عمران خان صاحب کے تازہ فرمودات سن کر‘ مجھے فیض صاحب کی ایک سدا بہار نظم یاد آئی: ''رقیب سے‘‘۔
اس نظم کا خان صاحب سے کیا تعلق ہے‘ اس پر کچھ عرض کرنے سے پہلے‘ میں آپ کو اس نظم کا ایک حصہ سنانا چاہتا ہوں۔ 'رقیب‘ کسی بھی داستانِ عشق کا ایک ناپسندیدہ کردار ہے۔ محبت کی بستی میں جس کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ راندۂ درگاہ۔ فیض صاحب نے مگر اس کردار کو ایک نیا روپ دیا۔ اس کو ولن کے بجائے‘ ہیرو کا ہم سر بنا دیا۔ نہ صرف ہم سر بلکہ ہمدم۔ رازدار اور ہم درد۔
آپ میں سے اکثر نے یہ شاہکار نظم پڑھ رکھی ہو گی کہ اردو شاعری سے کچھ بھی رغبت رکھنے والا‘ اس سے ناواقف نہیں ہو سکتا۔ فیض صاحب نے رقابت کے رشتے میں پوشیدہ انسانی تعلقات کی جس جہت کو نمایاں کیا‘ اور اس کردار سے نفرت کے بجائے‘ ہمدردی کا جو تعلق استوار کیا‘ وہ اس وقت میرا موضوع نہیں۔ آج مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ خان صاحب کے بیانات سے مجھے یہ نظم کیوں یاد آئی اور میں نے اس سے کیا معانی کشید کیے ہیں جس کا تعلق خان صاحب کے سیاسی عشق سے ہے۔
تعلق کی مشترکہ اساسات تلاش کرتے ہوئے‘ فیض صاحب رقیب سے ہم کلام ہیں:
تُو نے دیکھی ہے وہ پیشانی‘ وہ رخسار‘ وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے
تجھ پہ اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے
وہ رقیب کو توجہ دلاتے ہیں:
ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غمِ الفت کے
اتنے احسان کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے
جز ترے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں
اب آئیے خان صاحب کے تازہ ارشادات کی طرف۔ فرمایا کہ چار سال مجھ پہ اقتدار کی محض تہمت رہی۔ حکومت کا مرکز تو کہیں اور تھا جہاں سے فیصلے صادر ہوتے تھے۔ یہ بھی کہا: ''کیا ایجنسیوں کا یہی کام رہ گیا ہے کہ وہ اپنوں کی جاسوسی کریں؟‘‘۔ حاصل یہ ہے کہ عدلیہ‘ مقننہ‘ انتظامیہ‘ ریاست کے حقیقی مراکزِ اقتدار نہیں ہیں۔ یہ محض کتابی بات ہے۔ ایک سراب ہے۔ ملک کا اختیار کسی اور کے پاس ہے اور اس اختیار میں کوئی اس کے ساتھ شریک نہیں۔ سب اسی کے مہرے ہیں۔
اگر آپ اپنی یادداشت پر زور دے سکیں توآپ کو احساس ہوگا کہ یہ باتیں سنی ہوئی ہیں۔ ان میں کچھ نیا نہیں ہے۔ یہ صدائے بازگشت ہے جس سے ہماری سماعتیں اچھی طرح آشنا ہیں۔ 1999ء سے بالخصوص‘ یہی باتیں نواز شریف صاحب کہتے آئے ہیں۔ ان کا آہنگ بلند ہوتا گیا‘ یہاں تک کہ 2016ء تک پہنچتے پہنچتے‘ سب کچھ سامنے آگیا۔ کچھ نادیدہ نہ رہا۔ حقیقتیں برہنہ ہو کر ہمارا منہ چڑانے لگیں۔ معاملہ یہاں تک آ پہنچا کہ اسلام آباد کے چائے خانے سیاسی مراکز میں بدل گئے۔ دن دہاڑے سودے ہونے لگے۔ انتخابی امیدواروں کے فیصلے‘ سیاسی جماعتوں کے اجتماعات میں نہیں‘ ان ریستورانوں میں ہوتے تھے۔
یہ وہ دور تھا جب ریاست کا سارا نظام 'وحدت الوجود‘ کا عملی نمونہ تھا اور 'رجال الغیب‘ نے پردے اٹھا دیے تھے۔ ہم انہیں بچشمِ سر دیکھ سکتے تھے۔ اس نظام کا ایک مظہر 'جے آئی ٹی‘ بھی تھی۔ عمران خان صاحب کا وجود‘ اس وحدت میں پگھل کر‘ 'من تو شدم، تو من شدی‘ کا منظر پیش کر رہا تھا۔ تب انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ فیصلے کہاں ہو رہے ہیں؟ اقتدار کا اصل مرکز کون ہے؟ کون ہے جو الیکٹ ایبلز کو ہانک کر تحریکِ انصاف کی چھتری تلے جمع کر رہا ہے؟ 'تاحیات نااہلی جس کالے قانون کا نتیجہ ہے‘ وہ آئین میں تو درج نہیں۔ قانون کی یہ تعبیر کس ٹکسال میں ڈھلی ہے اور نواز شریف ہی اس کا ہدف کیوں ہیں؟
