میں:مجھے تو اب شک ہونے لگا ہے کہ گیارہ برس پہلے‘شاہ زیب نام کا کوئی نوجوان قتل بھی ہوا تھا۔جو دیکھا‘وہ آنکھوں کا دھوکا تھا۔جو سنا محض ایک افسانہ تھا۔
وہ:یہ کیسے ہو سکتا ہے؟وکی پیڈیا پرپوری داستان رقم ہے۔ واقعات‘ حالات‘ پس منظر۔اور کیا ہم ہر روزمیڈیا پر نہیں دیکھتے تھے کہ کیسے بہنیں نوجوان بھائی کی موت پر بلکتی تھیں؟کیا وہ والدین بھی تمہیں یاد نہیں جوغم کی تصویر بن گئے تھے؟
میں:وکی پیڈیا کاکیا بھروسا؟ نام نہاد سوشل میڈیا جوبتائے گا‘کیا ہم مان لیں گے؟یہ تو ایک بازار ہے۔رطب و یابس کا مجموعہ۔سب کچھ برائے فروخت موجود ہے۔ہم اس کہانی کے خریدار کیوں بنیں؟رہا میڈیا تو اسے جذبات سے کھیلنے کا شوق ہے۔ایک دن ایک خبر‘اگلے دن دوسری۔سچ جھوٹ کی پہچان آسان نہیں۔میڈیا کا تو کام ہی عوام کو الجھائے رکھنا ہے۔
وہ:کیا تمہیں شاہ رخ جتوئی بھی یاد نہیں‘جس پر قتل کا الزام تھا؟ وہی جو فتح کا نشان بناتا عدالت میں پیش ہو تا تھا؟ چہرے پر کوئی ندامت نہ چال میں تواضع۔ یوں لگتا تھا جیسے کوئی معرکہ سر کر کے آیا ہو۔ عدالت میں بھی اس کے چاروں طرف روپیہ پیسہ رقص کرتا دکھائی دیتا۔ جیسے ملزم نہ ہو‘ کسی ریاست کا والی ہو۔ جیل میں جسے گھر سے بہتر ماحول میسر رہا۔ ٹھا ٹ کی زندگی‘ وہ جس کا عادی تھا۔
میں:مجھے یہ کردار بھی اب افسانہ لگتا ہے۔ ہم پہلے بھی کہانیوں میں ایسے کرداروں کے بارے میں پڑھتے آئے ہیں۔لگتا ہے شاہ رخ جتوئی بھی کسی نورالہدیٰ شاہ کی تخلیق ہے۔میڈیا نے یہ کہانی اس طرح دکھائی‘جیسے کسی ڈرامے کے مناظرہیں۔جیسے کسی فلم کاکوئی ٹریلر چل رہا ہو۔جیسے ہم پھر سے 'جنگل‘ کو دیکھ رہے ہیں۔اسے اگر نو الہدیٰ نے نہیں لکھا تو کسی اورنے لکھا ہو گا۔ اگر 'جنگل‘ محض ڈرامہ تھا تو یہ ڈرامہ کیوں نہیں ہو سکتا؟ اب محسوس ہوتاہے یہ کسی ڈرامے کی شوٹنگ کے مناظر تھے جنہیں میڈیا نے نیوزکا حصہ بنا دیا۔
وہ:تو کیا عدالت بھی ایک افسانہ ہے؟عزت مآب جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے شاہ رخ کی رہائی کے احکام جاری کیے۔اس سے پہلے ایک عدالت اسے سزائے موت سنا چکی تھی اور دوسری عدالت نے اس سزا کو عمرقید میں بدل دیا تھا۔کیا یہاں عدل نہیں ہوا؟عدالت تو کہتے ہی اس جگہ کو ہیں جہاں عدل ہو۔کیا آپ کو اس سے انکار ہے؟
میں:عدالت تو افسانہ نہیں لیکن عدالت کے سامنے جو کچھ پیش کیا گیا‘وہ افسانہ تھا۔اگریہ سب کچھ حقیقت ہوتا توعدالت اس پر یقین کرتی اور مجرم کو سزا ہو جا تی۔عدالتِ عظمیٰ کی حتمی رائے یہ ہے کہ ہائی کورٹ سے مجرم ٹھیرایا گیا‘سزا کا حق دار نہیں ہے۔میرے لیے یہ گمان کرنا ممکن نہیں کہ شواہد کسی کو مجرم ثابت کرتے ہوں اور عدالت اسے رہا کر دے۔اس لیے میرا کہنا ہے کہ عدالت کو جو بتایا گیا‘سب جھوٹ تھا یا اسے پیش اس طرح کیا گیا کہ عدالت مطمئن نہیں ہو سکی۔ پھر یہ کہ عدالت میں شاہ زیب کا تو کوئی وکیل ہی نہیں تھا۔اب عدالت کیا کرتی؟
وہ:عدالت نے تو اس لیے رہا کیا کہ مقتول کے ورثا نے اسے معاف کر دیا تھا۔اسی لیے وہ اب فریق بھی نہیں تھے۔قانون یہی کہتا ہے کہ جب ورثا معاف کردیں تو پھرمجرم سے قصاص نہیں لیا جا سکتا۔عدالت قانون کے مطابق فیصلہ کرتی ہے اور اس نے یہی کیا۔
میں:مگر سنا تھاشاہ رخ جتوئی پر دہشت گردی کا مقدمہ بھی تھا۔دہشت گردی فرد کے خلاف نہیں‘سماج اور ریاست کے خلاف ارتکابِ جرم ہے۔ اس معاملے میں سزا دینے یا معاف کرنے کا اختیار تو ریاست کے پاس ہے۔ ایک فرد جب کسی کو جان سے مارنے کا منصوبہ بناتا ہے۔اسے لوگوں کے درمیان قتل کر تا ہے تو وہ پورے معاشرے کو خوف میں مبتلا کرتا ہے۔ اسی کودہشت گردی کہتے ہیں اوراس کی سنگین سزا ہے۔
