متنوع فکری دھاروں کی موجودگی میں‘ وہ کون سی نظریاتی قوت تھی جس نے بر صغیر کے مسلم عوام کی اکثریت کو قیامِ پاکستان کے لیے یکسو کیا اور اس نے علامہ اقبال کی فکری رہنمائی پر بھروسا کرتے ہوئے قائداعظم کو اپنا سیاسی قائد مان لیا؟
اس خطے کی تاریخ کو سمجھنے کے لیے‘ اس سوال کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔ اہلِ علم نے اسے موضوع بنایا ہے۔ تحریکِ پاکستان اور قائداعظم پر لکھی گئی ہر کتاب میں‘ یہ سوال کسی نہ کسی زاویے سے زیرِ بحث رہا ہے۔ کچھ اہلِ علم محمد بن قاسم کی سندھ میں آمد کو اس کا نقشِ اوّل قرار دیتے ہیں۔بعض نے شیخ احمد سرہندی کی فکری تحریک کوتحریکِ پاکستان کی پہلی اینٹ لکھا ہے۔ کوئی اس کا تعلق سندھ ساگر سے جوڑتا ہے۔کسی کا خیال ہے کہ یہ تمام نظری بحثیں بے معنی ہیں۔اصل مسئلہ معاشی تھا۔قائد اعظم نے بھی اس کا ایک جواب دیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ جس دن برصغیر میں پہلا شخص مسلمان ہواتھا‘اسی دن پاکستان کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ گویا ان کے نزدیک پاکستان یہاں ‘بسنے والے مسلمانوں کے تاریخی شعور کا حصہ تھا۔
یہ تاریخی شعور نسل در نسل کیسے منتقل ہوا؟مخدومی پروفیسر فتح محمد ملک کا کہنا ہے کہ یہ شعور صوفی شعرا کی سیاسی بصیرت کا فیضان ہے جس نے اس خطے کے عام مسلمان کے لیے تصورِ پاکستان کی تفہیم کو آسان بنا دیا‘جو ان صوفیا کی مذہبی و سماجی دانش پر اعتماد کرتا ہے۔مصلحین یا روایتی علما سے متاثر طبقہ اس شعور کو نہ پا سکا۔یہ اُس عام خیال کی سیاسی تعبیر ہے‘جس کے مطابق‘ برصغیر میں اسلام ‘صوفیا کے زیرِ اثر پھیلا۔پروفیسر آرنلڈ نے اس خیال کوسب سے پہلے ایک علمی مقدمے کے طور پر پیش کیا۔ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلی جیسے اہلِ علم کو اس مقدمے سے اتفاق نہیں۔یہ ایک علمی قضیہ ہے‘جس کا فیصلہ سنانا میرا مقام ہے نہ اس کالم کا موضوع۔تاہم یہ درخواست ضرور کی جا سکتی ہے کہ کسی فیصلے تک پہنچنے کے لیے لازم ہے کہ اُس علمی کام پر لازماً ایک نظر ڈال لینی چاہیے‘جو اس موضوع کے حوالے سے سامنے آیا۔ پروفیسر فتح محمد ملک صاحب کی ‘ا نگریزی زبان میں لکھی گئی کتاب ''پاکستان کا روحانی ورثہ:صوفی شاعری‘لوک محاورے میں‘‘(Spiritual Heritage of Pakistan) اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔
حال ہی میں شائع ہونے والی یہ کتاب‘ان لیکچرزکا مجموعہ ہے جو پروفیسر صاحب نے اپنے قیامِ جرمنی کے دوارن میں‘ ہائیڈل برگ اور برلن کی جامعات میں دیے۔ یہ 1984-88ء اور1992-96ء کے دور کی بات ہے جب ملک صاحب یونیورسٹی آف ہائیڈل برگ کے ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کی اقبال چیئر پر متمکن تھے۔ان لیکچرز کو توسیع دے کر‘یہ کتاب مرتب کی گئی ہے۔علامہ اقبال‘تحریکِ پاکستان اور اس کی فکری اساسات‘ پروفیسر صاحب کی تحقیق وجستجو کے اصل میدان ہیں۔اس میں شبہ نہیں کہ اس باب میں انہوں نے گراں قدر علمی کام کیا ہے۔اس حوالے سے ان کے دو نتائجِ فکر بہت اہم ہیں۔ایک یہ پاکستان کی نظریاتی اساس اسلام ہے۔دوسرا یہ کہ یہ اسلام وہ نہیں جو روایتی علما پیش کرتے ہیں اورجس کی صورت گری ملوکیت کے زیرِ اثرہوئی۔یہ علامہ اقبال کا اسلام ہے جوایک طرف اپنے عہد کے شعور سے بہرہ مند ہے اور دوسری طرف اس کی روحانی بنیادیں صوفی اسلام میں ہیں۔ ملک صاحب اسے تاریخی مثالوں کی روشنی میں اس طرح بیان کرتے ہیں کہ یہ ضیا الحق کی ملائیت ہے اور نہ پرویز مشرف کی روشن خیالی۔اس خطے میں پروان چڑھنے والی صوفی شاعری کا درست تناظر‘ان کے خیال میں یہی ہے۔
