یہ کتاب اگر میں نے 20سال پہلے پڑھی ہوتی تو آج یقینا ایک مزید بہتر باپ ہوتا۔
برادرم ڈاکٹر عرفان شہزاد کی اس کتاب کا موضوع ہے ''ہمارے بچے‘‘۔ اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے بعض ایسی چونکا دینے والی باتیں لکھی ہیں‘ جن کی طر ف کم لوگوں کا ہی دھیان گیا ہوگا۔ ان کا تعلق قومی تعلیمی پالیسی سے ہے اور بطور والدین ہمارے رویوں سے بھی۔ تعلیم کے باب میں ہم بحیثیت قوم کتنی غلط فہمیوں کا شکار ہیں‘ اس کتاب کے مطالعہ سے مجھے ان کا بخوبی احساس ہوا۔ میں مصنف کی بعض باتوں کو نکات کی صورت میں‘ انہی کے الفاظ میں یہاں نقل کر رہا ہوں: ''حصولِ تعلیم ہر فرد کا مسئلہ بن چکا ہے۔ دورِ جدید کا یہ ایک غیر متوازن رجحان ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر فرد تعلیمی رجحان کا حامل نہیں ہوتا۔ تعلیم پر بھرپور وسائل خرچ کرنے والے ممالک میں بھی یہ ممکن نہیں ہو سکا کہ ہر بچے کو رسمی تعلیم کے ذریعے تعلیم یافتہ بنایا جا سکے۔ فطری رجحانات کو تبدیل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ جس طرح تعلیمی رجحان رکھنے والے بچوں کو پڑھائی کے بجائے کسی کام پر ڈالنا زیادتی ہے‘ اسی طرح تعلیمی رجحان نہ رکھنے والے بچوں کو حصولِ تعلیم پر مجبور کرنا بھی ظلم ہے‘‘۔
بچوں کو اگر ان کے طبعی رجحان کے مطابق آگے بڑھایا جائے تو اکثر بہت کامیاب ہوتے ہیں۔ مگر رائج تعلیمی نظام میں ہر بچے کو کم ازکم دس بارہ سال رسمی تعلیم کی چکی میں پیسنا ضروری سمجھا گیا ہے۔ غیر تعلیمی شعبہ جات کی ملازمتوں کے لیے بھی کم سے کم معیار میٹرک رکھا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک بچہ اگر تعلیمی رجحان نہ رکھتا ہو تو اسے بھی ایک ادنیٰ ملازمت کے لیے دس بارہ سال ناچاہی تعلیم کی مشقت میں بسر کرنا ہوں گے۔ ایک ناگوار کام مسلسل دس بارہ سال کرتے رہنے کی اذیت سے انسانی دماغ پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں‘ اس کا احساس تک موجود نہیں۔
یہ ایک غلط فہمی ہے کہ تعلیم سے فرد کے سماجی اور سیاسی شعور میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس دیکھا گیا ہے کہ تعلیمی مصروفیات بچوں کو عملی سمجھ بوجھ سے محروم کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ جو بچے تعلیم کی طرف کم رجحان رکھتے ہیں‘ وہ عملی سمجھ بوجھ میں اکثر فائق نظر آتے ہیں۔ شعور علم اور تجربے سے پیدا ہوتا ہے‘ اس کے لیے رسمی تعلیم لازم نہیں۔ پرائمری سطح کی تعلیم تو سب بچوں کے لیے لازم ہونا بجا ہے‘ لیکن اس کے بعد بچوں کا رجحان پرکھنے کا جامع طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ماہرینِ تعلیم اور ماہرینِ نفسیات کی خدمات حاصل کی جائیں۔
تشدد سے تربیت پانے والے افراد میں ڈر‘ عدم تحفظ‘ منافقت‘ جھوٹ‘ بددیانتی‘ بزدلی‘ بدتمیزی اور طاقت کے بل پر مفاد یا مقصد حاصل کرنے کی خصلتیں پیدا ہو جا تی ہیں۔ سماج اگر اخلاقی لحاظ سے ناقابلِ رشک سطح پر نظر آتا ہے تو اس کے پیچھے تشدد سے اصلاح کرنے کی غلط تربیت کا گہرا اثر ہے۔ مسائل کے حل کے لیے توڑ پھوڑ‘ سیاسی انتخابات اور دیگر اجتماعات کے دوران ہونے والی گروہی لڑائیاں اسی تشدد پسندی کے مظاہر ہیں۔ فرد اور سماج میں حقیقی تبدیلی کن عوامل کے تحت آتی ہے اور اس میں کتنا وقت لگتا ہے‘ تشدد پسند ذہنیت اس نفسیاتی اور سماجی سائنس سے نابلد ہو تی ہے۔ جس تبدیلی کا خمیر تخریب پر رکھا گیا‘ اس کے کیا نتائج نکلتے ہیں‘ تاریخ کے المناک تجربات سے یہ نفسیات آگاہ نہیں ہوتی۔
