دو چار دن میں‘ یا یوں کہیے کہ ہفتہ عشرہ میں ایسا کیا ہوا کہ کایا پلٹ گئی؟ عمران خان صاحب کی مقبولیت کا ڈھلتا سورج‘ ایک بار پھر نصف النہار پر دکھائی دینے لگا۔ یہ کوئی چمتکار ہے‘ جادو ہے‘ نظر کا دھوکہ ہے یا سادہ سماجی عمل؟
انسان روبوٹ نہیں ہوتے۔ انہیں تبدیل ہونے میں وقت لگتا ہے۔ سماجی تبدیلی ایک ارتقا پذیر عمل ہے جو بسا اوقات عشروں میں مکمل ہوتا ہے۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ صدیاں بیت گئیں زمانے کو ایک حالت میں۔ تب کہیں جاکر اس نے ایک کروٹ لی۔ یہ تو خیر بڑی اور بنیادی تبدیلی کا معاملہ ہے۔ روزمرہ کی تبدیلیاں بھی اتنی آسانی سے نہیں آتیں کہ دنوں میں سوچ کے زاویے بدل جائیں۔
انسانی تہذیب کی معلوم تاریخ صدیوں پر محیط ہے۔ اسے اہلِ علم نے ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ مثال کے طور پر پتھر کا دور‘ مذہب کا دور (Age of Faith)‘ عقل و استدلال کا دور (Age of Reason)۔ انسان کو ایک عہد سے دوسرے عہد تک پہنچنے میں صدیاں لگیں۔ ان ادوار سے بلند تر ایک اور تقسیم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فکری اعتبار سے‘ انسان پر تین موسم بیتے: قبل از جدیدیت‘ جدیدیت اور پس جدیدیت۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان اتنی آسانی سے تبدیل نہیں ہوتا۔ اگر تبدیلی شعوری ہے تو وہ انسانی ذہن میں آہستہ آہستہ قدم رکھتی اور اپنی جگہ بناتی ہے۔
روزمرہ سیاست بھی آسانی سے تبدیل نہیں ہوتی۔ قاضی حسین احمد مرحوم نے بھی خیال کیا تھا کہ انسان کو سرعت کے ساتھ بدلا جا سکتا ہے۔ اس خیال کے زیر اثر انہوں نے ایک تجربہ کیا جو ناکام ہوا۔ اس کا ایک فکری پس منظر ہے۔ جماعت اسلامی طویل عرصہ یہ کہتی رہی کہ پیپلز پارٹی سب سے بڑی برائی ہے۔ 1970ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی نظریاتی حریف کے طور پر آمنے سامنے تھے۔ پیپلز پارٹی سوشلزم کا علم اٹھائے ہوئے تھی اور جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ سوشلزم کفر ہے۔ اس تقسیم کے زیرِ اثر جماعت اسلامی نے جو سیاسی فکر پیدا کی‘ اس کے مطابق پیپلز پارٹی سب سے بڑی برائی تھی۔ اسی بنیاد پر پیپلز پارٹی کے خلاف دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد کو جائز سمجھا گیا اور بالخصوص مسلم لیگ سے قربت بڑھائی گئی۔ ایک مرتبہ میاں طفیل محمد مرحوم نے کہا تھا کہ مسلم لیگ اور جماعت اسلامی میں بس اتنا فرق ہے کہ جماعت اسلامی‘ مسلم لیگ کا انگریزی ترجمہ ہے۔ اسلامی جمہوری اتحادکے قیام تک جماعت اسلامی میں اسی سوچ کا غلبہ رہا۔ اس اتحاد میں قاضی حسین احمد صاحب کو نواز شریف صاحب سے شکایات پیدا ہوئیں۔ یوں جماعت اسلامی اور مسلم لیگ کے تعلقات میں دراڑ پڑ گئی۔
قاضی صاحب اس نتیجے تک پہنچے کہ نواز شریف صاحب سے اتحاد‘ جماعت کے لیے سازگار نہیں۔ جماعت اسلامی کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ اپنے سیاسی پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لے۔ جماعت کی عوامی حمایت کو وسعت دینے کے لیے‘ 1993ء میں پاکستان اسلامک فرنٹ کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی گئی کیونکہ جماعت اسلامی کا تنظیمی ڈھانچہ محدود لوگوں ہی کو اپنے اندر جگہ دیتا تھا۔ اُس وقت یہ کہا گیا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ایک طرح کی برائیاں ہیں۔ قاضی صاحب کا خیال تھا کہ جماعت کا کارکن جو اپنی قیادت پر بے پناہ اعتماد رکھتا ہے‘ اس کی بات مانتے ہوئے‘ اس نقطۂ نظر کو قبول کر لے گا۔ جماعت اسلامی کے متاثرین نے مگر یہ ماننے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے یہی خیال کیا کہ پیپلز پارٹی کو اقتدار سے دور رکھنا‘ اس وقت سب سے بڑی قومی خدمت ہے۔ اسلامک فرنٹ کو ووٹ دینے کا مطلب پیپلز پارٹی مخالف ووٹ کو تقسیم کرنا ہے جس کی مؤثر نمائندگی نواز شریف صاحب کر رہے ہیں۔