صوفیانہ شاعری ‘یہ واقعہ ہے کہ اپنی تاثیر میں بے مثل ہے۔یہ مولانا روم کی فارسی مثنوی ہو‘سلطان باہو کے پنجابی قطعے ہوں یا میاں محمد بخش کی ''سیف الملوک‘ ‘مجھے نہیں یاد کہ تاثر کے اعتبار سے‘میں نے ان سے بلندتر کوئی شاعری پڑھی ہو۔ملک صاحب ہی کی اس کتاب میں میں نے بابا فریدؒ کا ایک مصرع پڑھا اور اس سے آگے بڑھنا میرے لیے محال ہوگیا: ''جاگ فریدا ستیا تے چڑیاں بول پیاں‘‘۔کون اس پر قادر ہے کہ اگلے مصرعوں کو پڑھے اورخشک آنکھوں کے ساتھ گزر جائے۔میں نے جب بھی اس شاعری کو پڑھا‘خود پر قابو نہیں رکھ سکا۔
زیرِ نظر کتاب کے ابتدائیہ میں پروفیسر صاحب نے بتایا ہے کہ مقامی صوفی شاعری اگر چہ مولانا جلال الدین رومی کے سر چشمے سے سیراب ہوئی ہے ‘جس کی وجہ سے اس کی ایک جہت عالمگیر ہے‘لیکن اس نے اظہار کا جو پیرایہ‘اسلوب‘ تشبیہ و استعارہ اختیار کیے ہیں‘وہ سب مقامی ہیں۔شاعری کی یہ روایت رہبانیت نہیں ہے بلکہ سماج کے مسائل سے جڑی ہوئی اور یہاں بسنے والوں کی خوشیوں و غموں سے عبارت ہے۔اس مقدمے کے لیے بطورِ دلیل پروفیسر صاحب نے چند ایسے نمائندہ صوفی شعرا کا انتخاب کیا ہے جن کا تعلق اس خطے سے ہے جسے آج پاکستان کہتے ہیں۔پنجاب سے بابا فرید‘شاہ حسین‘سلطان باہو اوربلھے شاہ ہیں۔سندھ سے لال شہباز قلندر‘شاہ عبداللطیف بھٹائی اورسچل سرمست کا تذکرہ اس کتاب میں شامل ہے۔بلوچستان سے مست متوکل‘گلگت سے بابا سیار‘کے پی سے رحمن بابا اور کشمیر سے سید علی ہمدانی جیسے صوفیوں کے حالات اور سیاسی و سماجی کرداربھی اس کتاب میں بیان ہوئے ہیں ۔اس کے ساتھ بابا گرو نانک کے احوال کو بھی کتاب کا حصہ بنایا گیا جن کا تعلق پنجاب سے تھا۔ انگریزی زبان میں یہ نمائندہ صوفی شعرا کا مختصر تذکرہ ہے جس سے اس خطے کی سماجی و سیاسی تشکیل میں صوفی شعرا کا کردارسمجھا جا سکتا ہے۔
کتاب میں ان صوفی شعرا کی نجی زندگیوں کے بارے میں بھی دلچسپ معلومات موجود ہیں۔ مثال کے طور پر لال شہباز قلندر آذربائیجان کے شہر مروند میں پیدا ہوئے اورپلے بڑھے ۔ان کا اصل نام عثمان مروندی تھا۔وہ اپنے دوست ‘معروف صوفی بہاؤ الدین زکریاؒ کی بیٹی کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔باپ بیٹی کا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دینے پر رضامند ہوگیا۔اسی دوران میں بہاؤ الدین زکریا ؒکا انتقال ہوگیاا ور ان کے بیٹے صدرالدینؒ نے رشتے سے انکار کر دیا۔شہباز قلندر اتنے بد دل ہوئے کہ ان کے سہروردی سلسلے ہی کو خیرباد کہہ دیا۔اسی غم میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔ پروفیسر صاحب نے یہ ذکر بھی کیا ہے کہ کس طرح بھٹوصاحب لال شہباز قلندر سے متاثر تھے اور ان کا ایک مصرع 'دمام دم مست قلندر‘ایوب خان کے خلاف ان کی تحریک کا نعرہ بنا اور اس کے بعد ہماری سیاست میں ایسا مقبول ہوا کہ آج شیخ رشید سے لے کر جماعت اسلامی تک‘سب دمام دم مست قلندر کی دھمکی دیتے ہیں۔پروفیسر صاحب یہ بھی بتاتے ہیں کہ صوفیانہ روایت میں 'قلندر‘ کا مفہوم کیا ہے۔
پروفیسر فتح محمد ملک صاحب کی یہ کتاب ‘ان کے اس فکری کام کا تسلسل ہے جس کا تعلق تحریکِ پاکستان کی فکری اساسات سے ہے۔ تحریکِ پاکستان ان کا رومان ہے۔اس میں ان کی وارفتگی کا یہ عالم ہے کہ وہ شاہِ ہمدان سے لے کر سعادت حسن منٹو تک‘اپنی ہر پسندیدہ شخصیت کو اس لڑی میں پرو دیتے ہیں۔ملک صاحب یہ کام جس استغراق اور فکری یک سو ئی سے کرتے ہیں‘وہ قابلِ رشک ہے۔ قائداعظم اگر اس کا مشاہدہ کریں تو مجھے یقین ہے کہ وہ بھی خوشی سے پکار اٹھیں''Well done Mr. Malik‘‘
(پس تحریر:آج پروفیسر فتح محمد ملک صاحب کی سالگرہ ہے۔میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ‘ان کی عمر‘صحت اور علمی انہماک میں مزید برکت عطا فرمائے اوروہ مجھ جیسے تشنہ لبوں کو اپنے وقیع علمی کام سے سیراب کرتے رہیں)