علی گڑھ یونیورسٹی کا فیصلہ ہے کہ سید مودودی اور سید قطب‘ اب اس کے نصاب کا حصہ نہیں ہوں گے۔ مجھے حیرت ہوگی اگر یونیورسٹی کی انتظامیہ کسی احساسِ شرمندگی کے بغیر اس فیصلے پرقائم رہتی ہے۔ ان سکالرز پر بھی حیرت ہوگی جو اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیں گے۔ صد حیرت ہوگی اگر عالمی سطح پر بھی یونیورسٹی کے اس فیصلے کو قبول کر لیا جا تا ہے۔
نصاب سے اخراج کا یہ مطلب نہیں کہ ان مفکرین کے خیالات کا مطالعہ‘ فکرِ اسلامی کے طلبہ کے لیے اس سے پہلے لازم تھا اور اب نہیں رہا۔ طلبہ و طالبات ان اہلِ علم کے افکار کو بطور اختیاری مضمون پڑھ سکتے تھے۔ اب وہ اس کا حق نہیں رکھتے۔ میرا احساس ہے کہ اتنا بڑا فیصلہ‘ ایک یونیورسٹی بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ رکھنے والی کسی مملکت کے لیے کسی طور قابلِ دفاع نہیں۔ آزادیٔ رائے پر پابندی کی یہ بدترین صورت ہے جو شاید آمرانہ ممالک ہی میں گوارا ہو سکتی ہے۔
پابندی کا محرک بظاہر ایک خط ہے جو کسی سماجی کارکن سے منسوب ہے۔ پس منظر میں مگر وہ سوچ ہے جو بھارت کو آہستہ آہستہ ایک ہندو ریاست بنا دینا چاہتی ہے۔ 'ہندو ریاست‘ اسلامی ریاست کی طرح کوئی علمی حقیقت نہیں۔ تصورِ ریاست کے لیے لازم ہے کہ وہ ایک ریاست کے تمام نقوش کو واضح کرتا ہو۔ ہم اس سے اختلاف کر سکتے ہیں مگر ریاست کا ایک وجود لازم ہے جو علمی اور خیالی ہی کیوں نہ ہو۔ مثال کے طور پر خلافت‘ ایک نظامِ ریاست ہے جسے بیان کیا جا سکتا ہے اور تاریخ نے اس کے خدو خال کو اپنے اوراق میں محفوظ بھی کر رکھا ہے۔ علم کی دنیا 'ہندو ریاست‘ کے کسی تصور سے خالی ہے۔
جسے ہندو ریاست کہا جاتا ہے‘ وہ در اصل ایک ایسا حکومتی بندوبست ہے جس میں ریاست کے تمام معاملات میں ہندو بالا دست ہوں۔ 'ہندو توا‘ یہی ہے۔ وہ چاہیں تو کسی مسجد کو ڈھا دیں‘ اس مفروضے کے تحت کہ یہاں ماضی میں کوئی مندر تھا۔ ہندو ریاست میں ہندو کا حق فائق ہے۔ عدالت کو اس کا دعویٰ تسلیم کرنا چاہیے۔ اسی اصول پر شہروں کے نام تبدیل ہو رہے ہیں۔ اس کا بدیہی نتیجہ یہ ہے کہ ہر وہ خیال اور تصور قابلِ قبول نہیں جو ہندوؤں کے اس حق کو چیلنج کرتا ہو۔ یا اس کے برخلاف ریاست کا کوئی تصور دیتا ہو۔ سیکولر ازم بھی اسی لیے قابلِ قبول نہیں۔ اگر ہوتا تو بھارت پہلے ہی ایک سیکولر ملک ہے۔ اسے 'ہندوتوا‘ نام کی کسی نئی سیاسی شناخت کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ رویہ کتنا غیرعلمی اور غیرعملی ہے‘ علی گڑھ یونیورسٹی کا یہ فیصلہ اس کا ایک مظہر ہے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی بیسویں صدی کے سب سے مؤثر مسلمان مفکر ہیں۔ ان کی علمی وجاہت کا انکار اپنی جگہ ایک جہالت ہے۔ علومِ اسلامی سے لے کر فکرِ اسلامی تک‘ انہوں نے ہر گوشۂ خیال کو متاثر کیا۔ ایک یونیورسٹی کے شعبۂ علوم اسلامی کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ ان کے افکار سے صرفِ نظر کر سکے۔ یہی معاملہ سید قطب کا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں جس نے مسلمانوں کی تین نسلوں کو اپنی فکری گرفت میں رکھا ہے‘ اس کی اثر انگیزی کا انکار محال ہے۔
ہندوستان کے پس منظر میں تو مولانا مودودی کی اہمیت اضافی ہے۔ انہوں نے اس سرزمین پر جنم لیا۔ اس کی زبان کو ابلاغ کا ذریعہ بنایا اور اس میں کیا شبہ ہے کہ اسے مالا مال کر دیا۔ مولانا نے 1941ء میں ایک جماعت قائم کی۔ یہ جماعت آج ان تینوں ممالک میں موجود ہے جو اُس وقت ایک ملک تھے۔ جماعت اسلامی بھارت میں ہمیشہ سے متحرک ہے بلکہ اس کی تاریخ‘ جدید بھارت سے قدیم تر ہے۔ جماعت اسلامی ہند نے کبھی کوئی ایسی حکمتِ عملی نہیں اپنا ئی جو بھارت کے آئین کے خلاف ہو۔ یہ جماعت‘ مولانا مودودی کی تعبیرِ دین پر کھڑی ہے۔ جماعت سے ریاست کو کبھی شکایت نہیں رہی۔ سوال یہ ہے کہ اب مولانا مودودی کے افکار ناقابلِ قبول کیوں ہو گئے؟ پھر اس فیصلے کا ایک اور پہلو ہے جو زیادہ مضحکہ خیز ہے۔ یونیورسٹی کی سطح پر جب کسی صاحبِ علم کے افکار زیرِِ بحث آتے ہیں تو اس کا مقصود تنقیدی مطالعہ ہوتا ہے۔ ان کی تائید لازم ہوتی ہے نہ تردید۔ سرمایہ دارانہ دنیاکے ہر ملک میں مارکس کو پڑھایا جاتا ہے‘ بلکہ امریکہ اور برطانیہ کے کئی بڑے تعلیمی ادارے تو کمیونسٹوں کے قبضے میں ہیں۔ وہاں آئے دن اشتراکیت پر تحقیق ہو رہی ہے اور کتابیں چھپ رہی ہیں۔ کہیں سرمایہ دار ملکوں نے مارکس اور اینجلز پر پابندی لگائی؟
میرے ایک صحافی دوست ایک زمانے میں عمران خان صاحب کے میڈیا کنسلٹنٹ تھے۔ اُس وقت جمائما صاحبہ بھی پاکستان میں تھیں۔ میرے دوست برطانیہ کی ایک یونیورسٹی میں اپنے بیٹے کا داخلہ چاہتے تھے۔ ایسے داخلوں کے لیے طالب علم کو دو معروف لوگوں کا حوالہ (Reference) دینا ہوتا ہے۔ انہوں نے عمران خان سے کہا کہ اس کے لیے جمائما سے بات کریں۔ اس پر جمائما کا کہنا تھا کہ وہ ایک بڑے سرمایہ دار‘ گولڈ سمتھ کی بیٹی ہیں۔ اس یونیورسٹی پر کمیونسٹوں کا غلبہ ہے۔ میرا حوالہ فائدے کے بجائے نقصان کا باعث بنے گا۔ جمائما کی بات درست تھی۔ برطانیہ جیسے معاشرے قائم ہی اسی وجہ سے ہیں کہ وہاں فکری آزادی کا احترام کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں بھی بعض اوقات لوگ جامعات کو اپنے افکار کی گرفت میں رکھنا چاہتے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ سب ان کے تہذیبی رویوں کے ناقل ہوں۔ اسی طرح وہی کچھ پڑھایا جائے جو وہ چاہتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ابھی تک اس سوچ کو انتظامی سطح پر پذیرائی نہیں ملی۔ یونیورسٹی کی سطح پر تحقیق کا دروازہ بند کر نے کا مطلب‘ معاشرے کو فکری طور پر بانجھ بنانا ہے۔ انتہا پسندی ایسے معاشروں کا مقدر بن جاتی ہے۔
بھارت بہت تیزی کے ساتھ مذہبی انتہا پسندی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ رجحان عوامی نہیں‘ ریاستی ہے۔ یہ ریاست ہے جو اس راستے پر دوڑے چلی جا رہی ہے۔ مسلم معاشرے آج مثال بن چکے کہ جس سرزمین پر مذہبی انتہا پسندی ہوتی ہے وہاں خوشحال کی فصل نہیں اُگ سکتی۔ یہ وہ سیم اور تھور ہے جو زمین کی زرخیزی کو کھا جاتی ہے۔ بھارت کوصرف تمام مذاہب کا احترام اور سیکولر ازم ہی متحد رکھ سکتا ہے۔ پاکستان‘ جس کی ستانوے فیصد آبادی مسلمان ہے‘ آج ایک قومی ریاست کا ماڈل اپنانے پر مجبور ہے تو بھارت کہاں ہندو توا کے بار کا متحمل ہو سکتا ہے جہاں بائیس کروڑ مسلمان بستے ہیں۔ جو گروہ کروڑوں میں ہو اسے اقلیت نہیں کہا جا سکتا۔
علی گڑھ یونیورسٹی کا فیصلہ ابھی ابتدائی درجے میں نافذ ہوا ہے۔ یونیورسٹی کی اکیڈیمک کونسل نے ابھی اس کی منظوری نہیں دی۔ امید ہے کہ وہاں بیٹھے لوگ اس فیصلے کے اُن مضمرات پرضرور غور کریں گے جو یونیورسٹی کی ساکھ کے لیے سخت نقصان دہ ہیں۔ میری تجویز ہے کہ یونیورسٹی کے اکابر بھارت کے پہلے وزیرِ تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کا وہ خطبہ صدارت ضرور پڑھیں جو انہوں نے 20 فروری 1949ء کو یونیورسٹی کے سالانہ کانووکیشن کے موقع پر دیا تھا۔ مولانا کی اس ادارے کے بارے میں ایک منفرد رائے تھی مگر واقعہ یہ ہے کہ تقسیم کے بعد اسے زندہ رکھنے میں ان کا بڑا کردار ہے۔ وہی تھے جنہوں نے ڈاکٹر ذاکر حسین کو اس کا وائس چانسلر بننے پر آمادہ کیا۔
بھارت میں برصغیر کی مسلم روایت کی حفاظت‘ علی گڑھ یونیورسٹی کے فرائض میں سے ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس کے منتظمین اپنے اکابر کی طرح ہندو اکثریت کے جبر کا جرأت کے ساتھ سامنا کریں گے۔ اسی میں بھارت کی بھلائی ہے۔