قاضی صاحب نے ایک بنیادی بات کو نظر انداز کیا۔ ایک سوچنے والے ذہن کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ چند دنوں میں خود کو اتنا تبدیل کر لے کہ ایک بیانیے کو تج کر‘ کسی دوسرے بیانیے کا نقیب بن جائے۔ انسان کو روبوٹ پر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔ جماعت اسلامی ایک منظم جماعت ہونے کے باوجود‘ اپنے امیرکے ساتھ نہیں چل سکی۔ جماعت اسلامی کا یہ ووٹر اور حامی‘ جماعت سے ایسا بچھڑا کہ لوٹ کر نہیں آیا۔ ان میں سے اکثر آج بھی نون لیگ کے ساتھ ہیں۔ جو اس کے ساتھ نہ چل سکے‘ انہوں نے تحریکِ انصاف میں پناہ لے لی۔ سیاسی مبصرین متفق ہیں کہ امسال‘ اپریل کے ابتدائی دنوں میں‘ عمران خان صاحب اپنی مقبولیت کے پست ترین درجے پر تھے۔ شیخ رشید صاحب کا یہ اعتراف سب نے سنا کہ ہم عوام کو منہ دکھانے کے قابل نہیں تھے۔ اس غیرمقبولیت کی بڑی وجہ تحریکِ انصاف کا پونے چار سالہ دورِ اقتدار تھا۔ عام آدمی نے خیال کیا کہ ان برسوں میں‘ اسے حکومت کی طرف سے خیر کی کوئی خبر نہیں ملی۔ نون لیگ کا ٹکٹ فتح کی علامت بن چکا تھا۔ پھر خان صاحب کی حکومت ختم ہو گئی۔ اس کے آثار پیدا ہوئے تو انہوں نے ایک نیا بیانیہ اختیار کیا۔ یہ 'رجیم چینج‘ کا بیانیہ تھا ‘جس کے مطابق امریکہ ان کے خلاف ہو گیا تھا اور اس نے انہیں اقتدار سے ہٹانے کی سازش کی۔ وہ اقتدار سے الگ ہوئے تو انہوں نے اپنے بیانیے میں امریکہ کے ساتھ مقتدرہ کو بھی شامل کر لیا۔ عدلیہ بھی ان کی تنقید کی زد میں تھی۔
یہ ملغوبہ جو عمران خان صاحب نے تیار کیا‘ عوام میں اپنی جگہ بنانے لگا۔ دنوں میں فضا بدل گئی۔ پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج نے بتایا کہ وہ کسی بیساکھی کے بغیر‘ اب اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں۔ سوال وہی ہے کہ غیرمقبولیت سے مقبولیت کا یہ سفر‘ چند دنوں میں کیسے طے ہوا؟ ذہن‘ میں عرض کر چکا کہ یہ دنوں میں تبدیل نہیں ہوا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ شعوری کے بجائے‘ کوئی جذباتی تبدیلی تھی یا خان صاحب نے صدیوں کے انسانی تجربے ہی کو بدل ڈالا؟ میں یہ سوال بہت سے لوگوں کے سامنے رکھ چکا۔ مجھے کہیں سے اطمینان بخش جواب نہیں ملا۔ میں خود بھی کسی حتمی رائے تک نہیں پہنچ سکا۔ میرا قیاس ہے کہ خان صاحب نے سوشل میڈیا کے استعمال سے اپنے نقطۂ نظر کا مؤثر ابلاغ کیا ہے۔ اس محاذ پر انہیں کسی قابلِ ذکر مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے مخالفین کے پاس سرے سے کوئی جوابی بیانیہ ہی نہیں تھا۔ اس پر مستزاد مہنگائی کی لہر اور معیشت کی مسلسل غیریقینی صورتحال۔ مہنگائی کے مقابلے میں ایک عام آدمی کی بے بسی نے اس میں غصہ اور اشتعال پیدا کیا جس کا ہدف موجودہ حکومت بنی۔ یہ دو منفی عوامل ہیں جو عمران خان کی مقبولیت کا باعث بنے۔
یہ میرا قیاس ہے‘ کوئی حتمی رائے نہیں؛ تاہم یہ بات واضح ہے کہ یہ کسی شعوری تبدیلی کا اظہار نہیں بلکہ ایک جذباتی ردِ عمل ہے۔ عمران خان صاحب کی حکمتِ عملی یہ رہی ہے کہ وہ اقتدار میں ہوں یا اپوزیشن میں‘ اپنے حامیوں کو مسلسل ہیجان میں مبتلا کیے رکھتے ہیں تاکہ انہیں سوچنے کا موقع نہ مل سکے۔ اس بار بھی انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اگر وہ اس ہیجان کو انتخابات تک برقراررکھ سکے تو انہیں اس کا فائدہ ہو سکتاہے۔ اگر نون لیگ اس دوران میں کوئی مؤثر جوابی بیانیہ سامنے لانے میں کامیاب رہتی ہے اور اس کا مؤثر ابلاغ بھی کر لیتی ہے تو پھر صورتحال بدل سکتی ہے۔
میرا یہ جواب‘ جیسے میں نے عرض کیا‘ حتمی نہیں ہے۔ سرسری غور و فکر سے میں جو سمجھ سکا‘ اسے بیان کر دیا۔ اس بات کی ضرورت باقی ہے کہ اس سوال کا ایسا جواب مل سکے جو سماجی تبدیلی کے مروجہ پیمانوں پر پورا اترتا ہو۔ رائے عامہ میں دنوں میں تبدیلی نہیں آتی۔ ہفتے عشرے میں ایسا کیا ہوا کہ کہ ایک فرد کی غیرمقبولیت‘ مقبولیت میں بدل گئی؟ یہ کوئی چمتکار ہے‘ جادو ہے‘ نظر کا دھوکہ ہے یا سادہ سماجی عمل؟