13جون کو ایک معتبر اخبار نویس نے اپنے کالم میں یہ خبر سنائی کہ انہوں نے معیشت کو سود سے پاک کرنے کے لیے‘ وزیراعظم سے گفتگو کی اور انہیں مشورہ دیا کہ اس کارِ خیر کے لیے مفتی تقی عثمانی صاحب کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جائے۔ وزیراعظم نے اس سے اتفاق کر لیا، یعنی یہ خبر دی جا رہی ہے کہ پاکستان میں ادارے کیسے بر باد ہوتے ہیں۔
پاکستان کے آئین نے ریاست کے مختلف وظائف کی انجام دہی کے لیے ادارے تجویز کر رکھے ہیں اور وہ برسرِ زمین موجود بھی ہیں۔ جیسے پارلیمان ہے‘ جس کو قانون سازی کا کام سونپا گیا ہے۔ عدلیہ ہے‘ جسے انصاف کی فراہمی کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ حکومت کا کام یہ ہے کہ وہ ایک کام کے لیے متعلقہ ادارے کو فعال بنائے اور پھر اس سے وہ کام لے جو اسے سونپا گیا ہے۔
اب اگر حکومت‘ اُن اداروں کو نظر انداز کرتے ہوئے وہی کام نجی شعبے سے لینے لگے تو ریاستی اور سرکاری ادارے غیر فعال یا غیر مؤثر ہو کر بر باد ہو جائیں گے۔ ان اداروں کا وقار اور فعالیت‘ تمام تر حکومتی رویے پر منحصر ہے۔ جیسے ٹیلی کمیونیکیشن کے ایک سرکاری ادارے کی موجود گی میں حکومت اس شعبے سے متعلق سر کاری کام کسی غیر سرکاری ادارے کے حوالے کر دے تویہ اس بات کا زبانِ حال سے اعلان ہو گا کہ حکومت کو اپنے اس ادارے کی کارکردگی پر بھروسا نہیں۔ جب حکومت بھروسا نہیں کرے گی توعام آدمی کیوں کرے گا؟ یوں ٹیلی کمیونیکیشن کا سرکاری ادارہ خود بخود برباد ہو جا ئے گا۔
قانون کے باب میں اسلامی تعلیمات سے رہنمائی کے لیے‘ اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے ایک آئینی ادارہ موجود ہے۔ حکومت اگر کسی قانون کو اسلام کی روشنی میں سمجھنا چاہتی ہے تو اس کے پاس آئینی راستہ یہ ہے کہ وہ اسے اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس بھیجے اور اس سے رہنمائی لے۔ اگر وہ کونسل سے باہر موجود اہلِ علم سے استفادہ کرنا چاہتی ہے تواس کا راستہ بھی کھلا ہے؛ تاہم اس کے لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ یہ کام بھی کونسل کو سونپا جائے کہ وہ اس ضمن میں ان اہلِ علم سے بھی رجوع کرے جو کونسل کا حصہ نہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل‘ میرا مشاہدہ اور تجربہ یہ ہے کہ‘ ان اہلِ علم کے کام سے استفادہ کرتی ہے جو کونسل کے رکن نہیں ہیں۔ ان کی کتب سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ انہیں کونسل میں دعوت بھی دی جا تی ہے‘ اگر ان کا تعلق آج کے دور سے ہے۔ اسی طرح غیر ملکی اہلِ علم کو بھی مدعو کیا جا تا ہے۔
یہ طریقہ اختیار کرنے سے ایک طرف ریاستی ادارے کا وقار مجروح نہیں ہو گا اور دوسری طرف حکومت کے لیے یہ دروازہ کھلا رہے گا کہ وہ دیگر اہلِ علم سے بھی استفادہ کر سکے۔ اگر اسلامی نظریاتی کونسل کو نظر انداز کرتے ہوئے‘ کسی دوسرے چینل سے یہ کام ہوا تو یہ کونسل پر حکومت کے عدم اعتماد کا اظہار ہوگا۔ درست تر الفاظ میں‘ یہ خود حکومت کا اپنے اوپر عدم اعتماد ہو گا کیو نکہ اسلامی نظریاتی کونسل کا انتخاب حکومت خود کر تی ہے۔
ماضی میں کئی بار ایسا ہو چکا۔ پرویز مشرف صاحب کے دور میں اسلامی نظریاتی کونسل نے خواتین کے حقوق کے حوالے سے تجاویز دیں‘ جس پر مذہبی طبقات نے اعتراضات اٹھائے۔ حکومت نے کونسل کی سفارشات ایک طرف رکھتے ہوئے‘ علما کی سفارشات کو قبول کر لیا۔ یہ معاملہ کونسل کے ا راکین کے لیے پریشان کن تھا۔ حال ہی میں کورونا کے حوالے سے بھی کچھ اسی قسم کا رویہ اپنایا گیا۔
