رہنمائی کا دعویٰ رکھنے والوں کے خیالات اگر اس قدر اُلجھے ہوں تو وہ عوام کو کیا راستہ دکھائیں گے؟
کس طرح آہ خاکِ مذلت سے میں اُٹھوں
افتادہ ترجو مجھ سے مرا دستگیر ہو
عمران خان صاحب کے تازہ ترین ارشادات پر عدالتِ عالیہ کو بھی اظہارِ افسوس کرنا پڑا۔ ان کا فرمان ہے:یہ 'اپنا‘ آرمی چیف لانا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی 'محبِ وطن‘ چیف آ گیا تو وہ 'ان سے پوچھے گا‘۔ تقریر سننے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔ ایک ماشہ سونے کے لیے کون منوں ریت چھانتا رہے۔ ایک ماشہ بھی شاید کثرت کے لیے مبالغہ ہو۔ میں اگلے دن کا انتظار کرتا اور اخبار میں پڑھتا ہوں۔ اس بارپڑھتا اور سر دھنتا رہا۔ ایک سوال بار بار دماغ کے دروازے پر دستک دیتا تھا:کیا ان جملوں میں‘ کسی زاویے سے آئین‘ سیاست ‘ جمہوریت اور ریاست کا کوئی شعور جھلکتا ہے؟
آرمی چیف کاانتخاب وزیر اعظم کرتا ہے مگر گلی بازار سے نہیں۔ اس کے سامنے تین نام رکھے جاتے ہیں۔ یہ تینوں پہلے سے جنرل کے عہدے پر فائزہوتے ہیں۔ حب الوطنی اورپیشہ ورانہ مہارت کے ہر مروجہ امتحان سے‘ کامیابی کے ساتھ گزرنے کے بعد‘ اس منزل تک پہنچتے ہیں کہ ان کو پاک فوج کی سپہ سالاری کے قابل سمجھا جائے۔ تینوں اس کی اہلیت رکھتے ہیں کہ یہ منصب ان کے حوالے کر دیا جائے۔ یوں ان ناموں میں سے کسی ایک کا انتخاب زیادہ اہم نہیں ہو تا۔ اگر فرق ہو سکتا ہے تو افتادِ طبع کا۔ آرمی چیف کے انتخاب کی کل حقیقت بس اتنی ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ فوج ‘وزارتِ دفاع کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ آرمی چیف کی ذمہ داریاں قانون میں بیان ہو گئی ہیں۔ ان ذمہ داریوں میں کہیں یہ بات نہیں لکھی گئی کہ وہ وزیراعظم سے پوچھے کہ تم نے مال کیسے کمایا؟تمہاری دولت کہاں ہے؟ وزیراعظم خدا اور عوام کے بعد‘ عدالتوں کے سامنے جوابدہ ہے ‘اگر وہ قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ وزیر اعظم سے ان کے علاوہ کوئی نہیں پوچھ سکتا۔ وزیروں کا معاملہ بھی یہی ہے اور دیگر اہلِ سیاست کا بھی۔ گویا کسی سے خوف زدہ ہونا ہے تو اس کی سزا وار خدا کی ہستی ہے۔ اس کے بعدعوام ہیں یا پھر عدالت۔ آرمی چیف کا اس معاملے سے کچھ لینا دینا نہیں۔
کیا خان صاحب کے ارشاد ات میں اس بات کا کوئی ادراک کہیں دکھائی دیتاہے؟ان کے فرمودات سے پہلا تاثر تو یہ ملتا ہے کہ وزیراعظم جس کو چاہے‘آرمی چیف بناسکتا ہے۔ وہ کوئی ایسا آدمی بھی ہو سکتا ہے جس کی حب الوطنی ہی مشکوک ہو۔ گویا اس منصب کے لیے کوئی بنیادی اہلیت نہیں۔ یہ تمام تر وزیراعظم کی صوابدیدپرمنحصرہے۔ وہ چاہے تو گلی بازار سے کسی کو اٹھا کر آرمی چیف بنا دے۔ دوسرا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اقتدار کا مرکز پارلیمنٹ ہے نہ آئین بلکہ یہ ایک ادارے کا سر براہ ہے۔ وہ جس کو چاہے اس سے پوچھ سکتا ہے۔ اس کے مالی معاملات کے بارے میں اس سے سوال کر سکتا ہے۔ اہلِ سیاست کو کرپشن کے الزام میں پکڑسکتا ہے۔
یہ بیان لا علمی کی انتہا ہے یا ذہنی غلامی کی۔ اگر آئین اور قانون کے زاویے سے دیکھا جائے تواسے لا علمی کہیں گے۔ یہ ایک ایسے آدمی کا بیان ہو سکتا ہے جو نہیں جانتا کہ آئین آرمی چیف کی کیا ذمہ داریاں بیان کر تا ہے۔ اگر یہ حالات کا بیان ہے کہ پاکستان میں یہی ہو تا آیا ہے تو یہ ذہنی مرعوبیت کی انتہا ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ کہنے والے کا ذہنی سانچہ جمہوری ہے نہ آئینی۔ وہ اس جاری عمل ہی کو درست سمجھتا ہے جس میں آئین سے ماورا اقدام کیے جاتے اور ملک کے وزیراعظم کو ایک ماتحت ادارے اورمنصب کے سامنے جوابدہ سمجھا جا تا ہے۔
