ایران میں عوام کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر ہے۔ احتجاج کی ایک لہر ہے جو ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی ہے۔
آسان راستہ یہ ہے کہ اسے 'شیطانِ کبیر‘ امریکہ کی ساز ش قرار دے کر‘ داخلی کردار بری الذمہ ہو جائیں۔ احتجاج کو ریاستی قوت سے کچل ڈالا جائے اور جو شہری اس کی نذر ہو جائیں‘ ان کے کفن پر ' فسادی‘ اور 'استعمار کے ایجنٹ‘ کا لیبل لگا اکر انہیں سپردِ خاک کر دیا جائے۔ ایرانی حکومت نے یہی راستہ چنا ہے۔ ایران میں برسراقتدار مذہبی طبقے کے حامیوں اور مداحوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں بھی بستی ہے۔ ایران کا انقلاب فرقہ وارانہ تقسیم سے ماورا‘ اہلِ پاکستان کی ایک بڑی تعداد کے لیے بھی طویل عرصہ باعثِ کشش رہا۔ ایک طبقہ اب بھی موجود ہے جو اس انقلاب کے ساتھ ایک رومانوی تعلق رکھتا اور دل میں یہ خواہش لیے ہوئے ہے کہ ایران جیسا انقلاب پاکستان میں بھی آنا چاہیے۔ یہ طبقہ خیال کرتا ہے کہ ہمارے مسائل کا حل ایران جیسی 'اسلامی ریاست‘ کے قیام میں ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ ان واقعات کا تجزیہ کیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ یہ تجربہ ہمارے لیے کیا سبق لیے ہوئے ہے۔
یہی طبقہ ہے جو افغانستان میں طالبان کی حکومت کو بھی مثالی سمجھتا اور ایران کے بعد‘ اسے ایک دوسری نظیر کے طور پر پیش کرتا ہے جہاں اسلام نافذ ہو چکا۔ اس سے پہلے ایک گروہ سعودی عرب کے نظام کو بھی ہمارے لیے بطورِ مثال پیش کرتا رہا ہے‘ جہاں ان کے خیال میں 'اسلام‘ نافذ ہے۔ ان تینوں تجربات کا مشترک نتیجہ یہ نکالا جاتاہے کہ 'ہماے مسائل کا حل اسلام کا نفاذ ہے اور ہمیں بھی اسی کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے‘۔ لہٰذا ہمارے لیے یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ان تینوں کا باہمی تعلق کیا ہے؟
ایران میں اٹھنے والی حالیہ احتجاجی لہر کی تین جہتیں ہیں۔ سولہ ستمبر کو ایک بائیس سالہ لڑکی مہسا امینی‘ مذہبی پولیس (گشتِ ارشاد) کی قید میں جان کی بازی ہار گئی۔ یہ لڑکی اس جرم میں گرفتار ہوئی کہ اس نے حجاب کے اس معیار کی پابندی نہیں کی‘ جسے ملکی قانون لازم قرار دیتا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس کی موت طبعی تھی۔ احتجاج کرنے والوں کا موقف یہ ہے کہ اس کی موت پولیس تشدد کا نتیجہ تھی۔ یہ اس احتجاج کی ایک جہت ہے۔
مرنے والی لڑکی کرد تھی۔ اس کی نسلی شناخت‘ ایرانی اکثریت سے مختلف ہے۔ یوں اسے نسلی اختلاف کے تناظر میں بھی دیکھا گیا اور کرد اپنی شناخت کے تحفظ کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ یہ اس احتجاج کی دوسری جہت ہے۔ تیسری جہت کا تعلق ایک مسلمان مذہبی اقلیت سے ہے۔ زاہدان کا علاقہ سنی اقلیت کا مرکز ہے۔ یہاں پولیس کے ایک افسر کے ہاتھوں ایک بچی کی موت سے فسادات پھوٹ پڑے۔ ان تین جہتوں کے ساتھ احتجاج زاہدن کے سرحدی علاقے سے دارالخلافہ تہران تک پھیل چکا ہے‘ جہاں شریف یونیورسٹی اس کا بڑا مرکز ہے۔ یہ برسوں بعد اٹھنے والی سب سے شدید احتجاجی لہر ہے۔
میں ان تین جہتوں کو جوہری طور پر ایک سمجھتا ہوں۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ ایک مذہبی حکومت ملک و قوم کو درپیش معاشی‘ سماجی اور سیاسی مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی۔ ریاست مذہبی ہو یا غیر مذہبی‘ اس کے بنیادی مسائل یکساں ہوتے ہیں۔ معلوم یہ ہوا کہ مسئلہ مذہب کے نفاذکا نہیں‘ گورننس کا ہے۔ اگر کسی گروہ کے پاس گورننس کی صلاحیت نہیں ہے تو مذہب بھی اس کے کام نہیں آتا۔