سود کے مسئلے پر اسلامی نظریاتی کونسل برسوں پہلے اپنی رپورٹ دے چکی۔ حکومتوں نے اسے کسی توجہ کا مستحق نہیں سمجھا۔ اس پر دوحکومتی ردِ عمل ہو سکتے تھے۔ ایک یہ کہ وزارتِ خزانہ یا وزارتِ قانون اس پر اعتراضات اٹھاتیں اور اسے واپس کونسل کو بھیج دیتیں۔ دوسرا ردِ عمل یہ ہو سکتا تھا کہ وہ اسے قبول کر لیتیں اور اس کی روشنی میں قانون سازی کرتیں۔ یہ دونوں کام نہیں ہوئے۔
اب وفاقی شرعی عدالت نے سود پر ایک فیصلہ دیا ہے۔ حکومت کوچاہیے تھا کہ وہ اس فیصلے کو اسلامی نظریاتی کونسل کے حوالے کرتی اور اسے یہ ذمہ داری سونپتی کہ وہ وزارتِ قانون و خزانہ کے ساتھ مل کر اس پر ایک قابلِ عمل نظام تجویز کرے۔ دینی حوالے سے اگر ضرورت سمجھے تو ان علما سے بھی استفادہ کرے جو کونسل کے رکن نہیں۔ مفتی تقی عثمانی صاحب کی تحقیق سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے جنہوں نے اس موضوع پر کام کیا ہے۔ ان علما کو بھی شریکِ مشاورت کیا جانا چاہیے جو مفتی صاحب کے موقف سے مختلف نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ حکومت اس باب میں عملی مشکلات کونسل کے سامنے رکھتی اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں رہنمائی چاہتی۔ حکومت نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
کونسل کی تشکیل کے باب میں آئین یہ تجویز کرتا ہے کہ اس میں علما کے ساتھ دیگر شعبوں اور علوم کے ماہرین کو بھی شامل ہو نا چاہیے۔ ایک مدت سے کونسل میں یہ نشستیں خالی ہیں۔ مناسب یہی ہوتا کہ پہلے کونسل کو مکمل کیا جاتا اور اس میں تنوع پیدا کیا جاتا۔ اس کے بعد اسے عدالتی فیصلے کے حوالے سے ذمہ داری سونپی جا تی۔ کونسل مناسب سمجھتی تو دیگر اہلِ علم کو شریکِ مشاورت کر لیتی۔
یہ بات میرے لیے قابلِ فہم نہیں کہ کوئی کالم نگار وزیراعظم کو توجہ دلائے اور وہ اس پر براہِ راست اقدام کا فیصلہ کر لیں۔ توجہ دلانا اچھی بات ہے لیکن اس کے جواب میں یہی کہنا چاہیے تھا کہ میں متعلقہ اداروں کو ہدایت جاری کر رہا ہوں کہ وہ قانون اور ضابطے کے مطابق اس مسئلے کا حل تلاش کریں۔ اس کے لیے کوئی مدت بھی طے کی جا سکتی ہے۔ ظاہر ہے اس کے لیے سب سے اہم فورم کابینہ ہے یا پھر پارلیمان۔
سیاسی حکمرانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے لیے میڈیا کی خوشی اور اطمینان مسئلے کے حل سے زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔ یوں وہ معاملے کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں جس میں مسئلے کا حل ضمنی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ اس سے اداروں کا استحقاق ہی نہیں‘ ان کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کا کام ہے کہ وہ پارلیمان تک صحیح افراد کو پہنچائیں۔ اس کے بعد ان کی دانش اور بصیرت پر بھروسا کریں۔ اسی طرح کونسل جیسے اداروں میں دیکھ بھال کر لوگ بھیجیں۔ پھر ان کی رائے پر اعتماد کریں۔
پاکستان کو آج ایک مستحکم نظامِ حکومت کی ضرورت ہے۔ یہ صرف ادارہ سازی سے ممکن ہے۔ اگر ادارے مضبوط ہوں تو حکومتوں کی تبدیلی سے نظام عدم استحکام کا شکار نہیں ہوتا۔ بصورتِ دیگر ہر شے بکھر کر رہ جاتی ہے۔ پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والے لوگ ہی اداروں کی مضبوطی کے ضامن ہو تے ہیں۔ ورنہ حکمرانی بچوں کا کھیل بن جا تا ہے اور سیاسی تبدیلی پورے نظام کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔
حکومت اگر سود کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہے تواس کام کو اسلامی نظریاتی کونسل کے حوالے کرے۔ وزارتِ خزانہ اور وزارتِ قانون اور کونسل کے مابین ایک رابطہ قائم کرتے ہوئے انہیں یہ موقع دے کہ وہ ایک قابلِ عمل نظام بنائیں۔ اس سے ایک طرف اداروں پر عوام کا اعتماد پیدا ہو گا اور دوسری طرف ادارے بھی مضبوط ہوں گے۔ اگر حکومت اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنا چاہتی ہے تو بھی اسے واضح ہونا چاہیے۔