اگر وہ غور کر پاتے تو اس رقیب کے ساتھ ان کو نفرت نہ ہوتی۔ ان کو اندازہ ہوتا کہ 'ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غمِ الفت کے‘۔ خان صاحب یہ بھی بتا چکے کہ وہ کون تھا جو انہیں شریف خاندان کی 'کرپشن‘ کی داستانیں اور ' ثبوت‘ فراہم کرتا تھا۔ اُس وقت تو انہوں نے ہر بات پر اعتبار کر لیا تھا۔ کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کا دھرنا کس کی کاوشوں کا ثمر تھا اور کون تھا جس نے میڈیا کو ان کی دہلیز پر بٹھا رکھا تھا؟ کون تھا جو ایک منتخب وزیراعظم کو استعفے کا پیغام بھیج رہا تھا؟
خان صاحب سے پہلے یہ داستان کئی بار دہرائی جا چکی ہے۔ کیسے ممکن تھا کہ اس بار اس کا انجام مختلف ہوتا۔ عقل مند وہ ہے جو دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اپنی عمر تجربات میں ضائع نہیں کرتا۔ نواز شریف صاحب اور بے نظیر بھٹو صاحبہ کی کہانی خان صاحب کے سامنے تھی۔ دونوں نے اپنے اصل حریف کو نہیں پہچانا اور ایک دوسرے کو رقیب سمجھتے رہے۔ نواز شریف صاحب نے بے نظیر بھٹو صاحبہ کے خلاف اقتدار کے اصل مرکز کا ساتھ دیا۔ جب نواز شریف صاحب کی حکومت ختم ہوئی تو بے نظیر صاحبہ نے پرویز مشرف صاحب کی غیر آئینی آمد کا خیر مقدم کیا۔ دونوں نے مگر اپنے اپنے تجربات سے سیکھا اور اس نتیجے تک پہنچے کہ اہلِ سیاست ایک دوسرے کے رقیب نہیں۔ سیاسی اختلافات کا رقابت میں بدلنا‘ دراصل کسی 'دوسرے‘ کے اقتدار کو مضبوط کرنا ہے۔ وہ کہ جس کی قوت کی اساس عوامی تائید نہیں۔ اہلِ سیاست کو ایک دوسرے سے اختلاف کرنا چاہیے مگر عوام کے حقِ حکمرانی پر اتفاق کر تے ہوئے۔ اسی سوچ کا حاصل وہ دستاویز ہے جسے 'میثاقِ جمہوریت‘ کا نام دیا گیا۔
اپنی بات کو دہرانا خوش ذوقی نہیں مگر میں نے بہت پہلے اس کالم میں خان صاحب کو توجہ دلائی تھی کہ سیاست دان ان کے فطری حلیف ہیں۔ جنہیں وہ اپنا حلیف سمجھ رہے ہیں‘ اقتدار کی کشمکش میں ان کے حقیقی حریف وہی ہیں۔ خان صاحب کو اہلِ سیاست کے ساتھ مل کر عوام کے اقتدار کے لیے جدو جہد کرنی چاہیے۔ میں نے تسلسل کے ساتھ یہ لکھا ہے کہ کرپشن اس ملک کا اصل مسئلہ نہیں‘ مسئلے کا نتیجہ ہے۔ کرپشن قانون شکنی سے پھوٹتی ہے اور قانون شکنی کی ماں آئین شکنی ہے۔ کرپشن کی بنیاد اس وقت پڑتی ہے جب اقتدار کا مرکز غیر آئینی طریقے سے تبدیل ہو جاتا ہے۔ سیاست دانوں کی کرپشن کا بیانیہ کہیں اور بنا ہے۔ اس کے فروغ کا مقصد اصل مسئلے سے توجہ ہٹانا ہے۔ خان صاحب اس غلط فہمی میں رہے کہ ان کے اقتدار کے لیے فضا ہموار ہو رہی ہے۔ آج ان پر منکشف ہوا کہ اقتدار تو ان کے پاس تھا ہی نہیں۔
پاکستان میں ام المسائل آئین شکنی ہے۔ اقتدار کس کا حق ہے‘ اگر اس فیصلے کا کلی اختیار عوام کے پاس ہو تو نظام ایک خود کار طریقے سے اصلاح کے راستے پر گامزن ہو جاتا ہے۔ جمہوریت ہی سے عوامی احتساب ممکن ہے۔ خان صاحب کا مخمصہ یہ ہے کہ اصل مسئلے کو سمجھ جانے کے بعد بھی‘ وہ 'نیوٹرل‘ کے نیوٹرل ہونے کے خلاف ہیں اور آج بھی یہ چاہتے ہیں کہ اہلِ سیاست کے خلاف‘ وہ ان کے حلیف بنیں۔ ان کو اس بات کا ادراک اب بھی نہیں ہو سکا کہ جو کلی اختیار کا مالک ہے‘ وہ آپ کے کلی اقتدار کا راستہ کیوں ہموار کرے گا؟
بدقسمتی یہ ہے کہ خان صاحب کی تمام تر سیاست ان کی ذات کے گرد گھومتی ہے۔ اوّل و آخر شخصی اقتدار۔ اگر وہ ذات کے حصار سے نکل پائیں اور جمہوریت کے لیے یکسو ہوں تو انہیں اندازہ ہوگا کہ ان کا حلیف کون ہے اور حریف کون۔ وقت مگر بڑا ظالم ہے۔ کیا معلوم کب انہیں نواز شریف اور بلاول کے ٹرک پر سوار کرا دے۔