انقلاب‘ ایک رومانوی فضا میں جنم لیتا اور تلخ زمینی حقائق کے بھنور میں دم توڑ دیتا ہے۔ 1979ء میں جب ایران میں انقلاب آیا تو یہ شہنشاہیت کے جبر کے خلاف احتجاج تھا۔ عوام نے خیال کیا کہ مذہبی پیشوا انہیں اس جبر سے نجات دلا دیں گے۔ معلوم ہوا کہ شہنشاہ کے شخصی جبر سے نکل کر لوگ ایک سنگین تر جبر کا شکار ہو گئے ہیں جو مذہب کے لبادے میں ہے۔ مذہب کے مابعد الطبیعیاتی تصورات‘ جبرکی شدت کو دوچند کر دیتے ہیں۔ خمینی صاحب جیسی شخصیت کی طبعی سادگی اور وقار بھی اس کو روک نہیں سکتے۔
ایران میں مذہب کی نہیں‘ مذہبی طبقے کی حکومت ہے۔ اسے 'پاپائیت‘ کہتے ہیں۔ اس نظامِ سیاست میں مذہبی طبقہ خدا کے نام پر حکومت کرتا اور یہ باور کراتا ہے کہ وہ اس زمین پر خدا کا نمائندہ ہے۔ ان کی مخالفت گویا خدا کی مخالفت ہے، جس دلیل کو ماضی میں بنو عباس جیسے مملوک نے استعمال کیا‘ موجودہ دور میں ایران اور افغانستان کے حکمران بھی اسی کو استعمال کر رہے ہیں۔ یہی ان میں قدرِ مشترک ہے۔ سعودی عرب میں یہ نظام قدرے مختلف ہے۔ وہاں دو خاندانوں میں حکومتی اختیارات منقسم ہیں۔ ایک کے پاس دنیاوی امور ہیں اور دوسرے کے پاس دینی۔ دنیاوی امور میں آلِ سعود کا فرمان حرفِ آخر ہے اور دینی امور میں آلِ الشیخ کا فرمایا مستند ہے جو امام محمد بن عبدالوہاب کی نسل میں سے ہیں۔ یہ 'پاپائیت‘ ہی کی مختلف صورتیں ہیں۔
ایران میں مذہبی طبقے کی حکومت کو قائم ہوئے چالیس سال سے زیادہ ہوگئے ہیں۔ یہ ایک طویل عرصہ ہے جو ایک نظام کی افادیت کے بارے میں حتمی رائے قائم کر نے کے لیے کفایت کرتا ہے۔ وقت کی شہادت یہ ہے کہ اس دوران میں ایرانی عوام کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ ایران میں سماجی اضطراب ہے۔ معیشت بے حال ہے اور ملک بین الاقوامی دنیا سے حالتِ جنگ میں ہے۔
مذہبی طبقے نے اپنی دینی تعبیرات کو عوام پر بالجبر نافذ کرنے کی کوشش کی۔ اس کی سعی و جہد کا مرکز عوام کے معاشی‘ سیاسی اور سماجی مسائل نہیں بن سکے۔ اس کے خلاف ایک نہ ایک دن عوام کو اٹھنا تھا۔ ریاست اگر عوام کے دنیاوی مسائل حل نہ کر سکے تو ان کے کسی کام کی نہیں۔ ہم خلافتِ راشدہ کی مثال پیش کرتے ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ وہ ایک الٰہی فیصلہ تھا‘ واقعات کی شہادت یہ ہے کہ اس حکومت نے عوام کے مسائل حل کیے۔ یہ جبر سے آزاد ایک حکومت تھی جس میں سب کے لیے آسودگی تھی۔ خلافتِ راشدہ مذہبی طبقے کی حکومت ہرگز نہیں تھی۔ وہ اچھی گورننس کی ایک صورت تھی جو رہتی دنیا تک ایک مثال رہے گی۔
بعد میں آنے والوں نے یہ سمجھا کہ خلافتِ راشدہ یا اسلامی حکومت سے مراد مذہبی طبقے کی حکومت ہے۔ اسی کو 'خلافت‘ اور 'ولایتِ فقیہ‘ کے عنوان سے نافذکرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ یہ ایران کے مذہبی پیشوا ہوں یا افغانستان کے طالبان‘ سب کا فہمِ اسلام یہ ہے کہ عورتوں پر پردے کے مخصوص اورگروہی تعبیر پر مبنی احکام نافذکرنے سے‘ نفاذِ اسلام کا تقاضا پورا ہو جاتا ہے۔ رہی عوام کی معاشی خوش حالی اور سیاسی و شخصی آزادی تو یہ اسلامی ریاست کے مسائل نہیں ہیں۔ اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ عوام اس نظام کے خلاف احتجاج پر مجبور ہوگئے۔
سعودی عرب میں تیل کی وجہ سے وسائل کی فراوانی رہی اور ریاست نے ان وسائل کو عوام پر بھی خرچ کیا۔ اس سے وہ اضطراب پیدا نہ ہوا جو افغانستان یا ایران میں ہوا؛ تاہم چونکہ یہ نظام بھی اصلاً جبر پر قائم تھا‘ اس لیے اس کے خلاف عوام میں بے چینی بڑھ رہی تھی۔ سعودی عرب کی موجودہ حکومت نے اس کا بروقت ادراک کر لیا اور ریاستی و مذہبی جبر کی بیڑیوں کو کم کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایران میں اٹھنے والی احتجاج کی یہ لہر بتا رہی ہے کہ ایران کی قیادت کو بھی اس کا ادراک کرنا ہوگا۔ مذہبی طبقے کی حکومت اب ماضی کی داستان ہے۔ تاریخ آگے بڑھ رہی ہے۔ اس کی گردش کو معکوس کرنے کی ہر کوشش کا انجام ناکامی ہے۔ افغانستان کے طالبان کو بھی یہ بات سمجھانا ہوگی۔ جوحکومت عوام کے بنیادی مسائل حل نہیں کر سکتی‘ ختم ہو جاتی ہے‘ چاہے اس کی بنیاد کسی مقدس تصور ہی پر کیوں نہ ہو۔