مولانا محمد علی جوہر یا ظفر علی خان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ وہ صحافی تھے یا سیاسی کارکن؟
صحافی کا کردار ایک بار پھر زیرِ بحث ہے۔ صحافت کے پیشے سے وابستہ بعض خواتین و حضرات ان دنوں سیاسی جماعتوں کا ہراول دستہ ہیں۔وہ ان کا مقدمہ لڑتے‘ ان کے گیت گاتے اور ان کے مخالفین کے لتے لیتے ہیں۔ وہ سیاسی جماعتوں کے لیے پروپیگنڈا سیل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کے باوصف ان کا اصرار ہے کہ انہیں صحافی مانا جائے۔ معترضین کا خیال ہے کہ جب آپ ایک سیاسی جماعت کے ترجمان بن جاتے ہیں تو اس کے بعد آپ ایک سیاسی کارکن ہیں۔ اب آپ ایک صحافی کہلوانے کا استحقاق کھو چکے۔ دونوں میں سے کس موقف کودرست مانا جائے؟
صحافت‘ آج ایک پیشہ ہے۔ پیشے کا مترادف ہے 'روزگار‘ اور روزگار کا مطلب ہے 'ذریعۂ معاش‘۔ کوئی فن‘ ہنر یا علم جب پیشہ بنتا ہے تو اس پر عمومی اخلاقیات کے بجائے پیشہ ورانہ اخلاقیات کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہ اس معاشرت کا عطا کردہ اصول ہے جو صنعتی انقلاب کے بعد وجود میں آئی اور سرمایہ دارانہ نظام کا نا گزیر حصہ ہے۔ وکالت‘ مثال کے طور ایک پیشہ ہے۔ وکیل اب بحیثیت وکیل‘ عمومی اخلاقیات کا پابند نہیں ہے‘ پیشہ ورانہ اخلاقیات کا تابع ہے۔ یہ اخلاقیات اس کے لیے یہ تو لازم کرتے ہیں کہ وہ اپنے موکل کے ساتھ دیانت داری کے ساتھ معاملہ کرے اور اس سے جھوٹ نہ بولے؛ تاہم اس کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ وہ عدالت میں بھی جھوٹ سچ کے باب میں عمومی اخلاقیات کی پابندی کرے۔
صحافت بھی آج ایک پیشہ ہے۔ اس کا بنیادی کام خبر رسانی ہے۔ تجزیہ اس کی اصل نہیں فرع ہے۔ فرع جیسی بھی ہے‘ اس کو اصل سے جڑا رہنا چاہیے۔ پیشہ ورانہ اخلاقیات متقاضی ہیں کہ خبر ہمیشہ سچی ہو۔ صحافی کا کام یہ ہے کہ وہ خبر کے معاملے میں ممکنہ حد تک سچ تک پہنچے۔ اس لیے یہ کہا جاتا ہے کہ خبر کو ایک سے زیادہ ذرائع کی تصدیق کے بعد ہی نشر کرنا چاہیے۔ کوئی انسانی کاوش غلطی سے پاک نہیں ہوتی؛ تاہم یہ لازم ہے کہ انسانی حد تک سچ کی تلاش میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی جائے۔
صحافت میں وقت کے ساتھ وسعت پیدا ہوئی۔ خبر رسانی کی صورتیں تبدیل ہوئیں اور اس کے ساتھ بعض ایسے افعال بھی صحافت میں شامل ہو گئے جو پہلے پیشہ ورانہ صحافت کا حصہ شمار نہیں ہوتے تھے۔ جیسے کالم۔ کالم ایک فرد کی رائے ہے۔ ایک صنف کے طور پر صحافت نے اسے قبول کیا لیکن اس کے ساتھ یہ واضح ہے کہ کالم نگار کوئی سیاسی یا مذہبی موقف رکھ سکتا ہے۔ اس پر اعتراض ہو سکتا ہے مگر یہ اعتراض غلط یا صحیح کی بنیاد پر ہوگا‘ سچ اور جھوٹ کی اساس پر نہیں۔ جھوٹ کو ایک کالم نگار کے لیے بھی شرمندگی کا باعث ہونا چاہیے لیکن اس کا تعلق عمومی اخلاقیات سے ہوگا۔ پیشہ ورانہ اخلاقیات سے نہیں۔
الیکٹرانک میڈیا کے آنے سے خبروں کے ابلاغ کی ایک صورت ٹاک شوز ہیں۔ پیشہ ورانہ اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ ایک ٹاک شو کا میزبان اپنے مہمانوں کو بات کہنے کا مساوی موقع دے۔ ان کے انتخاب میں جانب دار نہ ہو اور اس کے رویے سے کوئی جھکاؤ ظاہر نہ ہو۔ ہمارے ہاں پیچیدگی اسی لیے پیدا ہوئی کہ ٹاک شو کا میزبان خبروں پر تبصرہ کرتا اور ساتھ کالم بھی لکھتا ہے۔ بعض تجربہ کار صحافی اپنی ان حیثیتوں کے فرق کا لحاظ رکھتے ہیں لیکن بالعموم یہ فرق نظر انداز ہوتا ہے۔ یوں ان کی رائے ان کی شخصیت کی پہچان بنتی ہے اور ان کو جانب دار کہا جاتا ہے۔
