فن شائستگی سے ہم آہنگ ہو جائے تو اسے نیرہ نور کہتے ہیں۔
کچھ لوگوں پر پروردگار کا خصوصی کرم ہوتا ہے۔ وہ انہیں کسی خاص نعمت کی عطا کے لیے چن لیتا ہے۔ وہ چاہے تو کسی کی آواز میں ترنم گھول دے۔ کسی کی انگلیوں میں نقش و نگار بھر دے۔ کسی کے دماغ کو فطرت کے سربستہ رازوں کا ٹھکانہ بنا دے۔ انسان اپنی جستجو سے اس نعمت کو دریافت کرتا اور محنت سے اس کو مزید سنوارتا ہے۔ اسی سے فنون وجود میں آتے ہیں۔ نعمت کے شکر کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اپنے وجود میں چھپی نعمت کو تلاش کیا جائے اور پھر اس کی تہذیب کی جائے۔ اس کی اعلیٰ ترین صورت یہ ہے کہ اس نعمت کو پیغمبروں کے سکھائے اخلاق کی پناہ میں دے دیا جائے۔
نیرہ نور کو ایک خوب صورت آواز سے نوزا گیا۔ انہوں نے اس کی تہذیب کی اور زبانِ حال سے یہ بتایا کہ موسیقی اور آواز کا تعلق کانوں سے ہے‘ اچھل کود سے نہیں۔ یہ حس جمالیات کو جِلا دینے کے لیے ہے۔ یہ دل کی سختی کو دور کرتی اور اسے محبت جیسے لطیف جذبات کو سمجھنے اور انہیں قبول کرنے کے قابل بناتی ہے۔ موسیقی کا حقیقی شعور اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب سننے والا ہمہ تن گوش ہو جائے۔ یہاں تک کہ گانے والے کی صنف اور دیگر خوبیاں غیر اہم ہو جائیں یا ضمنی۔
نیرہ نور کو سن کر کبھی یہ گمان نہیں ہوا کہ موسیقی یا گائیکی کا کوئی تعلق لہو و لعب سے بھی ہو سکتا ہے۔ دھیمے لہجے میں جیسے کوئی کانوں میں رس گھول رہا ہو۔ شاعری کی اثر انگیزی کو آواز نے جیسے بڑھا دیا ہو۔ اخلاق کے لیے مضر کوئی خیال کبھی قریب بھی نہیں بھٹکتا۔ جو لوگ موسیقی کی ہر صورت کو لہو و لعب میں شمار کرتے ہیں‘ ان سے گزارش ہے کہ نیرہ نور کو سنیں‘ اگر وہ ابھی تک اس سے محروم رہے ہیں۔ اور اگر انہوں نے نیرہ کو سن رکھا ہے تو دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ ان کے اخلاق کو اس سے کتنا نقصان ہوا؟
جو لوگ علی الاطلاق موسیقی اور گائیکی کو مضرِاخلاق سمجھتے ہیں‘ میرا خیال ہے کہ وہ موسیقی سے واقف نہیں۔ اگر نیرہ نور کو سننے میں ان کا تقویٰ مانع ہے تو پھر انہیں مولانا ابوالکلام آزاد کی 'غبارِ خاطر‘ کا آخری خط پڑھ لینا چاہیے۔ اگر کسی میں حسِ جمالیات ہے تواس کے جذبات میں جو گداز مولانا کی تحریروں سے پیدا ہوتا ہے‘ وہی گداز نیرہ نور کی آواز بھی پیدا کرتی ہے۔ شرط بس یہی ہے کہ دل لطیف باتوں کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
ایک معاشرے میں سماجی اور مذہبی انتہا پسندی دو اسباب سے پیدا ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ قومی اور مذہبی معاملات میں عقل کا استعمال نہ کیا جائے۔ سماج روایت اور مذہب نقل کے تابع ہو جائے۔ دوسرا یہ کہ لطیف جذبات کے لیے زندگی میں کوئی جگہ نہ ہو۔ محبت‘ ایثار‘ احسان‘ عدل‘ خدا ترسی‘ یہ سب جذبات اسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب انسان کا لطیف وجود سلامت ہو۔ فلسفۂ عقل کے استعمال کا سلیقہ اور فنونِ لطیفہ لطیف جذبات کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ ہمارے نظامِ تعلیم میں فلسفے کے لیے کوئی جگہ ہے نہ فنونِ لطیفہ کے لیے۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم انتہا پسند معاشرہ بن چکے۔ ایک سیاست محفوظ تھی۔ اب وہ بھی اس کی نذر ہو چکی۔ ایسا ہونا ہی تھا۔ جو معاشرہ سماجی اور مذہبی معاملات میں انتہا پسند ہے‘ یہ کیسے ممکن ہے کہ سیاست میں روا دار ہو؟ سیاست نام ہی برداشت اور دوسروں کے وجود کو قبول کرنے کا ہے۔ اب اس کی جگہ فسطائیت نے لے لی ہے۔ فسطائی ذہن مذہب میں ہو یا سیاست میں‘ وہ سماج کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔ اہلِ حق اور اہلِ باطل۔ لوگ سیاسی طور پر انتہا پسند ہوتے ہیں لیکن مذہبی معاملات میں فرقہ واریت کی نفی کرتے ہیں۔ یا مذہب میں فرقہ پرست ہوتے میں مگر سیاست میں رواداری کی بات کرتے ہیں۔ یہ کھلا تضاد ہے جس کا انہیں شعور نہیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ لوگ فلسفے کے نام پر یا فنونِ لطیفہ کے میدان میں حدود سے تجاوز کرتے ہیں۔ فلسفہ الحاد کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ فنون میں اخلاق باختگی آ جاتی ہے۔ اس کو مگر جواز بنا کر عقل کے استعمال یا لطیف جذبات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ آدمی سوچتا ہے کہ لوگ مذہب کے نام پر کسی انسان کی جان کیسے لے سکتے ہیں؟ کسی کی جان لینا کیسے ممکن ہے اگر کسی کا لطیف وجود زندہ ہے؟ کوئی سرِعام کسی کی توہین کیسے کر سکتا ہے‘ اگر اسمیں انسانی جذبات کو سمجھنے کی حس موجود ہے؟
شہباز گل صاحب نے ہماری سیاست کو جس طرح بد اخلاق بنایا‘ ہم سب اس سے واقف ہیں لیکن جب میں نے پہلی بار ان پر جسمانی اور جنسی تشدد کی بات سنی تو یوں لگا جیسے کسی نے میرے سامنے میرے کسی دوست یا عزیز کی توہین کر دی ہے۔ میرے پاؤں تلے سے جیسے زمین نکل گئی ہو۔ مجھے قدرے اطمینان ہوا جب ایسے شواہد سامنے آئے جن سے اس تشددکی تردید ہوتی ہے۔ میرے دل سے دعا نکلی کہ اللہ کرے یہ سب جھوٹ ہو۔ جرم اور قانون کا معاملہ الگ ہے لیکن ایک انسان کی توہین کیسے کی جا سکتی ہے؟ مجھے ان پر بھی حیرت ہے جو مریم نواز کی توہین کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتے تھے۔ میں سنجیدگی سے سوچتا ہوں کہ عمران خان صاحب‘ جب دوسروں کو توہین آمیز القاب سے پکارتے ہیں تو کیا ان کا اپنا ضمیر اس پر احتجاج نہیں کر تا ہوگا؟
اگر ایک آدمی کسی کی توہین کرے اور اس پر اس کا ضمیر احتجاج نہ کرے تو پھر اسے اخلاقی معالج کی سخت ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اخلاقی طور پر بے حس ہو چکا۔ اگر انسانوں کا کوئی گروہ اس پر تالیاں بجاتا ہے تو اسے بھی علاج کی شدید ضرورت ہے۔ انسانوں کی توہین سے لذت کشید کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نفسیاتی مریض بن چکے۔ یہ اخلاقی طور پر نارمل رویہ نہیں ہے۔ یہ فنون لطیفہ ہیں جن سے انسانی جذبات کا احترام پیدا ہوتا ہے۔ آپ دوسروں کے جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے زبان کھولتے اور ہاتھ اٹھاتے ہیں۔
نیرہ نور جیسے لوگ یہی سماجی خدمت سر انجام دیتے ہیں کہ وہ معاشروں میں لطیف جذبات کو زندہ رکھتے ہیں۔ انہیں جذباتی طور پر معتدل اور متوازن بناتے ہیں۔ میں موسیقی کے فن کا ماہر نہیں‘ اس لیے ان کے فنی قد کاٹھ پر کوئی حکم نہیں لگا سکتا۔ میں سماج کا ایک طالب علم ہوں اور یہ جانتا ہوں کہ انہوں نے سماج کو شائستہ اور خوبصورت بنانے کی غیر معمولی خدمت سر انجام دی ہے۔ انہوں نے موسیقی کو ان آلودگیوں سے محفوظ رکھا ہے جو اس فن کی بے توقیری کا باعث بنی ہیں۔ یوں فن کی بھی خدمت کی ہے۔
اس سماج کو جس طرح علما‘ سکالرز‘ دیگر علوم و فنون کے ماہرین کی ضرورت ہے‘ اسی طرح نیرہ نور جیسی خوبصورت آوازوں کی بھی ضرورت ہے۔ شہریوں کی تعلیم و تربیت کا ایک رسمی نظام ہے جس کا تعلق تعلیمی پالیسی‘ نصاب اور تعلیمی اداروں کے ماحول سے ہے۔ ان میں‘ جب فلسفہ اور فنون لطیفہ کی تعلیم نہیں ہوتی تو اس سے ادھوری شخصیات پیدا ہوتی ہیں۔ اس کا نقصان اپنی جگہ۔ لوگوں کی ایک تربیت سماجی ادارے بھی کرتے ہیں جو موسیقی‘ شاعری اور دوسرے لطیف فنون کو زندہ رکھتے ہیں۔ یہ غیر رسمی تعلیم ہے۔ یہ ادارے سماج کے مزاج کی تشکیل کرتے ہیں۔
اگر انتہا پسندی اور ہیجان کے باوجود‘ ہمارے معاشرے میں اقدار باقی ہیں تو اس کا سبب نیرہ نور جیسے لوگ ہیں جنہوں نے سماج کو اخلاقی اور جذباتی سطح پر مرنے نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ کے حضور میں ان کی مغفرت کے لیے دعا ہے۔