وہ:آپ کی معلومات ادھوری ہیں‘اسی لیے آپ انتشارِ فکر کا شکار ہیں۔ پیپلزپارٹی کے رہنما اور پاکستان کے چوٹی کے وکیل لطیف کھوسہ صاحب نے اپنے دلائل سے عدالتِ عظمیٰ کے معزز جج صاحبان کو قائل کر لیا ہے کہ شاہ رخ نے دہشت گردی نہیں کی۔اس نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے معاشرے میں خوف پھیلا ہو۔اس واقعے سے سماج بالکل متاثر نہیں ہوا۔ کیا اس کے بعد جائے واردات پر زندگی تھم گئی؟ نہیں نا!کیا شہر کو سانپ سونگھ گیا تھا؟نہیں نا! کیا احتجاج کی کوئی بڑی لہر اٹھی؟نہیں نا! پھر یہ دہشت گردی کیسے ہوئی؟یہ سیدھا سادھا قتل تھا اور قاتل کو ورثا نے معاف کر دیا۔اللہ اللہ خیر سلا۔یہاں ہر روز اَن گنت قتل ہوتے ہیں۔کیا قتل کا ہر واقعہ دہشت گردی بن جائے گا؟ عدالت کو اس نتیجے تک پہنچانے میں کہ یہ دہشت گردی نہیں تھی‘سندھ حکومت کے قانونی نمائندے نے بھی کھوسہ صاحب کی معاونت کی۔
میں: اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ سول سوسائٹی بھی افسانہ تھی جس کے نمائندے روز احتجاجی بینر اٹھائے عدالت پہنچ جاتے تھے۔این جی اوز غیر ملکی فنڈ کھانے کے لیے ایک افسانے کو اچھالتی رہیں اور میڈیا ان کے ساتھ ملارہا۔ اسی لیے میں تم سے کہہ رہا تھا کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ یہ صرف افسانہ ہے۔شاہ زیب نام کو کوئی نوجوان نہیں پایا جاتا جو قتل ہوا تھا۔
وہ: نہیں ایسا نہیں!میں نے ابھی آپ کو بتایاہے کہ قتل ہوا تھا۔ مجرم کو سزااس لیے نہیں ملی کہ اسے ورثا نے معاف کرکے دیت لے لی تھی۔ آپ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ یہاں قصاص و دیت کا شرعی قانون نافذ ہے۔ اس قانون کے مطابق‘اگر مقتول کے ورثا قاتل کو معاف کر دیں تو پھر ریاست کا اختیار ختم ہو جاتا ہے۔ ہم آخر اسلام کی حدوں سے باہر کیسے جا سکتے ہیں؟
میں: تم مجھے کم علمی اور بے خبری کا طعنہ دیتے ہو لیکن یہ نہیں جانتے کہ یہ محض ایک تعبیر ہے۔قدیم اورجدید علماکی ایک قابلِ ذکر تعداد یہ مانتی ہے کہ قتل جیسے جرائم صرف فرد کے خلاف نہیں‘معاشرے اور ریاست کے خلاف بھی جرم شمار ہوتے ہے۔ ورثا معاف کر دیں تو بھی‘ریاست کا یہ حق باقی رہتا ہے کہ وہ مجرم پر سزا نافذ کرے۔ قرآنِ مجید نے ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل اورقصاص کو اجتماعی ذمہ داری قرار دیا ہے۔ اگر تم صرف اردو میں اس کی تفصیل پڑھنا چاہو تو مولانا عمر احمد عثمانی کی 'فقہ القرآن‘، جاوید احمد صاحب غامدی کی 'میزان‘ اور ڈاکٹر عمار خان ناصر صاحب کی 'حدود و تعزیرات‘ کا مطالعہ کر لو۔
وہ: آپ کی بات درست ہوگی مگر ریاست تو اُن علما کی بات مانتی ہے جو ان معاملات میں ریاست کا حق کو تسلیم نہیں کرتے۔ہمارے ملک کا قانون انہی کی رائے پر بنا ہے اور عدالت بھی اسی کے تحت فیصلے دیتی ہے۔
میں:گویاہمارے علما‘معزز جج صاحبان اور لطیف کھوسہ جیسے جید وکیل‘ سب کا متفقہ فیصلہ ہے کہ شاہ رخ جتوئی بے گناہ ہے۔اچھاتوپھربتاؤ! شاہ زیب کو کس نے قتل کیا؟ وہ: یہ تو میں نہیں جانتا۔
میں: گویا تم نے مان لیا کہ کوئی قاتل نہیں ہے۔ اگر قاتل ہوتا تو اسے سزا ملتی۔ اگر قاتل نہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ مقتول بھی نہیں۔ جو ہم نے سنا محض ایک افسانہ تھا۔ اتنے معتبر لوگوں کی گواہی کے بعد ہی مجھے شک ہوا کہ گیاہ برس پہلے‘ شاہ زیب نام کا کوئی نوجوان قتل بھی ہوا تھا۔ میں اتنے لوگوں کو کیسے جھٹلا سکتا ہوں؟
وہ: آپ کو شک ہے مگر آپ کی باتیں سن کر مجھے یقین ہو گیا ہے کہ شاہ زیب قتل نہیں ہوا۔ جو دیکھا‘ وہ آنکھوں کا دھوکا تھا‘ جو سنا محض افسانہ تھا۔