ایک سوال اور بھی ہے۔ ایک ملک یا قوم اگر کسی موقع پر داخلی خلفشار کا شکار ہوتی ہے تو اس وقت ایک صحافی کی ذمہ دا ری کیا ہے؟ اگر وہ دیانت داری سے یہ سمجھتا ہے کہ ایک گروہ کا مؤقف درست ہے اور دوسرے کا غلط تو اسے کیا کرنا چاہیے؟ یہ سوال اس صحافی کے بارے میں پیدا نہیں ہوتا جس کا کام خبر رسانی ہے۔ اسے تو ہر صورت میں سچ ہی کو سامنے لانا ہے۔ اس سوال کا تعلق اس گروہ سے ہے جو اصلاً صحافی نہیں بلکہ فروعی طور پر صحافت سے وابستہ ہے۔ جیسے وہ کالم نگار جو طویل عرصہ کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے کے ملازم یا کسی دوسرے پیشے سے وابستہ رہے ہیں؛ تاہم وہ اپنی ایک رائے اور اس کے ابلاغ کا سلیقہ بھی رکھتے ہیں۔ ان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جسے سچ سمجھتے ہیں‘ ا س کا ساتھ دیں اور پڑھنے والوں کو بھی اس پر قائل کریں۔ ان کی یہ اخلاقی ذمہ داری بہر صورت رہے گی کہ وہ جھوٹ کو سچ نہ بنائیں اور حقائق کو مسخ نہ کریں۔
مثال کے طور پر کچھ لکھنے یا بولنے والے یہ رائے رکھتے ہیں کہ جمہوریت ہی سے سیاسی ومعاشی استحکام آ سکتا ہے اور ریاستی اداروں کے اقتدار کی سیاست سے دور رہنے ہی میں ان کی عزت اور ملک کی سلامتی ہے‘ تو انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی بات کریں اور اس پر رائے عامہ کو ہموار کریں۔ یا یہ کہ فلاں سیاسی جماعت ملک کو بحران سے نکال سکتی ہے‘ اس لیے اس کا ساتھ دینا چاہیے۔ رائے کا یہ اظہار کالم یا مضمون کی صورت میں ہو سکتا ہے اور ٹی وی سکرین پرکسی گفتگو کی شکل میں بھی۔ جب اخبار اور ٹی پر دکھائی دینے والے یکساں طور پر صحافی شمار ہوتے ہیں تو پھر ابہام پیدا ہوتا ہے۔
اس ابہام سے نکلنے کے لیے دو کام ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ جو خبر رساں یا رپورٹر ہے‘ وہ خود کو خبر رسانی تک محدود رکھے۔ اصل صحافت یہی ہے۔ ٹی وی ٹاک شو کا میزبان بھی ایک صحافی ہے اگر اس کا پروگرام اخبار کے ایک صفحے کی طرح ہے جس پر سب کا مؤقف موجود ہوتا ہے اور حق سچ کا فیصلہ پڑھنے والے خود کرتے ہیں۔ ایک اخبار یا ٹی وی چینل یا ایک رپورٹر یا ٹاک شو کا میزبان جب کسی ایک نقطۂ نظر کے ترجمان بن جاتے ہیں تو وہ صحافی نہیں رہتے۔ ضروری ہے کہ صحافی تنظیمیں اس معاملے میں واضح موقف اختیارکریں اور عوام بھی۔
دوسرا یہ ہے کہ جو لوگ کوئی رائے رکھتے اور آگے بڑھ کر سیاسی جماعتوں یا لیڈروں کا ہراول دستہ بن جاتے ہیں‘ بریفنگ لیتے اور ان کے موقف کے ترجمان بن کر معاشرے میں کھڑے ہو جاتے ہیں‘ جو کسی ایک سیاست دان کو مسیحا سمجھتے ہیں‘ انہیں یہ حق تو حاصل ہے کہ وہ اپنی رائے بیان کریں لیکن ان کا یہ حق پھر باقی نہیں رہتا کہ وہ خود کو صحافی بھی کہیں۔ اس کا حاصل یہ ہے کالم نگار‘ مضمون نویس یا ٹی وی پر اپنی آزادانہ رائے بیان کرنے والے‘ صحافی کی پیشہ ورانہ تعریف پر پورا نہیں اترتے۔ یہ بات بھی صحافی تنظیموں اور عوام پر واضح ہونی چاہیے۔
مولانا محمد علی جوہر یا ظفر علی خان‘ ایک نظریے کے علم بردار تھے۔ اس پیشے کی موجود تعریف کی رُو سے‘ جب صحافت ایک ذریعۂ روزگار بن چکا‘ انہیں صحافی کہنا درست نہیں ہوگا۔ کہنے کو تو مولانا مودودی بھی صحافت کو اپنا پیشہ قرار دیتے تھے مگر کیا وہ ایک صحافی تھے؟ آزادیٔ رائے ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ اس حق کے تحت کسی کو اپنی بات کہنے پر پابندِ سلاسل نہیں کیا جا سکتا نہ اس کا یہ حق چھیناجا سکتا ہے۔ لیکن اگرکسی سیاسی جماعت کا ترجمان‘ یہ حق بحیثیت صحافی طلب کرے تو مجھے اس سے اتفاق نہیں ہو گا۔