یہ واقعہ ہے کہ پاکستان میں ایسا ہی ہو تا آیا ہے۔ جب پرویز مشرف صاحب نے ایک منتخب وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کو غیر آئینی طور پر ختم کیا تو ان کے خلاف ایک الزام نامہ جاری کیا۔ اس میں سرِ فہرست کرپشن کا الزام تھا۔ بز عمِ خویش انہوں نے یہ سمجھا کہ منتخب وزیر اعظم اورحکومت کا احتساب ان کی ذمہ داری ہے۔ جنرل ضیاالحق مر حوم نے بھی ایسی ہی ایک ذمہ داری اپنے سر لی۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ یہ دونوں اقدامات آئین سے ماورا تھے۔ کوئی جمہوری آدمی ان کی تائید نہیں کر سکتا۔
عمران خان صاحب کا یہ فرمان اگر لاعلمی نہیں تو اس بات کا اعلان ہے کہ وہ آئین کو نہیں‘تاریخ کو درست سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک ایک 'محبِ وطن‘ آرمی چیف کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ وزیراعظم کا بھی احتساب کرے۔ چونکہ ہماری تاریخ میں ایسا ہوتا آیاہے‘اس لیے یہی درست ہے۔ کرپٹ سیاست دانوں کو اسی لیے فوج کے سپہ سالار سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ کیا معلوم کس وقت وہ انہیں احتساب کے کٹہرے میں لا کھڑا کرے۔ ان سے سوال کربیٹھے کہ انہوں نے پیسے کہاں سے اور کیسے کمائے ہیں؟
عمران خان صاحب کا یہ ابہام بتا رہا ہے کہ وہ ابھی تک اپنے ہدف کے بارے میں واضح نہیں۔ کبھی ایک کو للکارتے ہیں اور کبھی دوسرے کو۔ کبھی ریاستی اداروں کو اور کبھی اہلِ سیاست کو۔ انہیں ایک بال سے دو وکٹیں لینے کا شوق ہے‘حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں ہو تا۔ وہ حکومت اور'ہینڈلرز‘ کو ایک ساتھ نشانے پر رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ‘ہینڈلرز‘ان کے مخالفین کے بجائے انہیں ' ہینڈل‘ کریں۔ اس ابہام میں جمہوریت اور آئین‘سب کچھ کھو جا تا ہے۔
جمہوریت کا تقاضا ہے کہ وہ'ہینڈلرز‘ کے غیر جانبدار رہنے کا مطالبہ کریں۔ وہ مگر یہ نہیں کہتے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ وہ ان کا ساتھ دیں کیونکہ معرکۂ حق وباطل میں غیر جانبداری شرفِ انسانیت سے محرومی ہے۔ اسی لیے وہ خواہش رکھتے ہیں کہ ایسا آرمی چیف آئے جو ان کے مخالفین کو کرپٹ سمجھے اور ان سے پوچھے کہ انہوں نے پیسہ کیسے بنایا۔ اس مطالبے کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں۔
عمران خان صاحب کا سارا سیاسی مقدمہ اسی طرح کے ابہامات کا مجموعہ ہے۔ ان کا ہدف یہ ہے کہ ملک میں ایک جماعتی نظام ہو اور ریاستی ادارے اس جماعت کے دست و بازوہوں‘اسی لیے وہ چین کے سیاسی نظام کو مثالی سمجھتے ہیں۔ عسکری ادارے کرپشن کے الزمات میں لوگوں کو پکڑیں اور مختصر سماعت کے بعد لٹکا دیں۔ اس تصورِحکومت کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں۔ پاکستانی آئین میں بھی اس کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ عمران خان کا مسئلہ مگر آئین ہے نہ جمہوریت۔ وہ مطلق العنان بادشاہت چاہتے ہیں۔ یہ عوامی تائید کے ساتھ ہو توپاپولرفاشزم بن جا تا ہے۔
اس بیان پر روایتی سیاست کے علم برداروں ہی نے درست بات کہی۔ رضا ربانی صاحب سے لے کر عرفان صدیقی صاحب تک‘ سب نے معاملے کے آئینی اور جمہوری پہلو کو واضح کیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا آئینی اور جمہوری شعور کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اہلِ سیاست اگر خود آئین اور سیاسی معاملات میں واضح اور یکسو نہ ہوں تو وہ قوم کی بھی درست رہنمائی نہیں کر سکتے۔ سیاست میں پچیس برس گزارنے اور کم و بیش چار سال ملک کا وزیراعظم رہنے کے باوجود‘ اگر کسی کاتصورِ سیاست اتنا ناقص ہے تو یہ بات قوم کے لیے باعثِ تشویش ہونی چاہیے۔ یہ تشویش مگر وہاں محسو س ہوتی ہے جہاں فرد کے بجائے اصول ‘صداقت کا معیار ہو۔ جن کے لیے ایک فرد کا فرمان خود معیار ہے‘ان سے کیا توقع؟