''جینا ہے تو وہی کرو جو آئی ایم ایف کہتا ہے۔ بصورتِ دیگر نادہندہ قرار پاؤ گے اور دو وقت کی روٹی سے بھی جاؤ گے‘‘۔
یہ ہے معاشی مسائل کا وہ حل جو 75سالہ محنت ِ شاقہ کے بعد‘ ہمارے معاشی نابغوں اور سیاسی عبقریوں نے ہمارے لیے تجویز کیا ہے۔ زندگی روز بروز اجیرن ہوتی جا رہی ہے۔ کوئی سوال اٹھائے تو جواب ملتا ہے: ہمارے پاس صرف دو راستے ہیں۔ پہلا‘ عام آدمی کی زندگی مشکل ہو جائے مگر وہ زندہ رہنے کے قابل رہے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ زندگی ہی نہ رہے۔ ہم نے پہلے راستے کا انتخاب کیا ہے۔ ذہنی افلاس اور سیاسی بے بصیرتی کا اس سے کھلا اعتراف ممکن نہیں۔
جو اقدامات کیے جا چکے‘ وہ آئی ایم ایف کو مطمئن نہیں کر سکے۔ وہ بضد ہے کہ پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ہی ختم نہیں کرنی‘ 50روپے فی لٹر ٹیکس بھی لگانا ہے۔ نہیں معلوم کہ مزید کتنی آفتیں ہمارے انتظار میں ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ پٹرولیم مصنوعات میں یہ اضافہ اس معاہدے کا ناگزیر نتیجہ ہے جو تحریکِ انصاف کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ کیا۔ موجودہ حکومت کے پاس بھی اس وقت کوئی متبادل موجود نہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کے پاس اپنی معاشی حکمتِ عملی کبھی نہیں تھی۔ ہماری معیشت اُسی وقت بہتر دکھائی دی جب کسی حادثے کی نتیجے میں ڈالروں نے پاکستان کا رخ کیا۔ جیسے افغانستان کی لڑائی۔ جیسے دہشت گردی کے خلاف جنگ۔ پاکستان نے ان جنگوں میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا تو ڈالر آنے لگے۔ یہ ڈالر اگر چہ عوام تک کم ہی پہنچ پائے لیکن ملکی معیشت کا حصہ بن گئے جس سے عام آدمی کو بھی فائدہ ہوا۔ پاکستان کے جغرافیے اور حالات کو سامنے رکھ کر کوئی منصوبہ بندی نہیں ہوئی۔ چند مثالوں سے یہ بات واضح ہو جائے گی۔
1۔پاکستان کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس کا ادراک 1960ء کی دہائی میں ہو چکا تھا۔ وسائل میں اضافہ 'جمع‘ کے اصول پر ہو رہا تھا اور آبادی میں 'ضرب‘ کے اصول پر۔ صاف دکھائی دے رہا تھا کہ وہ وقت لازماً آئے گا جب آبادی اور وسائل میں توازن ختم ہو جائے گا۔ یہی ہوا لیکن کسی حکومت‘ کسی معاشی نا بغے نے معاملے کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ترقی یافتہ دنیا نے امداد دی تو دکھاوے کے لیے چند اقدامات کر لیے۔ مذہبی طبقات نے بھی صورتِ حال کی سنگینی کا احساس نہ کیا۔ انہیں ا متِ مسلمہ کے معیار کو بہتر بنانے سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ تھی تو عددی اکثریت بڑھانے سے۔ کیا یہ بات قابلِ غور نہیں کہ 1970ء میں مشرقی پاکستان کی آبادی‘ مغربی پاکستان سے زیادہ تھی اور آج بنگلہ دیش کی آبادی ہم سے چھ کروڑ کم ہے۔ اس میں حکومت کے ساتھ علما کا بھی بڑا اہم کردار ہے۔
2۔ بڑے شہروں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی تھی اور یہ بھی نظر آر ہا تھا کہ جلد ہی ان کا انتظام کم وبیش ناممکن ہو جائے گا۔ اتنی بڑی آبادی کو پینے کے صاف پانی‘ بجلی و گیس اور ٹرانسپورٹ کی فراہمی مشکل سے مشکل تر ہوتی چلی جائے گی۔ اس سے جرائم بڑھیں گے۔ اس مسئلے کا حل یہ تھا کہ نئے شہر آباد کیے جاتے۔ نئے شہر اسی وقت آباد ہوتے ہیں جب روزگار کے مواقع پھیلتے ہیں۔ روزگار کے مواقع نئے کاروبار سے پیدا ہوتے ہیں۔ نئی فیکٹریاں‘ نئے کارخانے۔ جب لوگ روزگار کے نئے مقامات کا رخ کرتے ہیں توہنر مند انسانوں کا رخ اس طرف ہو جاتا ہے اور یوں فطری انداز میں نئے شہر وجود میں آتے ہیں۔ یہ معیشت کا کوئی ایسا پیچیدہ معاملہ نہیں جس کی دریافت پر کوئی نوبیل انعام کا مستحق ٹھہرے۔ اس حقیقت کو برسوں پہلے جس طرح غلام عباس نے اپنے افسانے 'آنندی‘ میں بیان کر دیا ہے‘ اس سے بہتر انداز میں شاید ہی کوئی دہرا سکے۔
3۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ زراعت کو جدید خطوط پر استوار کر کے‘ ہم اجناس کے معاملے میں خود کفیل ہو سکتے ہیں۔ ہم اپنی ضرورت سے کہیں بڑھ کر گندم‘ چاول‘ پھل‘ دالیں اورسبزیاں اگا اور زرِ مبادلہ کما سکتے ہیں۔ اس کے باوجود آج صورتِ حال یہ ہے کہ ہم گندم درآمد کر رہے ہیں۔ زراعت کو اگر معیشت میں مرکزی ستون کی حیثیت حاصل ہوتی اور جدید سہولتوں کو گاؤں کی سطح تک پہنچا دیا جاتا تو شہریوں کی طرف نقل مکانی کم ہوتی۔
4۔ پاکستان کو ابتدا ہی سے ایک 'سکیورٹی سٹیٹ‘ کے طور پر دیکھا گیا۔ ضرورت تھی کہ 'ویلفیئر سٹیٹ‘ کا ماڈل اختیار کیا جاتا۔ سکیورٹی سٹیٹ کے ماڈل میں مرکزیت ریاست کو حاصل ہوتی ہے اور ویلفیئر ریاست میں عوام کو۔ پہلی صورت میں دفاع کے اخراجات زیادہ ہوتے ہیں اور دوسری شکل میں تعلیم‘ صحت اور دیگر بنیادی سہولتوں پر زیادہ خرچ کیا جاتا ہے۔ ویلفیئر سٹیٹ میں عوام کو اثاثہ سمجھا جاتا اور ان کی فلاح و بہبود کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ہم آج بھی بجٹ کی تقسیم پر اسی لیے اتفاقِ رائے پیدا نہ کر سکے۔
5۔ ٹیکسوں کے نظام کی تشکیلِ نو بھی ضروری تھی۔ اس میں نظریاتی ابہام کے باعث مسائل پیدا ہوئے۔ ایک طرف ہم نے معیشت کا سرمایہ دارانہ ماڈل اختیار کیا جس میں ریاست کے اخراجات کو ٹیکسوں سے پورا کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف ہم نے خود کو اسلامی ریاست کہا اور زکوٰۃ و عشر کو نافذ کر دیا۔ اسی کی ایک فرع سود کا مسئلہ بھی ہے۔ اگر پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے تو وہ زکوٰۃ و عشر کے علاوہ کوئی ٹیکس نہیں لگا سکتی۔ الا یہ کہ کسی ہنگامی صورتِ حال کا سامنا ہو۔ اس صورت میں بھی عوام کی رضا مندی ہی سے کوئی ٹیکس لگ سکتا ہے۔ اب لوگوں سے ٹیکس لیے جا رہے ہیں اور وہ دینی ذمہ داری کے طور پر زکوٰۃ بھی دے رہے ہیں۔ اس سارے نظام کو اصلاح کی شدید ضرورت تھی جسے موضوع نہیں بنایا گیا۔
ایک رہنما یا مفکر‘ مذہبی‘ سیاسی اور سماجی تعلیمات‘ روایات اور ڈھانچے کو سامنے رکھتے ہوئے کسی نظام کے بنیادی خدوخال واضح کرتا ہے۔ ماہرینِ معیشت اور ریاستی ڈھانچے سے وابستہ لوگ ان کی روشنی میں ایک نظام بناتے ہیں۔ نظام تجربات سے بہتر ہوتا ہے۔ ممکن ہے ایک بار کوئی قدم اٹھایا جائے تو وہ نتیجہ خیز نہ ہو۔ دوسری بار اس میں اصلاح کی جا سکتی ہے۔ اس سے ایک نظام ارتقائی مراحل سے گزر کر بہتر ہوتا چلا جاتا ہے۔ہم نے اس نوعیت کا کوئی فکری کام نہیں کیا۔ ہمارے اربابِ اقتدار نے آسان راستہ اپنایا اور موجود ماڈلز کو چند جزوی تبدیلیوں کے ساتھ اختیار کر لیا۔ ترقی پذیر ممالک کے لیے آسان راستہ یہ تھا کہ وہ آئی ایم ایف سے پیسے لیں اور اس کی تجویز کردہ حکمتِ عملی اختیار کر لیں۔ وہ جس شعبے میں چاہے‘ اس میں سرمایہ کاری کریں اور جو ٹیکس کہے‘ لگا دیں۔ اگر یہ فریضہ انجام دینے والے آئی ایم ایف سے وابستہ یا اس کے تجویز کردہ ہوں تو معاملہ کرنے میں آسانی رہتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہماری حکومتیں‘ منتخب لوگوں کونظر انداز کرکے اپنے معاشی معاملات ان لوگوں کے سپرد کرنے کو ترجیح دیتی ہیں جو آئی ایم ایف کے تجویز کردہ یا سابقہ ملازمین ہوں۔ اس طرح آہستہ آہستہ‘ ترقی پذیر ممالک کی معاشی آزادی سلب کر لی جا تی ہے۔ گزشتہ حکومت نے آئی ایم ایف کے کہنے پر دو بنیادی فیصلے کیے۔ ایک سٹیٹ بینک کو آزاد کر دیا اور دوسرا روپے کی قدر کے تعین کا حق حکومت سے لے لیا۔ یہی سبب ہے کہ آج حکومت مارکیٹ کی قوتوں کے سامنے بے بس ہے جوڈالر کے مقابلے میںروپے کی قدر طے کر رہی ہیں۔
ہمارے ساتھ یہ حادثہ ہو چکا۔ اب اصلاح کا فوری امکان مو جود نہیں۔ عوام کے پاس ایک ہی راستہ ہے؛ بقا کے فطری اصول کے تحت اپنی آمدن بڑھائیں اور اخراجات کو کم کریں۔ حال یا مستقبل کی کوئی حکومت شاید اس معاملے میں ان کی زیادہ مدد نہ کر سکے۔