سیاسی محاذ پر کامیاب طالبان‘ سماجی محاذ پرمسلسل پسپائی کا شکار کیوں ہیں؟ دین کے صریح احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے‘ مسلمان بیٹیوں پر تعلیم کے دروازے کیوں بند کیے جا رہے ہیں؟
طالبان افغانستان میں دو بار حکومت میں آئے۔ یہ اس کے باوجود ہوا کہ ایک دنیا ان کو اقتدار سے دور رکھنا چاہتی تھی۔ محض چاہتی ہی نہیں تھی‘ عالمی قوتوں نے اس کوشش میں کھربوں ڈالرلگا دیے مگر ناکام رہیں۔ اقتدار کی یہ جنگ انہوں نے بندوق ہی کے ساتھ نہیں لڑی‘ وہ سفارتی محاذ پر بھی سرگرم رہے۔ انہوں نے مذاکرات کی بساط بچھائی۔ قطر طویل عرصہ ان کی سفارتی سرگرمیوں کا مرکز رہا۔ انہوں نے عالمی قوتوں کے سیاسی خدشات کو سمجھا۔ انہیں یقین دہانی کرائی کہ انہیں طالبان سے اب وہ شکایات نہیں ہوں گی جو ماضی میں تھیں۔ یوں وہ سیاسی طور پر عالمی دنیا سے ہم آہنگ ہوگئے اور انہیں افغانستان کا بالفعل حکمران مان لیا گیا۔
یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ ایران بھی‘ ان دنوں سماجی محاذ پر پسپائی اختیار کیے ہوئے ہے۔ ایران کی قیادت نے بھی سیاسی محاذ پر غیرمعمولی کامیابی حاصل کی۔ وہاں بھی ایک دنیا کی مخالفت کے باوصف‘ مذہبی طبقہ اپنا اقتدار قائم کرنے اور رکھنے میں کامیاب ہوا۔ دوسر ی طرف خواتین کے معاملے میں حکمران طبقے کا رویہ طالبان سے قدرے ہی بہتر ہے۔ ایران میں عورتوں پر تعلیم یا سماج کے دروازے بند نہیں مگر ان کے سماجی کردار کا تعین مذہبی طبقے نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے۔ اس نے ایرانی سماج میں اضطراب پیدا کر دیا ہے اور اسے عالمی سطح پر بھی شدید تنقید کا سامنا ہے۔
سوال یہ ہے کہ سیاست میں کامیاب مذہبی طبقہ‘ سماجی مسائل کے معاملے میں اس پسماندگی کا شکار کیوں ہے؟ سیاست میں انہوں نے دنیا سے کامیاب معاملات کیے۔ اپنے وجود کو باقی رکھا۔ مذاکرات کیے۔ جنگیں لڑیں۔ مذہب یا نظریاتی تشخص بہت کم ان کے راستے میں حائل ہوا۔ اگر کہیں اختلاف ہوا بھی تو وہ مذہبی نوعیت کا نہیں تھا‘ مفاداتی تھا۔ لیکن ایسا کیوں ہے کہ جب خواتین کے سماجی کردار‘ آرٹ اور فنونِ لطیفہ جیسے مسائل زیرِ بحث آتے ہیں تویہ طبقات مذہب کا عَلم اٹھائے میدان میں نکل آتے ہیں؟
پہلے طالبان کی بات کرتے ہیں۔ طالبان‘ ہم جانتے ہیں کہ دیوبند کی روایت کا تسلسل ہیں۔ دیوبند کی رگوں میں‘ سیاست خون کی طرح دوڑتی ہے۔ دیوبند کی روایت میں یہ طے کرنا مشکل ہے کہ مذہب اہم ہے یا سیاست۔ سیاست‘ اس روایت میں ایک غیرمذہبی عمل ہے۔ دیوبند کی روایت میں سیاست زمینی حقیقتوں سے پھوٹا ہوا ایک فطری امر ہے۔ برصغیر کی سیاست کو اکابر علمائے دیوبند نے اسی نظر سے دیکھا۔ یہی سبب ہے کہ جمعیت علمائے ہند کو کانگرس کے ساتھ سیاسی وابستگی میں کوئی تکلف نہیں ہوا۔ قومیت کی جب مذہبی تعبیر سامنے آئی تو مولانا حسین احمد مدنی کو اپنا نقطۂ نظر واضح کرنا پڑا کہ عصری سیاسی حرکیات میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ گویا 'نیشنل ازم‘ کے مسئلے کو وہ خالصتاً غیرمذہبی بنیادوں پر دیکھ رہے تھے۔
اس اندازِ نظر نے اہلِ دیوبند میں سیاست اور زمینی حقائق میں مطابقت کا شعور پیدا کیا۔ دورِ جدید میں اس کا سب سے اہم مظہر مولانا فضل الرحمن کی سیاست ہے۔ مولانا نے سیاست کو کبھی مذہب کی نظر سے نہیں دیکھا‘ اِلا یہ کہ سیاسی مفاد اس کا متقاضی ہوا۔ طالبان بھی سیاست کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یوں دنیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے انہیں کوئی تکلف محسوس نہیں ہوتا اور اس معاملے میں انہوں نے ہمیشہ مہارت کا ثبوت دیا۔