دنیا محض سائنس دانوں اور سماجی علوم کے ماہرین سے نہیں چلتی۔ اس میں بہت سا حسن اور رعنائی فنونِ لطیفہ کی مرہونِ منت ہے۔ جن بچوں کو فطرت نے شاعر‘ ادیب‘ موسیقار اور مصور وغیرہ بننے کے لیے پیدا کیا ہے‘ انہیں اپنے طبعی رجحان کو پروان چڑھانے کا موقع نہ دینا‘ بچے کے ساتھ تو ناانصافی ہے ہی‘ خدا کی سکیم کی خلاف ورزی بھی ہے جو دنیا میں مختلف طبائع کی رنگا رنگی دیکھنے کے لیے انہیں مختلف پیدا کرتا ہے۔بچہ جب ٹی وی‘ کمپیوٹر‘ ٹیب یا موبائل فون وغیرہ پر کچھ دیکھ یا سن رہا ہو‘ اپنا من پسند کھیل‘ کھیل رہا ہو یا دوسرے بچوں کے ساتھ لطف اندوز ہو رہا ہو‘ اس وقت اسے سکول کا کام کر نے کا ہر گز نہیں کہنا چاہیے‘ ورنہ اسے یہ تاثر ملتا ہے کہ سکول کا کام لطف کا رقیب ہے۔ بچے کو سکول کا کام کر نے کے لیے براہِ راست کہنے سے گریز کرنا چاہیے۔ بچے کی کتابیں اور نوٹ بکس خود لے کر بیٹھ جائیں‘ اس کی پنسل اور کلرز سے خودکچھ بنانے اور رنگ بھرنے کا کام شروع کریں۔ بچہ فوراً متوجہ ہو جائے گا۔ اپنی چیزوں کی ملکیت کا احساس اسے متوجہ کرے گا۔ وہ خود چلا آئے گا اور اپنی چیزیں آپ سے لے کر خود کام کرنے لگ جائے گا۔ یہ معمول کم ازکم ابتدائی دو‘ تین سال تک جاری رکھنا چاہیے۔
ذخیرہ الفاظ بڑھانے کے لیے ذخیرہ الفاظ پر مشتمل فہرست یا لغت تھما دینا ایک نہایت بھونڈا طریقہ ہے۔ ذخیرہ الفاظ بڑھانے کا بہترین طریقہ اپنی دلچسپی کی کتب‘ رسائل‘ اخبار وغیرہ پڑھنا‘ فلمیں ڈرامے اور دستاویزی وڈیوز وغیرہ دیکھنا ہے۔
ڈاکٹر عرفان شہزاد ایک سکالر اور ماہرِ تعلیم ہیں۔ اس کتاب میں انہوں نے ایسے امور کو موضوع بنایا جن کا تعلق والدین کی تعلیم سے ہے۔ ان امور سے بے خبری ایک پوری نسل کو برباد کر دیتی ہے۔ جیسے بچے کو گود لینا۔ تولید کی سپردگی (Surrogacy)‘ جنسی زیادتی اور خاندانی منصوبہ بندی یا کم سنی میں ہاسٹل کی زندگی کے نفسیاتی اثرات۔ یہ وہ امور ہیں جن کے بارے میں غلط فہمیوںکا انبار ہے جو معاشرے نے اپنے سر پر لاد رکھا ہے اورجن کا نتیجہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے کہ انہوں نے ایک ایسے موضوع کی طرف متوجہ کیا ہے جو سب سے اہم ہونے کے باوجود‘ سب سے زیادہ نظر انداز کیا جا تا ہے۔ ایک دلچسپ بحث اس پر بھی ہے کہ ہمارا تصورِ خدا کس طرح ہماری معاشرتی اقدار کے زیرِ اثر پیدا ہوتا اور پھرکیسے تعلیم کا حصہ بن کر بچوں کی نفسیات پراثر انداز ہوتا ہے۔ عرفان صاحب نے علومِ دینیہ میں زوال کے اسباب پر بھی اہم نکات اٹھائے ہیں۔
یہ کتاب بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آبادکے ادارے 'اقبال انٹر نیشنل انسٹیٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ‘ نے شائع کی ہے۔ ادارے کے ڈائریکٹر جہاں سنجیدہ تحقیق کے ذریعے علم کی تخلیق کے لیے کوشاں ہیں‘ وہاں اس بات کی بھی شعوری کوشش کر رہے ہیں کہ یہ علم اطلاقی صورت میں ڈھلے تاکہ سماجی تربیت اور حکومتی پالیسی کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرے۔ یہ ایک منفرد خدمت ہے جو شاید ہی کوئی ادارہ سر انجام دے رہا ہے۔
کتاب کا پیغام یہ ہے کہ بچوں سے زیادہ والدین کو تربیت کی ضرورت ہے۔ میری تجویز ہے کہ جو مرد اور عورت شادی کرنے جا رہے ہیں‘ ان کے لیے مختصر دورانیے کا ایک تربیتی کورس لازم کر دیا جائے جس کا ایک حصہ ان ذمہ داریوں کے بارے میںہوجو والدین سے متعلق ہیں۔ جب تک ایسا نہیں ہو تا‘ میںکم ازکم اس کتاب کے مطالعے کی سفارش تو کر سکتا ہوں۔
خاندان کا ادارہ دراصل اس بات کا پیشگی انتظام ہے کہ دنیا میں آنے والے بچے کو وہ لوازم میسر آجائیں جو اسے ایک اچھا انسان بنائیں۔ والدین اگر اس بات سے بے خبر ہیں تو وہ اس فساد اور انتشار کے بالواسطہ ذمہ دار ہیں جو ایک غیر تربیت یافتہ انسان دنیا میں برپا کرتا ہے۔ بچوں کے گلے میں نافرمانی کا طوق ڈالنے سے پہلے‘ والدین کو اپنے رویوں میں بھی تبدیلی لانا ہوگی۔