انجام سے بچانا‘ خان صاحب کے لیے آج کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔
سیاسی جماعت بننے کے لیے دوکام تو فوری طور پر کرنا ہوں گے‘ ایک یہ کہ پارسائی کے خودساختہ سنگھاسن سے اترکر اہلِ سیاست سے مکالمہ کرنا ہوگا۔ اس کے لیے پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ میں آ کر مؤثر اپوزیشن کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ دوسرا یہ کہ اس نظام کو چلنے دینا ہوگا تاکہ اگلے سال انتخابات ہو سکیں اور اس سے پہلے ملک کومعاشی اور سیاسی استحکام میسر آجائے جو پُرامن انتقالِ اقتدار کے لیے ناگزیر ہے۔