دوسری طرف اس مذہبی طبقے نے سماج کو اس نظر سے نہیں دیکھا جس نگاہ سے سیاست کو دیکھا ہے۔ ان کا تصورِ سماج‘ مقامی کلچر سے متاثر ہے یا ان آرا سے جو قدیم فقہی کتابوں میں نقل ہوتی آئی ہیں۔ یہ تصورات بھی عرب کے کلچر سے پھوٹے ہیں‘ جنہیں مذہب کا حصہ بنا کر پیش کیا گیا۔ عرب کا کلچر پدر سرانہ تھا اور ہندوستان کا بھی۔ یوں خواتین کے معاملے میں اس کلچر کو اختیار کر لیا گیا جس میں عورت مرد کے تابع ایک مخلوق ہے۔ اس کی عزت‘ مستقبل‘ معیشت‘ خواہشات‘ ہر چیز کی باگ مرد کے ہاتھ میں ہے۔ وہ طے کرے گا کہ اس کے لیے کیا درست ہے اور کیا غلط۔ یہ فیصلہ مرد کریں گے کہ اسے تعلیم حاصل کرنی ہے یا نہیں۔ کرنی ہے تو کون سی؟
طالبان نے پہلے خواتین کے لیے اعلیٰ تعلیم کو چند شعبوں تک محدود کر دیا۔ پابندی لگا دی کہ وہ فلاں فلاں شعبے میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں۔ اب انہوں نے خواتین کے لیے اعلیٰ تعلیم پر مطلق پابندی لگا دی۔ خواتین کے باب میں یہ رویہ مقامی کلچر سے پھوٹا ہوا ہے جس کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ پس منظر میں وہی خیال کارفرما ہے کہ عورت کوئی آزاد یا مرد سے بے نیاز وجود نہیں رکھتی۔
ایران کے علما کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ایران کے علما جس مذہبی تعبیر کے حامل ہیں‘ وہ تاریخی اعتبارسے ایک سیاسی تحریک کے زیرِ اثروجود میں آیا۔ سیاست کے میدان میں وہاں کے علما کی علمی جولانیاں‘ انسانی ذہن کی غیر معمولی کارفرمائی کا مظہر ہیں۔ آیت اللہ خمینی صاحب نے ولایتِ فقیہ کے تصور کی جو تعبیرِ نو کی اور نائبِ امام کا تصور پیش کیا‘ وہ سیاسی حقیقت پسندی کی ایک مثال ہے۔ امام کی غیبتِ کبریٰ نے پورے طبقے کو جس طرح اقتدار سے دور کر دیا تھا‘ خمینی صاحب نے اس فاصلے کو کمال حکمت و بصیرت کے ساتھ سمیٹ دیا۔
طالبان کی طرح‘ ایرانی علما بھی سماج کے مسائل میں اس بصیرت کا مظاہرہ نہیں کر سکے جس کا انہوں نے سیاست کے میدان میں کیا۔ سیاست میں پہلے فکری رکاوٹوں کو دور کیا اور پھر شہنشاہ کے خلاف ایک شاندار تحریک چلا کر عملاً اپنا اقتدار قائم کر دیا۔ سماج کے معاملے میں مگر ایرانی معاشرہ آگے نہیں بڑھ سکا۔ طالبان سے بہت بہتر ہونے کے باوجود‘ ایرانی علما آج بھی پدر سرانہ سوچ رکھتے ہیں۔ یہ وہی ہیں جو طے کریں گے کہ عورت کو کیا کرنا ہے۔ خواتین فیصلہ سازی میں شریک نہیں۔ اگر ہیں تو اسی وقت جب وہ مذہبی طبقے کی حاکمیت کو قبول کر لیں۔
آج افغانستان اور ایران‘ دونوں دنیا سے کٹے ہوئے معاشرے ہیں۔ سعودی عرب بھی ایسا ہی ایک معاشرہ تھا مگر محمد بن سلمان کو اس کا ادراک ہو چلا ہے کہ کوئی سماج دنیا سے کٹ کر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ سعودی عرب کو ابھی طویل سفر درپیش ہے۔ اس مشورے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم خود کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں اور اپنے تہذیبی وجود سے بے نیاز ہو جائیں۔ سوچنا یہ ہے کہ اگر عورت کو اسلام نے مرد کی طرح ایک مکمل وجود مانا ہے اور قیامت کے دن وہ اپنے افعال کے لیے خود ذمہ دار ہوگی تو مرد اس کے افعال پر پابندیاں کیسے لگا سکتا ہے؟ ہمیں اس نظام کی طرف بڑھنا ہوگا جس میں مرد اور عورت مل کر یہ فیصلہ کریں کہ مرد پر کیا پابندیاں ہونی چاہئیں اور عورت پر کیا؟ مطلق آزادی نہ مرد کو حاصل ہے نہ عورت کو۔ ان پابندیوں کے لیے مذہب کی تعلیم‘ سماجی روایات‘ فرد کی شخصیت‘ انسان کے فکری و تہذہبی ارتقا سمیت سب عوامل کو سامنے رکھا جائے گا۔
افغانستان اور ایران کے مذہبی طبقات نے اگر سیاست کی طرح سماجی معاملات میں بھی زمینی حقائق اور عملی مسائل کو سامنے نہ رکھا تو ان کی سماجی تنہائی‘ ان کے مسائل میں اضافہ کرے گی اور داخلی سطح پر بھی اضطراب پیدا ہوگا۔ ان کو معاصر مسلم معاشروں اور دنیا کا سماجی مطالعہ کرنا چاہیے۔ دین کے مدعا کو قرآن و سنت سے سمجھنا چاہیے نہ کہ علاقائی کلچر سے۔